Al-Kahf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا ﴾
“[But,] behold, as for those who attain to faith and do righteous deeds-verily, We do not fail to requite any who persevere in doing good:”
آیت 29 وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ کفار مکہ کی طرف سے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوششوں کے جواب میں یہاں حضور کی زبان مبارک سے واضح اور دو ٹوک انداز میں اعلان کرایا جا رہا ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے جو حق میرے پاس آیا ہے وہ میں نے تم لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اب تمہارے سامنے دو ہی راستے ہیں اسے من و عن قبول کرلو یا اسے رد کر دو۔ لیکن یاد رکھو اس میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر تم سے کوئی سودے بازی ممکن نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة الدھر میں اس طرح بیان ہوا ہے : اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا یعنی ہم نے انسان کے لیے ہدایت کا راستہ واضح کردیا ہے اور اس کو اختیار دے دیا ہے کہ اب چاہے وہ شکر گزار بنے اور چاہے نا شکرا۔اِنَّآ اَعْتَدْنَا للظّٰلِمِيْنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاجہنم کی آگ قناتوں کی شکل میں ہوگی اور وہ اللہ کے منکرین اور مشرکین کو گھیرے میں لے لے گی۔ بِئْسَ الشَّرَابُ ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا ”مُہْل“ کا ترجمہ تیل کی تلچھٹ کے علاوہ لاوا بھی کیا گیا ہے اور پگھلا ہوا تانبا بھی۔ سورة ابراہیم کی آیت 16 میں جہنمیوں کو پلائے جانے والے پانی کو ”مَآءٍ صَدِیْدٍ“ کہا گیا ہے جس کے معنی زخموں سے رسنے والی پیپ کے ہیں۔ بہرحال یہ سیال مادہ جو انہیں پانی کے طور پر دیا جائے گا اس قدر گرم ہوگا کہ ان کے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ اب آئندہ آیات میں فوری تقابل کے لیے اہل جنت کا ذکر آ رہا ہے۔