Yunus • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ فَإِن كُنتَ فِى شَكٍّۢ مِّمَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ فَسْـَٔلِ ٱلَّذِينَ يَقْرَءُونَ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَآءَكَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ ﴾
“AND SO, [O man,] if thou art in doubt about [the truth of] what We have [now] bestowed upon thee from on high, ask those who read the divine writ [revealed] before thy time: [and thou wilt find that,] surely, the truth has now come unto thee from thy Sustainer. Be not, then, among the doubters -”
آیت 94 فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ یہاں خطاب بظاہر محمد رسول اللہ سے ہے ‘ لیکن اس بات کا تو قطعاً کوئی امکان نہیں کہ آپ کو اس میں کوئی شک ہوتا لہٰذا اصل میں روئے سخن اہل مکہ کی طرف ہے۔ بعض اوقات جس سے بات کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے رویے کی وجہ سے اس سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اسے براہ راست مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے بات کی جاتی ہے تاکہ اصل مخاطب بالواسطہ طور پر اسے سن لے۔ چناچہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اے مشرکین مکہ ! اگر تم لوگوں کو اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے رسول پر نازل کی ہے :لَقَدْ جَآءَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ یہ اسی انداز تخاطب کا تسلسل ہے کہ حضور کو مخاطب کر کے مشرکین مکہ کو سنایا جا رہا ہے۔