Ibrahim • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَءَاتَىٰكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَظَلُومٌۭ كَفَّارٌۭ ﴾
“And [always] does He give you something out of what you may be asking of Him; and should you try to count God's blessings, you could never compute them. [And yet,] behold, man is indeed most persistent in wrongdoing, stubbornly ingrate!”
آیت 34 وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ یہ مانگنا شعوری بھی ہے اور غیر شعوری بھی۔ یعنی وہ تمام چیزیں بھی اللہ نے ہمارے لیے فراہم کی ہیں جن کا تقاضا ہمارا وجود کرتا ہے اور ہمیں اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسان کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ اسے کس کس انداز میں کس کس چیز کی ضرورت ہے اور اس کی ضرورت کی یہ چیزیں اسے کہاں کہاں سے دستیاب ہوں گی۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی دنیوی زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اسباب و نتائج کے ایسے ایسے سلسلے پیدا کردیے ہیں جن کا احاطہ کرنا انسانی عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اللہ نے بہت سی ایسی چیزیں بھی پیدا کر رکھی ہیں جن سے انسان کی ضرورتیں انجانے میں پوری ہور ہی ہیں۔ مثلاً ایک وقت تک انسان کو کب پتا تھا کہ کون سی چیز میں کون سا وٹامن پایا جاتا ہے۔ مگر وہ وٹامنز مختلف غذاؤں کے ذریعے سے انسان کی ضرورتیں اس طرح پوری کر رہے تھے کہ انسان کو اس کی خبر تک نہ تھی۔ بہر حال اللہ ہمیں وہ چیزیں بھی عطا کرتا ہے جو ہم اس سے شعوری طور پر مانگتے ہیں اور وہ بھی جو ہماری زندگی اور بقا کا فطری تقاضا ہیں۔وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌانسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو گن سکے۔ کفار ک کی زبر کے ساتھ یہاں فَعّال کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے یعنی نا شکری میں بہت بڑھا ہوا۔