slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الحجر

(Al-Hijr) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ

📘 آ الۗرٰ حروف مقطعات کا یہ سلسلہ سورة یونس سے شروع ہوا تھا۔ پانچ سورتوں کے آغاز میں الۗرٰ کے حروف ہیں اور ایک سورة الرعد میں ا آمآرٰ۔ یہ اس سلسلہ کی چھٹی اور آخری سورت ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 10 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ شِیَع ‘ شِیْعَۃ کی جمع ہے اور اس کے معنی الگ ہو کر پھیلنے والے گروہ کے ہیں۔ جیسے حضرت نوح کے بیٹوں کی نسلیں بڑھتی گئیں تو ان کے قبیلے اور گروہ علیحدہ ہوتے گئے اور یوں تقسیم ہو ہو کر روئے زمین پر پھیلتے گئے۔ اردو الفاظ ”اشاعت“ اور ”شائع“ بھی اسی مادہ سے مشتق ہیں ‘ چناچہ ان الفاظ میں بھی پھیلنے اور پھیلانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 10 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ شِیَع ‘ شِیْعَۃ کی جمع ہے اور اس کے معنی الگ ہو کر پھیلنے والے گروہ کے ہیں۔ جیسے حضرت نوح کے بیٹوں کی نسلیں بڑھتی گئیں تو ان کے قبیلے اور گروہ علیحدہ ہوتے گئے اور یوں تقسیم ہو ہو کر روئے زمین پر پھیلتے گئے۔ اردو الفاظ ”اشاعت“ اور ”شائع“ بھی اسی مادہ سے مشتق ہیں ‘ چناچہ ان الفاظ میں بھی پھیلنے اور پھیلانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

كَذَٰلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ

📘 آیت 12 كَذٰلِكَ نَسْلُكُهٗ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ حق کی دعوت اپنی تاثیر کی وجہ سے ہمیشہ مخاطبین کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ چناچہ جو لوگ انبیاء کی دعوت کو ٹھکراتے رہے ‘ وہ اس کی حقانیت کو خوب پہچان لینے کے بعد ٹھکراتے رہے۔ اس لیے کہ حق کو حق تسلیم کرنے سے ان کے مفادات پر زد پڑتی تھی۔

لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 13 لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ انبیاء و رسل کے مخاطبین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے۔ جس طرح ہم نے اپنے رسول محمد پر یہ ”الذکر“ نازل کیا ہے اسی طرح پہلے بھی ہم اپنے رسولوں پر کتابیں اور صحیفے نازل کرتے رہے ہیں ‘ مگر ان کی قوموں کے لوگ اکثر انکار ہی کرتے رہے۔

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ

📘 آیت 13 لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ انبیاء و رسل کے مخاطبین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے۔ جس طرح ہم نے اپنے رسول محمد پر یہ ”الذکر“ نازل کیا ہے اسی طرح پہلے بھی ہم اپنے رسولوں پر کتابیں اور صحیفے نازل کرتے رہے ہیں ‘ مگر ان کی قوموں کے لوگ اکثر انکار ہی کرتے رہے۔

لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ

📘 آیت 13 لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ انبیاء و رسل کے مخاطبین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے۔ جس طرح ہم نے اپنے رسول محمد پر یہ ”الذکر“ نازل کیا ہے اسی طرح پہلے بھی ہم اپنے رسولوں پر کتابیں اور صحیفے نازل کرتے رہے ہیں ‘ مگر ان کی قوموں کے لوگ اکثر انکار ہی کرتے رہے۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

📘 آیت 16 وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا للنّٰظِرِيْنَ ان برجوں کی اصل حقیقت کا ہمیں علم نہیں ہے اس لحاظ سے یہ آیت بھی آیات متشابہات میں سے ہے۔ البتہ رات کے وقت آسمان پر ستاروں کی بہار وہ دلکش منظر پیش کرتی ہے جس سے ہر دیکھنے والے کی آنکھ محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ

📘 آیت 17 وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ یہ گویا ہمارے ایمان بالغیب کا حصہ ہے کہ ان ستاروں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں انسان کی جدید تحقیق ماضی قریب میں ہوئی ہے ‘ لیکن ابھی بھی اس سلسلے میں انسانی علم بہت محدود ہے۔ وائرس اور بیکٹیریا کے بارے میں کچھ ہی عرصہ پہلے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی کوئی مخلوق ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں یقیناً بہت سے ایسے حقائق ہوں گے جن کے بارے میں اب بھی انسان کچھ نہیں جانتا۔ بہرحال اب تک جتنی مخلوقات کے بارے میں ہمیں علم ہے ان میں صرف تین قسم کی مخلوقات ایسی ہیں جن میں خود شعوری self consciousness پائی جاتی ہے ‘ یعنی ملائکہ جنات اور انسان۔ ان میں سے پہلے ملائکہ کو پیدا کیا گیا پھر جنات کو اور پھر انسان کو۔ گویا انسان اس کائنات کی تخلیق کے اعتبار سے Recent دور کی مخلوق ہے۔ البتہ انسانوں کی ارواح اسی دور میں پیدا کی گئیں جب ملائکہ کو پیدا کیا گیا۔ بہر حال خود شعوری صرف ان تین قسم کی مخلوقات میں ہی پائی جاتی ہے باقی جو بھی مخلوقات اس کائنات میں موجود ہیں چاہے وہ خشکی اور سمندر کے جانور ہوں یا ہوا میں اڑنے والے پرندے ان میں شعور تو ہے مگر خود شعوری نہیں ہے۔ جنات کی تخلیق چونکہ آگ سے ہوئی ہے لہٰذا ان کے اندر مخفی قوت potential energy انسانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ میرا گمان ہے کہ جنات کو سورج کی آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے انہیں پورے نظام شمسی کے دائرے میں آمد و رفت کی طاقت اور استعداد حاصل ہے اور اس کے لیے انہیں کسی راکٹ یا مشینی ذرائع کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی اسی استعداد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ عالم بالا سے اللہ تعالیٰ کے احکام اور تدبیرات کی ترسیل کے دوران ملائکہ سے کچھ خبریں اچکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر وہ ایسی خبریں انسانوں میں اپنے دوست دار عامل اور کاہن لوگوں کو بتاتے ہیں تاکہ وہ اپنی دکانیں چمکا سکیں۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے ایوان صدر سے احکام کی ترسیل و تقسیم کے دوران کوئی شخص متعلقہ اہلکاروں سے ان احکام کے بارے میں خبریں حاصل کر کے قبل ازوقت ان لوگوں تک پہنچا دے جو ان کے ذریعے سے اپنی دکانیں چمکانا چاہتے ہیں۔ جنات کو نظام شمسی کی حدود پھلانگنے سے روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں میزائل نصب کر رکھے ہیں۔ جب بھی کوئی جن اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر میزائل پھینکا جاتا ہے جسے ہم شہاب ثاقب کہتے ہیں۔ اس پورے نظام پر ہم ”کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا“ کے اصول کے تحت یقین رکھتے ہیں جو ہمارے ایمان بالغیب کا حصہ ہے۔ بہر حال سائنسی ترقی کے سبب کائنات کے بارے میں اب تک سامنے آنے والی معلومات اور ایجادات کے ساتھ بھی ان قرآنی معلومات کا کسی نہ کسی حد تک تطابق corroboration موجود ہے۔

إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ

📘 آیت 18 اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ جیسے ایک فرشتہ کچھ احکام لے کر آ رہا ہو اور کوئی جن اس سے کوئی سن گن لینے کی کوشش کرے۔ فرشتے نوری ہیں اور جن ناری مخلوق ہیں چناچہ نور اور نار کے درمیان زیادہ بعد نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ عزازیل ابلیس کا بھی ایک جن ہونے کے باوجود فرشتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌایسی خلاف ورزی کی صورت میں اس جن پر میزائل پھینکا جاتا ہے۔ یہ میزائل اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کے لیے ستاروں میں نصب کر رکھے ہیں۔

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ

📘 آیت 19 وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ زمین کے یہ لنگر پہاڑ ہیں جن کے بارے میں قرآن بار بار کہتا ہے کہ یہ زمین کی حرکت کو متوازن رکھنے Isostsasy کا ایک ذریعہ ہیں۔ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کائنات کے اس خدائی نظام میں ہرچیز کی مقدار اور تعداد اس حد تک ہی رکھی گئی ہے جس حد تک اس کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی چیز اس مقررہ حد سے بڑھے گی تو وہ اس نظام میں خلل کا باعث بنے گی۔ مثلاً بعض مچھلیوں کے انڈوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ تمام انڈے اگر مچھلیاں بن جائیں تو چند ہی سالوں میں ایک مچھلی کی اولاد اس زمین کے حجم سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائے۔ بہر حال اس کائنات کے نظام کو درست رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرچیز کو ایک طے شدہ اندازے اور ضرورت کے مطابق رکھا گیا ہے۔

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ

📘 آیت 2 رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ایک وقت آئے گا کہ ان لوگوں کے لیے ان کا کفر موجب حسرت بن جائے گا۔

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ

📘 آیت 20 وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ کچھ مخلوق تو ایسی ہے جس کی روزی اور کھانے پینے کا انتظام بظاہر انسانوں کی ذمہ داری ہے جیسے پالتو جانور مگر بہت سی مخلوقات ایسی ہیں جن کے رزق کی ذمہ داری انسانوں پر نہیں ہے مگر اللہ ان سب کو ان کے حصے کا رزق بہم پہنچا رہا ہے۔

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ

📘 آیت 21 وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ ہمارے خزانے اور وسائل لامحدود ہیں ‘ لیکن :وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ان لامتناہی اور لا محدود خزانوں سے صرف ضرورت کے مطابق اشیاء دنیا میں بھیجی جاتی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بڑے بڑے گوداموں سے ضرورت کے مطابق چیزوں کی ترسیل کی جاتی ہے۔

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ

📘 آیت 22 وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ لَوَاقِحَ کا مفہوم پہلے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں اور بارش کا سبب بنتی ہیں لیکن اب جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ polen grains بھی ہواؤں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں جن سے پھولوں کی فرٹیلائزیشن ہوتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یوں یہ سارا نباتاتی نظام بھی ہواؤں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ پانی مبدا حیات ہے۔ زمین پر ہر طرح کی زندگی کے وجود کا منبع اور سرچشمہ بھی پانی ہے اور پھر پانی پر ہی زندگی کی بقا کا انحصار بھی ہے۔ پانی کی اس اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کی تقسیم و ترسیل کا ایک لگا بندھا نظام وضع کیا ہے جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل کا نام دیا ہے۔ واٹر سائیکل کا یہ عظیم الشان نظام اللہ تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے۔ سمندروں سے ہواؤں تک بخارات پہنچا کر بارش اور برفباری کا انتظام گلیشیئرز کی شکل میں بلند وبالا پہاڑوں پر واٹر سٹوریج کا اہتمام پھر چشموں ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سے اس پانی کی وسیع و عریض میدانی علاقوں تک رسائی اور زیر زمین پانی کا عظیم الشان ذخیرہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ وہ واٹرسائیکل ہے جس پر پوری دنیا میں ہر قسم کی زندگی کا دارومدار ہے۔وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم پانی کے اس ذخیرے کو جمع کرتے۔

وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ

📘 آیت 23 وَاِنَّا لَنَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ یہ کائنات اور اس کی ہرچیز اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ظاہری ملکیت کا بھی کوئی دعویدار باقی نہیں رہے گا۔

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ

📘 آیت 24 وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ چونکہ یہ نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم جانتے ہیں ان لوگوں کو جو حق کی اس دعوت پر فوراً لبیک کہیں گے اور آگے بڑھ کر قرآن کو سینوں سے لگائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ التوبہ : 100 کے مصداق کون لوگ ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ابوبکر قبول حق کے لیے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائے گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان بھی اس دعوت کو فوراً قبول کرلے گا۔ یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ ابوبکر کی تبلیغ سے طلحہ زبیر عبدالرحمن بن عوف اور سعید بن زید جیسے لوگ فوراً ایمان لے آئیں گے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون کون بدنصیب ہیں جو اس سعادت کو سمیٹنے میں پیچھے رہ جائیں گے۔

وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 24 وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ چونکہ یہ نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم جانتے ہیں ان لوگوں کو جو حق کی اس دعوت پر فوراً لبیک کہیں گے اور آگے بڑھ کر قرآن کو سینوں سے لگائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ التوبہ : 100 کے مصداق کون لوگ ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ابوبکر قبول حق کے لیے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائے گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان بھی اس دعوت کو فوراً قبول کرلے گا۔ یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ ابوبکر کی تبلیغ سے طلحہ زبیر عبدالرحمن بن عوف اور سعید بن زید جیسے لوگ فوراً ایمان لے آئیں گے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون کون بدنصیب ہیں جو اس سعادت کو سمیٹنے میں پیچھے رہ جائیں گے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

📘 آیت 26 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ حَمَاٍ مَسْنُون سے سنا ہوا گارا مراد ہے ‘ جس سے بدبو بھی اٹھ رہی ہو۔ اس رکوع میں یہ ثقیل اصطلاح تین مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ انسان کے مادۂ تخلیق کے حوالے سے قرآن میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر تراب یعنی مٹی کا ذکر ہے ‘ چناچہ فرمایا : وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ الروم : 20۔ مٹی میں پانی مل کر گارا بن جائے تو اس گارے کو عربی میں ”طِین“ کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی تخلیق کے سلسلے میں طین کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الاعراف میں ہم شیطان کا یہ قول پڑھ آئے ہیں : خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ مجھے تو نے بنایا آگ سے اور اس آدم کو بنایا مٹی سے“۔ طین کے بعد ”طین لازب“ کا مرحلہ ہے۔ سورة الصّٰفٰت میں فرمایا گیا : اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ”طین لازب“ اصل میں وہ گارا ہے جو عمل تخمیر fermentation کی وجہ سے لیس دار ہوچکا ہو۔ عام طور پر گارے میں کوئی organic matter بھوسہ وغیرہ ملانے سے اس کی یہ شکل بنتی ہے۔ ”طین لازب“ کے بعد اگلا مرحلہ ”حماٍ مسنون“ کا ہے۔ اگر لیس دار گارا زیادہ دیر تک پڑا رہے اور اس میں سٹراند پیدا ہوجائے تو اس کو ”حماٍ مسنون“ کہا جاتا ہے۔ پھر اگر یہ سنا ہو اگارا حماٍ مسنون خشک ہو کر سخت ہوجائے تو یہ کھنکنے لگتا ہے۔ آپ نے کسی دریا کے ساحل کے قریب یا کسی دلدلی علاقے میں دیکھا ہوگا کہ زمین کے اوپر خشک پپڑی سی آجاتی ہے ‘ جس پر چلنے سے یہ آواز پیدا کر کے ٹوٹتی ہے۔ ایسی مٹی کے لیے قرآن نے ”صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ“ الرحمن : 14 کی اصطلاح استعمال کی ہے ‘ یعنی ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی۔انسان کے مادہ تخلیق کے لیے مندرجہ بالا تمام الفاظ میں سے صرف ایک بنیادی لفظ ہی کفایت کرسکتا تھا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ‘ لیکن اس ضمن میں ان مختلف الفاظ تُرَاب ‘ طِین ‘ طِین لازب ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون اور صلصالٍ کالفَخَّار کے استعمال میں یقیناً کوئی حکمت کارفرما ہوگی۔ ممکن ہے یہ تخلیق کے مختلف مراحل stages کا ذکر ہو اور اگر ایسا ہے تو نظریہ ارتقاء Evolution Theory کے ساتھ بھی اس کی تطبیق corroboration ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انسان کی تخلیق اگر خصوصی طور پر بھی عمل میں آئی ہو تو ہوسکتا ہے کہ باقی حیوانات ارتقائی انداز میں پیدا کیے گئے ہوں۔ بہرحال زمین کی حیوانی حیات کے بارے میں سائنس بھی قرآن سے متفق ہے کہ یہ تمام مخلوق مٹی اور پانی سے بنی ہے۔ ادھر قرآن فرماتا ہے کہ مبدأ حیات پانی ہے اور اس سلسلے میں سائنس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ساحلی علاقوں میں مٹی اور پانی کے اتصال سے دلدل بنی ‘ پھر اس دلدل کے اندر عمل تخمیر fermentation کے ذریعے سڑاند پیدا ہوئی تو وہاں ایلجی Algai یا امیبا Amoeba کی صورت میں نباتاتی یا حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ چناچہ سائنسی تحقیق یہاں قرآن سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے ‘ گویا : ”متفق گر دید رائے بو علی بارائے من !“

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ

📘 آیت 27 وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ یہ لفظ ”سموم“ اردو میں بھی معروف ہے۔ موسم گرما میں صحرا میں چلنے والی تیز گرم ہوا کو باد سموم کہتے ہیں۔ آگ کے شعلے کا وہ حصہ جو بظاہر نظر آتا ہے اس کے گرد ہالے کی شکل میں اس کا وہ حصہ ہوتا ہے جو عام طور پر نظر نہیں آتا۔ شعلے کے اس نظر نہ آنے والے حصے کا درجہ حرارت نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں ”نار سموم“ سے مراد آگ کی وہی لپٹ یا لو مراد ہے جو شدید گرم ہوتی ہے اور اسی سے جنات کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جنات کو اگرچہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے مگر وہ آگ نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے مگر ہم مٹی نہیں ہیں۔ دوسری اہم بات یہاں یہ واضح ہوئی کہّ جناتِ کو انسانوں سے بہت پہلے پیدا کیا گیا تھا۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

📘 آیت 28 وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ یہاں پھر وہی ثقیل اصطلاح صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ استعمال ہوئی ہے۔ انسانی تخلیق کی ابتدا کے بارے میں ایک نکتہ یہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں جہاں بھی تخلیق کے ان ابتدائی مراحل کا ذکر آیا ہے ‘ وہاں لفظ آدم استعمال نہیں ہوا ‘ بلکہ بشر اور انسان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پورے قرآن میں صرف سورة آل عمران کی آیت 59 ایسی ہے جہاں اس ابتدائی تخلیق کے ضمن میں آدم کا ذکر اس طرح آیا ہے : اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ”یقیناً عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔“

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ

📘 آیت 29 فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ کسی بھی تخلیق کے بعد اس کا تسویہ ضروری ہوتا ہے۔ پہلے بنیادی ڈھانچہ بنایا جاتا ہے اور پھر اس کی نوک پلک سنواری جاتی ہے۔ جیسے ایک عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کے بعد اس کی آرائش و زیبائش کی جاتی ہے اور رنگ و روغن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْازمین میں جو مہلت انہیں ملی ہوئی ہے اس میں خوب مزے کرلیں۔وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ اَلْھٰی ‘ یُلْھِی ‘ اِلْھَاءً کے معنی ہیں غافل کردینا۔ سورة التکاثر میں فرمایا گیا : اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۔ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ”غافل کیے رکھا تمہیں کثرت کی خواہش کے مقابلے نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں“۔ انسان کے لمبے لمبے منصوبے بنانے کو ”طولِ اَمل“ کہتے ہیں۔ جب انسان اس گورکھ دھندے میں پڑجائے ‘ تو خواہشوں اور آرزوؤں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا ‘ مگر زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ حدیث نبوی ہے : مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی یعنی اگر کوئی شے کم ہے لیکن آپ کو کفایت کر جائے ‘ آپ کی ضرورت اس سے پوری ہوجائے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی ضرورت سے زیادہ ہو اور آپ کو اپنے خالق اور مالک کی یاد سے غافل کر دے۔ اگر مال و دولت کی ریل پیل ہے ‘ رزق اور سامان آسائش کی فراوانی ہے ‘ کبھی کوئی حاجت پریشان نہیں کرتی ‘ کوئی محرومی ‘ کوئی نارسائی اللہ کی یاد تازہ کرنے کا سبب نہیں بنتی ‘ تو ایسی حالت میں رفتہ رفتہ انسان کے بالکل غافل ہوجانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ اتنا ملے جس سے ضرورت پوری ہوجائے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس قدر فراوانی نہ ہو کہ غفلت غلبہ پالے۔

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ

📘 آیت 30 فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ میں بہت تاکید پائی جاتی ہے کہ سب کے سب نے اکٹھے ہو کر سجدہ کیا ‘ اور ان میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ رہا۔ جبرائیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل ‘ عزرائیل سمیت سب جھک گئے ‘ کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ فرشتوں کے ساتھ ذکر آنے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے ابلیس بھی فرشتہ تھا ‘ مگر وہ فرشتہ نہیں تھا ‘ جیسا کہ سورة الکہف کی آیت 50 میں ”کَانَ مِنَ الْجِنِّ“ فرما کر واضح کردیا گیا کہ وہ جنات میں سے تھا۔

إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَنْ يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ

📘 آیت 30 فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ میں بہت تاکید پائی جاتی ہے کہ سب کے سب نے اکٹھے ہو کر سجدہ کیا ‘ اور ان میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ رہا۔ جبرائیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل ‘ عزرائیل سمیت سب جھک گئے ‘ کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ فرشتوں کے ساتھ ذکر آنے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے ابلیس بھی فرشتہ تھا ‘ مگر وہ فرشتہ نہیں تھا ‘ جیسا کہ سورة الکہف کی آیت 50 میں ”کَانَ مِنَ الْجِنِّ“ فرما کر واضح کردیا گیا کہ وہ جنات میں سے تھا۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ

📘 آیت 30 فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ میں بہت تاکید پائی جاتی ہے کہ سب کے سب نے اکٹھے ہو کر سجدہ کیا ‘ اور ان میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ رہا۔ جبرائیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل ‘ عزرائیل سمیت سب جھک گئے ‘ کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ فرشتوں کے ساتھ ذکر آنے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے ابلیس بھی فرشتہ تھا ‘ مگر وہ فرشتہ نہیں تھا ‘ جیسا کہ سورة الکہف کی آیت 50 میں ”کَانَ مِنَ الْجِنِّ“ فرما کر واضح کردیا گیا کہ وہ جنات میں سے تھا۔

قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

📘 آیت 30 فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ میں بہت تاکید پائی جاتی ہے کہ سب کے سب نے اکٹھے ہو کر سجدہ کیا ‘ اور ان میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ رہا۔ جبرائیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل ‘ عزرائیل سمیت سب جھک گئے ‘ کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ فرشتوں کے ساتھ ذکر آنے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے ابلیس بھی فرشتہ تھا ‘ مگر وہ فرشتہ نہیں تھا ‘ جیسا کہ سورة الکہف کی آیت 50 میں ”کَانَ مِنَ الْجِنِّ“ فرما کر واضح کردیا گیا کہ وہ جنات میں سے تھا۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ

📘 آیت 34 قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌآدم کو سجدہ کرنے کے حکم الٰہی کا انکار کر کے تم راندہ درگاہ ہوچکے ہو۔ اب یہاں سے فی الفور نکل جاؤ !

وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ

📘 آیت 34 قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌآدم کو سجدہ کرنے کے حکم الٰہی کا انکار کر کے تم راندہ درگاہ ہوچکے ہو۔ اب یہاں سے فی الفور نکل جاؤ !

قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

📘 آیت 34 قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌآدم کو سجدہ کرنے کے حکم الٰہی کا انکار کر کے تم راندہ درگاہ ہوچکے ہو۔ اب یہاں سے فی الفور نکل جاؤ !

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ

📘 آیت 34 قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌآدم کو سجدہ کرنے کے حکم الٰہی کا انکار کر کے تم راندہ درگاہ ہوچکے ہو۔ اب یہاں سے فی الفور نکل جاؤ !

إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ

📘 آیت 38 اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ یعنی روز قیامت تک تم زندہ رہو گے۔ ویسے تو جنوں کی عمریں انسانوں سے کافی زیادہ ہوتی ہوں گی مگر ایسا کوئی جن بھی نہیں ہے جو اس ابتدائی تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک زندہ ہو ‘ ماسوائے اس ایک جن کے جس کا نام عزازیل ہے۔ باقی اس کی اولاد اور ذریت اپنی جگہ ہے۔

قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 39 قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ابلیس اپنی اس گمراہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رہا ہے۔لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ کہ میں اولاد آدم کے لیے زمین میں دنیا کی رونقوں اور اس کی آرائش و زیبائش کو اس حد تک پرکشش بنا دوں گا کہ وہ اس میں گم ہو کر آپ کو اور آپ کے احکام کو بھول جائیں گے۔ اس طرح میں ان سب کو آپ کے سیدھے راستے سے گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔

وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَعْلُومٌ

📘 وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌہر قوم پر آنے والے عذاب کا ایک وقت معین تھا جو پہلے سے لکھا ہوا تھا۔

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ

📘 آیت 40 اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ مخلَصین لام کی زبر کے ساتھ سے مراد وہ بندے ہیں جنہیں اللہ خاص اپنے لیے چن لے یعنی اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے۔ اللہ کے ایسے بندوں کے بارے میں شیطان کا اعتراف ہے کہ ان پر میرا زور نہیں چلے گا۔

قَالَ هَٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ

📘 آیت 41 قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَــقِيْمٌیعنی میرے اور تمہارے درمیان یہ معاملہ طے ہوگیا تمہیں مہلت دے دی گئی۔ مجھ تک پہنچنے کا راستہ بالکل واضح ہے۔ تم اولاد آدم کو اس راستے سے بہکانے کے لیے اپنا زور آزما لو۔

إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ

📘 آیت 42 اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌیعنی صرف ”مُخلَصین“ ہی کی تخصیص نہیں ہے بلکہ کسی انسان پر بھی تجھے اختیار نہیں ہوگا۔اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ جو لوگ ”غاوین“ میں سے ہوں گے ‘ خود ان کے اندر سرکشی ہوگی ‘ وہ خود اپنی نفس پرستی کی طرف مائل ہو کر تیری پیروی کریں گے ‘ ان کو لے جا کر تو گمراہی کے جس گڑھے میں چاہے پھینک دے اور جہنم کی جس وادی میں چاہے ان کو گرا دے ‘ مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن میرے کسی فرمانبردار بندے پر تجھے کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔

وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 43 وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِيْنَ جو لوگ بھی تیری پیروی کریں گے ان سب کے لیے جہنم کا وعدہ ہے۔

لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ

📘 آیت 44 لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌجہنم کے ہر دروازے میں سے داخل ہونے والے جنوں اور انسانوں کو مخصوص کردیا گیا ہے۔ ممکن ہے دروازوں کی یہ تقسیم و تخصیص گناہوں کی نوعیت کے اعتبار سے ہو۔ واللہ اعلم !اہل جہنم کے ذکر کے بعد اب اہل جنت کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ موازنے اور فوری تقابل simultaneous contrast کا یہ انداز و اسلوب قرآن میں ہمیں جگہ جگہ ملتا ہے۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

📘 آیت 44 لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌجہنم کے ہر دروازے میں سے داخل ہونے والے جنوں اور انسانوں کو مخصوص کردیا گیا ہے۔ ممکن ہے دروازوں کی یہ تقسیم و تخصیص گناہوں کی نوعیت کے اعتبار سے ہو۔ واللہ اعلم !اہل جہنم کے ذکر کے بعد اب اہل جنت کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ موازنے اور فوری تقابل simultaneous contrast کا یہ انداز و اسلوب قرآن میں ہمیں جگہ جگہ ملتا ہے۔

ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ

📘 اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِيْنَ یہاں تم ہر طرح سے امن میں رہو گے تمہیں کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ

📘 آیت 47 وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ یہ مضمون بالکل انہی الفاظ میں سورة الاعراف آیت 43 میں بھی آچکا ہے۔ اہل ایمان کی آپس کی رنجشیں کدورتیں اور شکایتیں ختم کر کے ان کے دلوں کو ہر قسم کے تکدر سے پاک کردیا جائے گا۔ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ جب کسی سے ناراضگی ہو تو آدمی آنکھیں چار نہیں کرتا لیکن اہل جنت کے دل چونکہ ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوں گے ‘ اس لیے وہ آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں گے۔

لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ

📘 آیت 48 لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ اہل جنت کو جنت میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے نکالے جانے کا کھٹکا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس میں انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی ہوگی۔

۞ نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 48 لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ اہل جنت کو جنت میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے نکالے جانے کا کھٹکا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس میں انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی ہوگی۔

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ

📘 وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌہر قوم پر آنے والے عذاب کا ایک وقت معین تھا جو پہلے سے لکھا ہوا تھا۔

وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ

📘 آیت 50 وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ یقینا میں غفور اور رحیم ہوں مگر دوسری طرف میرا عذاب بھی بہت سخت ہوتا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص نڈر اور نچنت بھی نہ ہوجائے ‘ بلکہ میرے بندوں کو ہر وقت ”بین الخوف و الرجا“ کی کیفیت میں رہنا چاہیے۔ وہ میری رحمت اور مغفرت کی امید بھی رکھیں اور میرے عذاب سے ڈرتے بھی رہیں۔

وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ

📘 آیت 51 وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ یہ واقعہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہم سورة ہود کے ساتویں رکوع میں بھی پڑھ چکے ہیں۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ

📘 آیت 52 اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ آپ کے اجنبی ہونے کی وجہ سے ہمیں آپ سے خدشہ ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا اگر آپ لوگ اپنی شناخت کروادیں۔

قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ

📘 آیت 53 قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری دی۔ حضرت اسماعیل کی ولادت اس سے چند برس قبل ہوچکی تھی۔ واضح رہے کہ قرآن حکیم میں حضرت اسماعیل کے لیے ”غلام حلیم“ اور حضرت اسحاق کے لیے ”غلام علیم“ کے الفاظ آتے ہیں۔

قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَىٰ أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ

📘 آیت 54 قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِيْ عَلٰٓي اَنْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ عَلٰی یہاں پر ”علی الرغم“ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے کہ میرے بڑھاپے کے باوجود تم مجھے جو بیٹے کی خوشخبری دے رہے ہو تو کہیں تم لوگوں کو کوئی مغالطہ تو نہیں ہو رہا ؟

قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ

📘 آیت 55 قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ انہوں نے بتایا کہ ہم آپ کے رب کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور یہ جو بشارت ہم نے آپ کو دی ہے یہ حقیقی اور قطعی بات ہے ‘ بالکل ایسا ہی ہوگا۔

قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ

📘 آیت 56 قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت سے حضرت ابراہیم کو ستاسی 87 برس کی عمر میں بیٹا عطا کیا۔ اسی طرح کا معاملہ حضرت زکریا کے ساتھ بھی پیش آیا۔ حضرت زکریا کی زوجہ محترمہ ساری عمر بانجھ رہیں مگر جب وہ دونوں میاں بیوی بہت بوڑھے ہوچکے تھے تو اللہ نے انہیں بیٹا حضرت یحییٰ عطا کیا۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ

📘 آیت 57 قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ اب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ آپ کو کیا مہم درپیش ہے ؟

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُجْرِمِينَ

📘 آیت 57 قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ اب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ آپ کو کیا مہم درپیش ہے ؟

إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 57 قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ اب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ آپ کو کیا مہم درپیش ہے ؟

وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ

📘 وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌمعاذ اللہ ! ثم معاذ اللہ ! ! مجنون ”جن“ سے مشتق ہے۔ عربی میں جن کے معنی مخفی چیز کے ہیں۔ اسی معنی میں رحم مادر میں بچے کو جنین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے لفظ ”جنت“ بھی اسی مادہ سے ہے اور اس سے مراد ایسی زمین ہے جو درختوں اور گھاس وغیرہ سے پوری طرح ڈھکی ہوئی ہو۔ سورة الانعام آیت 76 میں حضرت ابراہیم کے تذکرے میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ یعنی جب رات کی تاریکی نے اسے ڈھانپ لیا۔ چناچہ مجنون اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جس پر جن کے اثرات ہوں آسیب کا سایہ ہو اور اس کو بھی جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو۔ رسول اللہ کے بارے میں یہ بات وحی کے بالکل ابتدائی دور میں کہی گئی تھی اور اس کے کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس طرح کے خیالات کا اظہار معاندانہ انداز میں نہیں بلکہ ہمدردی میں کر رہے تھے۔ یعنی جب ابتدا میں حضور نے نبوت کا دعویٰ کیا اور بتایا کہ غار حرا میں ان کے پاس فرشتہ آیا ہے تو بہت سے لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید آپ کو کسی بد روح وغیرہ کا اثر ہوگیا ہے۔ چونکہ نبوت ملنے اور فرشتہ کے آنے کا دعویٰ ان کے لیے بالکل نئی بات تھی اس لیے ان کا واقعی یہ خیال تھا کہ اکیلے کئی کئی راتیں غار حرا میں رہنے کی وجہ سے ضرور آپ پر کسی بد روح یا جن کے اثرات ہوگئے ہیں۔ چناچہ سورة نٓ اس کا دوسرا نام سورة القلم بھی ہے جو کہ بالکل ابتدائی دور کی سورة ہے ‘ اس میں ان لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا : مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ ”آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔“

إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا ۙ إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ

📘 آیت 57 قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ اب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ آپ کو کیا مہم درپیش ہے ؟

فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ

📘 آیت 57 قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ اب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ آپ کو کیا مہم درپیش ہے ؟

قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ

📘 آیت 62 قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ حضرت لوط نے دیکھا کہ یہ بالکل اجنبی لوگ ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں اور کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے ؟

قَالُوا بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ

📘 آیت 63 قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ حضرت لوط جب اپنی قوم کو متنبہ کرتے تھے کہ اگر تم لوگ شرک سے اور اس فعل خبیث سے باز نہیں آؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا ‘ تو وہ آپ کا مذاق اڑاتے تھے ‘ کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ ان پر واقعی عذاب آجائے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ آج ہم وہی عذاب لے کر آگئے ہیں جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں تھے۔

وَأَتَيْنَاكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

📘 آیت 63 قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ حضرت لوط جب اپنی قوم کو متنبہ کرتے تھے کہ اگر تم لوگ شرک سے اور اس فعل خبیث سے باز نہیں آؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا ‘ تو وہ آپ کا مذاق اڑاتے تھے ‘ کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ ان پر واقعی عذاب آجائے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ آج ہم وہی عذاب لے کر آگئے ہیں جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں تھے۔

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ

📘 آیت 65 فَاَسْرِ بِاَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَہُمْ وَلاَ یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ ”یعنی آپ لوگ صبح ہونے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جائیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اب دوستی اور ہمدردی جیسے جذبات کا اظہار کسی بھی شکل میں نہیں ہونا چاہیے۔

وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَٰلِكَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَٰؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ

📘 آیت 66 وَقَضَيْنَآ اِلَيْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ هٰٓؤُلَاۗءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِيْنَ وہاں سے نکلنے سے پہلے حضرت لوط کو بتادیا گیا کہ اس پوری قوم کو تہس نہس کردیا جائے گا اور یہاں کوئی ایک متنفس بھی نہیں بچے گا۔

وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ

📘 آیت 67 وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ حضرت لوط کے ہاں خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر بد قماش قسم کے لوگوں نے خوشی خوشی آپ کے گھر پر یلغار کردی۔

قَالَ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ

📘 آیت 67 وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ حضرت لوط کے ہاں خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر بد قماش قسم کے لوگوں نے خوشی خوشی آپ کے گھر پر یلغار کردی۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ

📘 آیت 67 وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ حضرت لوط کے ہاں خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر بد قماش قسم کے لوگوں نے خوشی خوشی آپ کے گھر پر یلغار کردی۔

لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

📘 لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ان باتوں کا جواب آ رہا ہے :

قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 70 قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَــنْهَكَ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ کیا ہم آپ کو منع نہیں کرچکے کہ آپ ہر کسی کی طرف داری کرتے ہوئے ہمارے معاملے میں دخل اندازی نہ کیا کریں۔ ہم جس کے ساتھ جو چاہیں کریں آپ بیچ میں آنے والے کون ہوتے ہیں ؟

قَالَ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ

📘 آیت 71 قَالَ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِيْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ قبل ازیں اس فقرے کی وضاحت ہوچکی ہے۔ یعنی میری قوم کی بیٹیاں جو تمہارے گھروں میں موجود ہیں ان کی طرف رجوع کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے لیے فطری ساتھی بنایا ہے۔ اس فقرے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے اتمام حجت کے لیے ان میں سے دو سرداروں کو یہاں تک کہہ دیا ہو کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو میں اپنی بیٹیوں کا نکاح تم سے کیے دیتا ہوں۔

لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 آیت 72 لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ عمہ کے مادہ میں دل کے اندھے پن کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی ان لوگوں کے دل بھلائی اور برائی کی تمیز سے بالکل عاری ہوگئے تھے۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ

📘 آیت 73 فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ یعنی پو پھٹتے ہی ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا ایک زبردست چنگھاڑ کے ساتھ ٹوٹ پڑا۔

فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ

📘 آیت 74 فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ یعنی ان آبادیوں کو پوری طرح تلپٹ کردیا گیا اور ان پر سنگ گل کی بارش برسائی گئی۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ

📘 آیت 75 اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ”متوسمین“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقیہ ‘ آیات تاریخیہ ‘ آیات انفسیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعے سے حقیقت کو جاننا اور پہچاننا چاہیں۔ اسم اصل مادہ ”س م و“ ہے۔ الف اس کے حروف اصلیہ میں سے نہیں ہے کے معنی علامت کے ہیں۔ اردو میں لفظ ”اسم“ کو نام کے مترادف کے طور پر جانا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ کسی چیز یا شخص کا نام بھی ایک علامت کا کام دیتا ہے جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا جو اصحاب بصیرت علامتوں سے متوسم باب تفعل ہوتے ہیں ‘ ان کے لیے ایسے واقعات میں سامان عبرت موجود ہے۔

وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُقِيمٍ

📘 آیت 76 وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ قوم لوط کی یہ بستیاں اس شاہراہ عام پر واقع تھیں جو یمن بحیرۂ عرب اور شام بحیرۂ روم کے ساحلوں کو آپس میں ملاتی تھی۔ مشرقی ممالک ہندوستان ‘ چین ‘ جاوا ‘ ملایا وغیرہ سے یورپ جانے کے لیے جو سامان آتا تھا وہ یمن کے ساحل پر اتارا جاتا تھا اور پھر اس راستے سے تجارتی قافلے اسے شام اور فلسطین کے ساحل پر پہنچا دیتے تھے۔ اسی طرح یورپ سے مشرقی ممالک کے لیے آنے والا سامان شام کے ساحل پر اترتا تھا اور یہی قافلے اسے یمن کے ساحل پر پہنچانے کا ذریعہ بنتے تھے۔ اس وقت نہر سویز بھی نہیں بنی تھی اور ”راس امید“ والا راستہ Around the Cape of Good Hope بھی دریافت نہیں ہوا تھا ‘ جو واسکو ڈے گا ما نے 1498 ء میں تلاش کیا۔ چناچہ یہ شاہراہ اس زمانے میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارتی رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 76 وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ قوم لوط کی یہ بستیاں اس شاہراہ عام پر واقع تھیں جو یمن بحیرۂ عرب اور شام بحیرۂ روم کے ساحلوں کو آپس میں ملاتی تھی۔ مشرقی ممالک ہندوستان ‘ چین ‘ جاوا ‘ ملایا وغیرہ سے یورپ جانے کے لیے جو سامان آتا تھا وہ یمن کے ساحل پر اتارا جاتا تھا اور پھر اس راستے سے تجارتی قافلے اسے شام اور فلسطین کے ساحل پر پہنچا دیتے تھے۔ اسی طرح یورپ سے مشرقی ممالک کے لیے آنے والا سامان شام کے ساحل پر اترتا تھا اور یہی قافلے اسے یمن کے ساحل پر پہنچانے کا ذریعہ بنتے تھے۔ اس وقت نہر سویز بھی نہیں بنی تھی اور ”راس امید“ والا راستہ Around the Cape of Good Hope بھی دریافت نہیں ہوا تھا ‘ جو واسکو ڈے گا ما نے 1498 ء میں تلاش کیا۔ چناچہ یہ شاہراہ اس زمانے میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارتی رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔

وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ

📘 آیت 78 وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ لَظٰلِمِيْنَ ”اصحاب الایکہ“ سے اہل مدین مراد ہیں۔ یہ حضرت شعیب کی قوم تھی مگر یہاں اس قوم کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا نام نہیں لایا گیا۔ ان سب اقوام کا تذکرہ یہاں پر انباء الرسل کے انداز میں ہورہا ہے۔

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ

📘 آیت 79 فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۘ وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ اس سے مراد وہی تجارتی شاہراہ ہے جس کا ذکر ابھی ہوا ہے۔ یہ اصحاب حجر کے مساکن سے بھی ہو کر گزرتی تھی جبکہ اہل مدین کی آبادیاں اور قوم لوط کی بستیاں بھی اسی شاہراہ پر واقع تھیں۔

مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذًا مُنْظَرِينَ

📘 آیت 8 مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ یعنی یہ لوگ فرشتوں کو بلانا چاہتے ہیں یا اپنی شامت کو ؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عاد وثمود اور قوم لوط پر فرشتے نازل ہوئے تو کس غرض سے نازل ہوئے ! انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فرشتے جب کسی قوم پر نازل ہوتے ہیں تو آخری فیصلے کے نفاذ کے لیے نازل ہوتے ہیں۔

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ

📘 آیت 80 وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ اصحاب الحجر سے مراد قوم ثمود ہے۔ قوم ثمود حجر کے علاقے میں آباد تھی اور ان کی طرف حضرت صالح مبعوث کیے گئے تھے۔ جیسے حضرت ہود کی قوم عاد کا ذکر ”احقاف“ کے حوالے سے بھی ہوا ہے ملاحظہ ہو سورة الاحقاف جو اس قوم کا علاقہ تھا ‘ اسی طرح قوم ثمود کا ذکر یہاں ”اصحاب الحجر“ کے نام سے ہوا ہے۔ یہاں پر ”مرسلین“ کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم میں پہلے بہت سے انبیاء آئے اور پھر آخر میں رسول کی حیثیت سے حضرت صالح تشریف لائے۔

وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

📘 آیت 81 وَاٰتَيْنٰهُمْ اٰيٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ قوم ثمود کو بطور خاص اونٹنی کی صورت میں حسی معجزہ دکھایا گیا تھا کہ ایک چٹان شق ہوئی اور اس کے اندر سے ایک خوبصورت گابھن اونٹنی برآمد ہوگئی۔

وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ

📘 آیت 82 وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ قوم ثمود کے یہ گھر آج بھی موجود ہیں اور دیکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہے ہیں۔ میں نے خود بھی ان کا مشاہدہ کیا ہے۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ

📘 آیت 82 وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ قوم ثمود کے یہ گھر آج بھی موجود ہیں اور دیکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہے ہیں۔ میں نے خود بھی ان کا مشاہدہ کیا ہے۔

فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 آیت 84 فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ وہ خوشحال قوم تھی مگر انہوں نے جو مال و اسباب جمع کر رکھا تھا وہ انہیں عذاب الٰہی سے بچانے کے لیے کچھ بھی مفید ثابت نہ ہوسکا۔اس سورة مبارکہ میں اب تک تین رسولوں کا ذکر ”انباء الرسل“ کے انداز میں ہوا ہے۔ ان میں سے حضرت شعیب اور حضرت صالح کا نام لیے بغیر ان کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ حضرت لوط کا ذکر نام لے کر کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم کا ذکر یہاں بھی قصص النبیین کے انداز میں آیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح سورة ہود میں آیا تھا۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ

📘 اس سورة کی آخری پندرہ آیات دعوت دین کے اعتبار سے بہت اہم ہیںآیت 85 وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ یہ کائنات ایک با مقصد تخلیق ہے کوئی کھیل تماشا نہیں۔ ہندو مائتھالوجی کی طرز پر یہ کوئی رام کی لیلا نہیں ہے کہ رام جی جس کو چاہیں راجہ بنا کر تخت پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں تخت سے نیچے پٹخ دیں بلکہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تخلیق با معنی اور با مقصد ہے۔ اس حقیقت کو سورة آل عمران میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ”اے ہمارے رب ! تو نے یہ کائنات بےمقصد نہیں بنائی تیری ذات اس سے بہت اعلیٰ اور پاک ہے لہٰذا ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔“وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌچونکہ یہ کائنات اور اس کی ہرچیز حق کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے لہٰذا اس حق کا منطقی تقاضا ہے کہ ایک یوم حساب آئے ‘ لہٰذا قیامت آکر رہے گی۔ اس کائنات کا بغور جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو منطقی سوال اٹھتا ہے کہ پھر انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ اور انسان کے اندر جو اخلاقی حس پیدا کی گئی ہے ‘ اسے پیدائشی طور پر نیکی اور بدی کی جو تمیز دی گئی ہے یہاں دنیا میں اس سے کیا نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ؟ اس دنیا میں تو اخلاقیات کے اصولوں کے برعکس نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہاں چور ڈاکو اور لٹیرے عیش کرتے نظر آتے ہیں اور نیک سیرت لوگ فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا اس صورت حال کا منطقی تقاضا ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو جس میں ہر شخص کا پورا پورا حساب ہو اور ہر شخص کو ایسا صلہ اور بدلہ ملے جو اس کے اعمال کے عین مطابق ہو۔فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ یہ مجرم لوگ ہماری پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ قیامت آئے گی اور یہ لوگ ضرور کیفر کردار کو پہنچیں گے ‘ مگر ابھی ہم انہیں ڈھیل دینا چاہتے ہیں مزید کچھ دیر کے لیے مہلت دینا چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ فی الحال ان کی دل آزار باتیں برداشت کریں ‘ ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے جواب میں صبر کریں اور احسن انداز میں اس سب کچھ کو نظر انداز کردیں۔ اسّ رویے اور ایسے طرز عمل سے آپ کے درجات بلند ہوں گے۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 86 اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ وہ جو پیدا کرنے والا ہے اپنی مخلوق کو خوب جانتا بھی ہے۔ سورة الملک میں فرمایا گیا : اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ”کیا اسی کے علم میں نہیں ہوگا جس نے پیدا کیا ؟ بلکہ وہ تو نہایت باریک بین باخبر ہے“۔ کسی مشین کو بنانے والا اس کے تمام کل پرزوں سے خوب واقف ہوتا ہے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ

📘 آیت 87 وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ اس پر تقریباً تمام امت کا اجماع ہے کہ یہاں سات بار بار دہرائے جانے والی آیات سے مراد سورة الفاتحہ ہے۔ حدیث میں سورة الفاتحہ کو نماز کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے : لَا صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ متفق علیہ یعنی جو شخص نماز میں سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں۔ قبل ازیں سورة الفاتحہ کے مطالعے کے دوران ہم وہ حدیث قدسی بھی پڑھ چکے ہیں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو نماز قرار دیا گیا ہے : قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ رواہ مسلم اب جبکہ ہر نمازی اپنی نماز کی ہر رکعت میں سورة الفاتحہ کی تلاوت کر رہا ہے تو اندازہ کریں کہ دنیا بھر میں ان سات آیات کی تلاوت کتنی مرتبہ ہوتی ہوگی۔ اس کے علاوہ آیت زیر نظر میں اس سورة کو ”قرآن عظیم“ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یعنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے سورة الفاتحہ قرآن عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس سورت کو اساس القرآن اور ام القرآن قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے الکافیہ کفایت کرنے والی اور الشافیہ شفا دینے والی جیسے نام بھی دیے گئے ہیں۔ایک حدیث کے مطابق سورة الفاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تورات میں ہے ‘ نہ انجیل میں اور نہ ہی قرآن میں۔ چناچہ یہاں حضور کی دلجوئی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی دیکھیں ہم نے آپ کو اتنا بڑا خزانہ عطا فرمایا ہے۔ ابو جہل اگر خود کو مالدار سمجھتا ہے ‘ ولید بن مغیرہ اپنے زعم میں اگر بہت بڑا سردار ہے تو آپ مطلق پروا نہ کریں۔ ان لوگوں کی سوچ کے اپنے پیمانے ہیں۔ ان بد بختوں کو کیا معلوم کہ ہم نے آپ کو کتنی بڑی دولت سے نوازا ہے !

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 88 لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ابوجہل کی دولت و شوکت ‘ ولید بن مغیرہ کے باغات اور ان جیسے دوسرے کافروں کی جاگیریں آپ کو ہرگز متاثر نہ کریں۔ آپ ان کی ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دنیا و ما فیہا کی حیثیت اللہ کی نگاہ میں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی تک نہ دیتا۔ چناچہ ان کفار کو جو مال و متاع اس دنیا میں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔ اہل ایمان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مال و دولت دنیا کو اسی نظر سے دیکھیں۔ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ یہ لوگ آپ کی دعوت کو ٹھکرا کر عذاب کے مستحق ہو رہے ہیں۔ ان میں آپ کے قبیلے کے افراد بھی شامل ہیں اور ابو لہب جیسے عزیز و اقارب بھی ‘ مگر آپ اب ان لوگوں کے انجام کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اہل ایمان کے ساتھ آپ شفقت اور مہربانی سے پیش آئیں۔ ان لوگوں میں فقراء و مساکین بھی ہیں اور غلام بھی۔ یہ لوگ جب آپ کے پاس حاضر ہوں تو کمال تواضع سے ان کا استقبال کیجیے اور ان کی دلجوئی فرمائیے۔ اس سے قبل یہی بات اس انداز میں بیان فرمائی گئی ہے : فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ الانعام : 54۔ سورة الشعراء میں بھی اس مضمون کو ان الفاظ میں دہرایا گیا ہے : وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ کہ اہل ایمان جو آپ کی پیروی کر رہے ہیں آپ اپنے کندھے ان کے لیے جھکا کر رکھیے۔ سورة بنی اسرائیل میں والدین کے ادب و احترام کے سلسلے میں بھی یہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ ادب محبت عاجزی اور انکساری کا معاملہ کرے۔

وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ

📘 آیت 89 وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ میری اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو واضح طور پر خبردار کر دوں۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

📘 آیت 9 اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ یہ آیت مبارکہ بہت اہم ہے۔ جہاں تک اس کے پہلے حصے کا تعلق ہے تو یہ حکم تورات پر بھی صادق آتا ہے اور انجیل پر بھی۔ یعنی یہ دونوں کتابیں بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ قرآن میں اس کی بار بار تصدیق بھی کی گئی ہے۔ سورة المائدۃ کی آیت 44 میں تورات کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق اس طرح کی گئی ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ۔ سورة آل عمران کی آیت 3 میں ان دونوں کتابوں کا ذکر فرمایا گیا : وَاَنْزَلَ التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ۔ لیکن اس آیت کے دوسرے حصے میں جو حکم آیا ہے وہ صرف اور صرف قرآن کی شان ہے۔ اس سے پہلے کسی الہامی کتاب یا صحیفۂ آسمانی کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سابقہ کتب کی ہدایات وتعلیمات حتمی اور ابدی نہیں تھیں۔ وہ تو گویا عبوری ادوار کے لیے وقتی اور عارضی ہدایات تھیں اور اس لحاظ سے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اب جبکہ ہدایت کامل ہوگئی تو اسے تا ابد محفوظ کردیا گیا۔یہ آیت ختم نبوت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے۔ اگر سورة المائدۃ کی آیت 3 کے مطابق قرآن میں ہدایت درجہ کاملیت تک پہنچ گئی اور آیت زیر نظر کے مطابق وہ ابدی طور پر محفوظ بھی ہوگئی تو وحی کے جاری رہنے کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ چناچہ قادیانیوں کے پاس ان دونوں قرآنی حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد اور ان کے لیے انہیں تسلیم کیے بغیر چارا بھی نہیں وحی کے جاری رہنے کے جواز کی کوئی عقلی و منطقی دلیل باقی نہیں رہ جاتی۔ وحی کی ضرورت ان دونوں میں سے کسی ایک صورت میں ہی ہوسکتی ہے کہ یا تو ابھی ہدایت کامل نہیں ہوئی تھی اور اس کی تکمیل کے لیے وحی کے تسلسل کی ضرورت تھی۔ یا پھر ہدایت کامل تو ہوگئی تھی مگر بعد میں غیر محفوظ ہوگئی یا گم ہوگئی اور اس وجہ سے پیدا ہوجانے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے وحی کی ضرورت تھی۔ بہر حال اگر ان دونوں میں سے کوئی صورت بھی درپیش نہیں ہے تو سلسلہ وحی کے جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ معاذ اللہ عبث کام نہیں کرتا کہ ضرورت کے بغیر ہی سلسلۂ وحی کو جاری کیے رکھے۔یہاں دو دفعہ زیر نظر آیت سے قبل آیت 6 میں بھی قرآن حکیم کے لیے ”الذکر“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سورة ”ن“ کی آخری دو آیات میں بھی قرآن حکیم کے لیے یہ لفظ آیا ہے۔ ذکر کا مفہوم یاددہانی ہے۔ قرآنی فلسفے کے مطابق قرآن مجید کا ”الذکر“ ہونا اس مفہوم میں ہے کہ ایمانی حقائق خصوصی طور پر اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا علم انسانی روح کے اندر موجود ہے ‘ مگر اس علم پر ذہول بھول اور غفلت کا پردہ طاری ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک وقت میں انسان کو ایک چیز یاد ہوتی ہے مگر بعد میں یاد نہیں رہتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کے بارے میں معلومات اس کی یادداشت کے تہہ خانے میں دب جاتی ہیں۔ پھر بعد میں کسی وقت جونہی کوئی چیز ان معلومات سے متعلق سامنے آتی ہے تو انسان کے ذہن میں وہ بھولی بسری معلومات پھر سے تازہ ہوجاتی ہیں۔ اس طرح ذہن میں موجود معلومات کو پھر سے تازہ کرنے والی چیز گویا یاد دہانی reminder کا کام کرتی ہے۔ مثلاً ایک دوست سے آپ کی سالہا سال سے ملاقات نہیں ہوئی اور اس کا خیال بھی کبھی نہیں آیا ‘ مگر ایک دن اچانک اس کا دیا ہوا ایک قلم یا رومال سامنے آنے سے اس دوست کی یاد یکدم ذہن میں تازہ ہوگئی۔ اس قلم یا رومال کی حیثیت گویا ایک نشانی یا آیت کی ہے جس سے آپ کے ذہن میں ایک بھولی بسری یاد پھر سے تازہ ہوگئی۔ اسی طرح اللہ کی ذات کا علم انسانی روح میں خفتہ dormant حالت میں موجود ہے۔ اس علم کو پھر سے جگا کر تازہ کرنے اور اس پر پڑے ہوئے ذہول اور نسیان کے پردوں کو ہٹانے کے لیے آیات آفاقیہ ‘ آیات انفسیہ اور آیات قرآنیہ گویا یاد دہانی کا کام دیتی ہیں اور اللہ کی یاد کو انسان کے ذہن میں تازہ کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کو الذکر یاد دہانی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ

📘 آیت 89 وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ میری اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو واضح طور پر خبردار کر دوں۔

الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ

📘 آیت 91 الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ اس آیت کے مفہوم کے سلسلے میں مفسرین نے مختلف آراء بیان کی ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ قرین قیاس رائے یہ ہے کہ یہاں لفظ ”قرآن“ کا اطلاق تورات پر ہوا ہے۔ جیسا کہ سورة سبا کی آیت 31 میں فرمایا گیا : وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ یعنی کفار کہتے ہیں کہ نہ اس قرآن پر ایمان لاؤ اور نہ اس پر جو اس سے پہلے تھا۔ تو گویا تورات بھی قرآن ہی تھا اور یہود نے اپنے مفادات کے لیے اپنے اس قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ ان کے اس کارنامے کا تذکرہ سورة الانعام کی آیت 91 میں اس طرح ہوا ہے : تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا ”تم نے اس تورات کو ورق ورق کردیا ہے ‘ ان میں سے کسی حصے کو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپا کر رکھتے ہو۔“

فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 92 فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اس آیت کا مضمون اور انداز وہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة الاعراف میں پڑھ چکے ہیں : فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ”ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور ان سے بھی جن کو رسول بنا کر بھیجا گیا“۔ چناچہ اے نبی یہ تھوڑے وقت کی بات ہے ہم ان سے ایک ایک چیز کا حساب لے کر رہیں گے۔

عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 92 فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اس آیت کا مضمون اور انداز وہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة الاعراف میں پڑھ چکے ہیں : فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ”ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور ان سے بھی جن کو رسول بنا کر بھیجا گیا“۔ چناچہ اے نبی یہ تھوڑے وقت کی بات ہے ہم ان سے ایک ایک چیز کا حساب لے کر رہیں گے۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ

📘 آیت 94 فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ اس حکم کو رسول اللہ کی دعوتی تحریک میں ایک نئے موڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے قبل آپ اپنے قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کو انفرادی طور پر دعوت دے رہے تھے ‘ جیسے آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ سے بات کی ‘ اپنے پرانے دوست حضرت ابوبکر صدیق کو دعوت دی ‘ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو اعتماد میں لیا جو آپ کے زیر کفالت بھی تھے اور اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید سے بھی بات کی۔ آپ کی اس انفرادی دعوت کا سلسلہ ابتدائی طور پر تقریباً تین سال پر محیط نظر آتا ہے۔ بعض لوگ اس دور کی دعوت کو ایک خفیہ underground تحریک سے تعبیر کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ اعلان نبوت کے بعد آپ کی سیرت میں کوئی دن بھی ایسا نہیں آیا جس میں آپ نے اپنی اس دعوت کو خفیہ رکھا ہو مگر ایسا ضرور ہے کہ آپ کی دعوت فطری اور تدریجی انداز میں آگے بڑھی اور آہستہ آہستہ ارتقا پذیر ہوئی۔ اس دعوت کا آغاز گھر سے ہوا پھر آپ تعلق اور قرابت داری کی بنیاد پر مختلف افراد کو انفرادی انداز میں دعوت دیتے رہے اور پھر تقریباً تین سال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ اب آپ علی الاعلان یہ دعوت دینا شروع کردیں۔ اس حکم کے بعد آپ نے ایک دن عرب کے رواج کے مطابق کوہ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو اونچی آواز سے اپنی طرف بلانا شروع کیا۔ عرب میں رواج تھا کہ کسی اہم خبر کا اعلان کرنا ہوتا تو ایک آدمی اپنا پورا لباس اتارتا ‘ بالکل ننگا ہو کر کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتا اور ”وَاصَبَاحَا“ کا نعرہ لگاتا کہ ہائے وہ صبح جو آیا چاہتی ہے ! یعنی میں تم لوگوں کو آنے والی صبح کی خبر دینے والا ہوں ! اس زمانے میں ایسی خبر عام طور پر کسی مخالف قبیلہ کے شب خون مارنے کے بارے میں ہوتی تھی کہ فلاں قبیلہ آج صبح سویرے تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ ایسے شخص کو ”نذیر عریاں“ کہا جاتا تھا۔ اس رواج کے مطابق لباس اتارنے کی بیہودہ رسم کو چھوڑ کر آپ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر ”وَاصَبَاحَا“ کا نعرہ لگایا۔ جس جس نے آپ کی آواز سنی وہ بھاگم بھاگ آپ کے پاس آپہنچا کہ آپ کوئی اہم خبر دینے والے ہیں۔ جب سب لوگ اکٹھے ہوگئے تو آپ نے ان کے سامنے اللہ کا پیغام پیش کیا ‘ جس کے جواب میں آپ کے بدبخت چچا ابو لہب نے کہا : تَبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا ؟ ”تمہارے لیے ہلاکت ہو نعوذ باللہ اس کام کے لیے تم نے ہمیں جمع کیا تھا ؟“ دعوت کو ڈنکے کی چوٹ بیان کرنے کے اس حکم اور اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ

📘 آیت 95 اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ آپ ان کی مخالفت کی پروا نہ کریں ہم ان سے اچھی طرح نمٹ لیں گے۔ یہ لوگ آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے۔

الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 96 الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ایسے لوگوں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اصل حقیقت کیا تھی اور وہ کن گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ

📘 آیت 97 وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ علی الاعلان دعوت کی وجہ سے مخالفت کا ایک طوفان آپ پر امڈ آیا تھا۔ پہلے مرحلے میں یہ مخالفت اگرچہ زبانی طعن وتشنیع اور بد گوئی تک محدودتھی مگر بہت تکلیف دہ تھی۔ کسی نے مجنون اور کاہن کہہ دیا ‘ کسی نے شاعر کا خطاب دے دیا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ آپ نے گھر میں ایک عجمی غلام چھپا رکھا ہے ‘ اس سے معلومات لے کر ہم پر دھونس جماتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو واقعی سمجھتے تھے کہ آپ پر آسیب وغیرہ کے اثرات ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ ازراہ ہمدردی ایسی باتوں کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے اسی طرح آپ سے اظہار ہمدردی کیا۔ وہ قبیلے کا معمر بزرگ تھا۔ اس نے کہا : اے میرے بھتیجے ‘ بڑے بڑے عاملوں اور کاہنوں سے میرے تعلقات ہیں ‘ آپ کہیں تو میں ان میں سے کسی کو بلا لاؤں اور آپ کا علاج کراؤں ؟ ان سب باتوں سے آپ کو بہت تکلیف ہوتی تھی اور آپ کی اسی تکلیف اور دل کی گھٹن کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ اے نبی ان لوگوں کی بیہودہ باتوں سے آپ کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ ہمارے علم میں ہے۔ یہ مضمون سورة الانعام کی آیت 33 میں بھی گزر چکا ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ

📘 آیت 98 فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ آپ اپنے رب کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں۔ اسی کے آگے جھکے رہیں اور اس طرح اپنے تعلق مع اللہ کو مزید مضبوط کریں۔ اللہ سے اپنے اس قلبی اور ذہنی رشتے کو جتنا مضبوط کریں گے اسی قدر آپ کے دل کو سکون و اطمینان ملے گا اور صبر و استقامت کے رستے پر چلنا اور ان سختیوں کو جھیلنا آپ کے لیے آسان ہوگا۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ

📘 آیت 99 وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ عام طور پر یہاں ”یقین“ سے موت مراد لی گئی ہے۔ یعنی اپنی زندگی کی آخری گھڑی تک اس کی بندگی میں لگے رہیے اور اس سلسلے میں لمحہ بھر کے لیے بھی غفلت نہ کیجیے :تا دم آخر دمے فارغ مباش اندریں رہ مے تراش و مے خراش !بعض لوگ یہاں ”یقین“ سے اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی مراد لیتے ہیں کہ کفار کے خلاف اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے ‘ اس کی مدد اہل حق کے شامل حال ہوجائے اور انہیں کفار پر غلبہ حاصل ہوجائے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم