Ibrahim • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ فَٱجْعَلْ أَفْـِٔدَةًۭ مِّنَ ٱلنَّاسِ تَهْوِىٓ إِلَيْهِمْ وَٱرْزُقْهُم مِّنَ ٱلثَّمَرَٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴾
“"O our Sustainer! Behold, I have settled some of my offspring in a valley in which there is no arable land, close to Thy sanctified Temple, so that, O our Sustainer, they might devote themselves to prayer: cause Thou, therefore, people's hearts to incline towards them and grant them fruitful sustenance, so that they might have cause to be grateful.”
آیت 37 رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ اے ہمارے پروردگار ! تیرے حکم کے مطابق میں نے یہاں تیرے اس محترم گھر کے پاس اپنی اولاد کو لا کر آباد کردیا ہے۔ حضرت ابراہیم کی دعا میں پہلے رَبِّ ‘ رَبِّ اے میرے پروردگار ! کا صیغہ آ رہا تھا مگر اب ”رَبَّنَا“ جمع کا صیغہ آگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپ کے ساتھ حضرت اسماعیل بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہاں پر عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ کے الفاظ سے ان روایات کو بھی تقویت ملتی ہے جن کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدم نے کی تھی۔ ان روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت آدم کا تعمیر کردہ بیت اللہ ابتدائی زمانہ میں گرگیا اور سیلاب کے سبب اس کی دیواریں وغیرہ بھی بہہ گئیں ‘ صرف بنیادیں باقی رہ گئیں۔ ان ہی بنیادوں پر پھر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اس کی تعمیر کی جس کا ذکر سورة البقرۃ کی آیت 127 میں ملتا ہے : وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط۔ بہرحال حضرت ابراہیم عرض کر رہے ہیں :رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا ہوجائے لوگ اطراف و جوانب سے ان کے پاس آئیں تاکہ اس طرح ان کے لیے یہاں رہنے اور بسنے کا بندوبست ہو سکے۔