slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 32 من سورة سُورَةُ إِبۡرَاهِيمَ

Ibrahim • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًۭا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْفُلْكَ لِتَجْرِىَ فِى ٱلْبَحْرِ بِأَمْرِهِۦ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْأَنْهَٰرَ ﴾

“[And remember that] it is God who has created the heavens and the earth, and who sends down water from the sky and thereby brings forth [all manner] of fruits for your sustenance; and who has made ships subservient to. you, so that they may sail through the sea at His behest; and has made the rivers subservient [to His laws, so that they be of use] to you;”

📝 التفسير:

آیت 31 قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ یہاں یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے رسول اللہ کو مخاطب کر کے اہل ایمان کو بالواسطہ حکم دیا جا رہا ہے اور یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے اہل ایمان کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ پورے مکی قرآن میں یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے براہ راست مسلمانوں سے خطاب نہیں کیا گیا۔ سورۃ الحج میں ایک مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں مگر اس سورة کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس میں جو حکمت ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جہاں تک مجھے اس کی وجہ سمجھ میں آئی ہے وہ میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا طرز خطاب امت کے لیے ہے اور مکی دور میں مسلمان ابھی ایک امت نہیں بنے تھے۔ مسلمانوں کو امت کا درجہ مدینہ میں آکر تحویل قبلہ کے بعد ملا۔ پچھلے دو ہزار برس سے امت مسلمہ کے منصب پر یہودی فائز تھے۔ انہیں اس منصب سے معزول کر کے محمد رسول اللہ کی امت کو امت مسلمہ کا درجہ دیا گیا اور تحویل قبلہ اس تبدیلی کی ظاہری علامت قرار پایا۔ یعنی یہودیوں کے قبلہ کی حیثیت بطور قبلہ ختم کرنے کا مطلب یہ قرار پایا کہ انہیں امت مسلمہ کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے۔ چناچہ قرآن میں یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں سے خطاب اس کے بعد شروع ہوا۔وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌیہ آیت سورة البقرۃ کی آیت 254 سے بہت ملتی جلتی ہے۔ وہاں بیع اور دوستی کے علاوہ شفاعت کی بھی نفی کی گئی ہے : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ۔ یعنی اس دن سے پہلے پہلے ہمارے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرلو جس میں نہ کوئی بیع ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کسی کی شفاعت فائدہ مند ہوگی۔