🕋 تفسير سورة الإخلاص
(Al-Ikhlas) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
📘 آیت 1{ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ } ”کہہ دیجیے وہ اللہ یکتا ہے۔“ اَحَد : وہ اکیلا اور یکتا جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ وہی اکیلا ربّ ہے ‘ کسی دوسرے کا ربوبیت اور الوہیت میں کوئی حصہ نہیں۔ وہی تنہا کائنات کا خالق ‘ مالک الملک اور نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے۔
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
📘 آیت 3{ لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ۔ } ”نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔“ یعنی نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ یہ نکتہ سورة الجن میں بایں الفاظ واضح فرمایا گیا : { مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا۔ } ”اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی اختیار کی ہے اور نہ کوئی اولاد“۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کے بعض فرقے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔ اس آیت میں ایسے تمام عقائد باطلہ کی نفی کردی گئی ہے۔
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ
📘 آیت 4 { وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَ حَدٌ۔ } ”اور کوئی بھی اس کا کفو نہیں ہے۔“ کُفْو کے معنی ہم سر کے ہیں ‘ جو قدرت ‘ علم ‘ حکمت اور دیگر صفات میں ہم پلہ اور ہم پایہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا نہ تو کوئی ہم پلہ اور برابری کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضد ‘ ند ‘ مثل ‘ مثال ‘ مثیل وغیرہ ہے۔