Al-Kahf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ فَوَجَدَا عَبْدًۭا مِّنْ عِبَادِنَآ ءَاتَيْنَٰهُ رَحْمَةًۭ مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَٰهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًۭا ﴾
“and found one of Our servants, on whom We had bestowed grace from Ourselves and unto whom We had imparted knowledge [issuing] from Ourselves.”
آیت 65 فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے اپنے خاص خزانۂ فیض سے اسے خصوصی علم عطا کر رکھا تھا۔ ”علم لدنی“ کی اصطلاح یہیں سے اخذ کی گئی ہے۔ لَدُن کے معنی قریب یا نزدیک کے ہیں۔ چناچہ علم لدنی سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے کسی کو عطا کر دے۔ یعنی ایک علم تو وہ ہے جو انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے سے باقاعدہ محنت و مشقت کے عمل سے گزر کر حاصل کرتا ہے جیسے مدارس عربیہ میں صرف و نحو تفسیر و حدیث اور فقہ وغیرہ علوم حاصل کیے جاتے ہیں یا سکول و کالج میں متداول عمرانی و سائنسی علوم سیکھے جاتے ہیں لیکن علم کی ایک قسم وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ براہ راست کسی انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو اس کی تحصیل کے لیے کوئی مشقت وغیرہ بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔