slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الإخلاص

(Al-Ikhlas) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

📘 آیت 1{ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ } ”کہہ دیجیے وہ اللہ یکتا ہے۔“ اَحَد : وہ اکیلا اور یکتا جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ وہی اکیلا ربّ ہے ‘ کسی دوسرے کا ربوبیت اور الوہیت میں کوئی حصہ نہیں۔ وہی تنہا کائنات کا خالق ‘ مالک الملک اور نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے۔

اللَّهُ الصَّمَدُ

📘 آیت 2 { اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ } ”اللہ سب کا مرجع ہے۔“ صَمَد کے لغوی معنی ایسی مضبوط چٹان کے ہیں جس کو سہارا بنا کر کوئی جنگجو اپنے دشمن کے خلاف لڑتا ہے تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے۔ بعد میں یہ لفظ اسی مفہوم میں ایسے بڑے بڑے سرداروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو لوگوں کو پناہ دیتے تھے اور جن سے لوگ اپنے مسائل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ اس طرح اس لفظ میں مضبوط سہارے اور مرجع جس کی طرف رجوع کیا جائے کے معنی مستقل طور پر آگئے۔ چناچہ اَللّٰہُ الصَّمَدُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کا مرجع اور مضبوط سہارا ہے۔ وہ خود بخود قائم ہے ‘ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ باقی تمام مخلوقات کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے اور تمام مخلوق کی زندگی اور ہرچیز کا وجود اسی کی بدولت ہے۔ { وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلاَّ بِمَا شَآئَج } البقرۃ : 255 ”اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو وہ خود چاہے“۔ ظاہر ہے وہ الحی اور القیوم ہے ‘ یعنی خود زندہ ہے اور تمام مخلوق کو تھامے ہوئے ہے۔ باقی تمام مخلوقات کے ہر فرد کا وجود مستعار ہے اور کائنات میں جو زندہ چیزیں ہیں ان کی زندگی بھی مستعار ہے۔ جیسے ہم انسانوں کی زندگی بھی ”عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن !“ کے مصداق اسی کی عطا کردہ ہے۔

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ

📘 آیت 3{ لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ۔ } ”نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔“ یعنی نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ یہ نکتہ سورة الجن میں بایں الفاظ واضح فرمایا گیا : { مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا۔ } ”اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی اختیار کی ہے اور نہ کوئی اولاد“۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کے بعض فرقے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔ اس آیت میں ایسے تمام عقائد باطلہ کی نفی کردی گئی ہے۔

وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

📘 آیت 4 { وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَ حَدٌ۔ } ”اور کوئی بھی اس کا کفو نہیں ہے۔“ کُفْو کے معنی ہم سر کے ہیں ‘ جو قدرت ‘ علم ‘ حکمت اور دیگر صفات میں ہم پلہ اور ہم پایہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا نہ تو کوئی ہم پلہ اور برابری کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضد ‘ ند ‘ مثل ‘ مثال ‘ مثیل وغیرہ ہے۔