🕋 تفسير سورة مريم
(Maryam) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ كهيعص
📘 آیت 1 كۗهٰيٰعۗصۗقرآن مجید کی یہ واحد سورت ہے جس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف مقطعات ہیں۔ اگرچہ سورة الشوریٰ کے شروع میں بھی پانچ حروف مقطعات ہیں لیکن وہاں یہ دو آیات میں ہیں۔ دو حروف حٰمٓ پہلی آیت میں جبکہ تین حروف عٓسٓقٓ دوسری آیت میں ہیں۔ بہر حال سورة مریم کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف مقطعات آئے ہیں۔
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا
📘 قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّاگویا بطور نشانی اللہ تعالیٰ نے تین دنوں تک حضرت زکریا علیہ السلام کی قوت گویائی سلب کرلی۔ سورة آل عمران آیت 41 میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : قَالَ اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ الاَّ رَمْزًا ط یعنی آپ علیہ السلام تین دن تک لوگوں سے گفتگو نہیں کرسکو گے مگر اشاروں کنایوں میں۔
فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا
📘 آیت 11 فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ اپنی عبادت ‘ رازو نیاز اور مناجات کے بعد حضرت زکریا علیہ السلام اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے لوگوں کی طرف آئے۔فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّاآپ علیہ السلام نے لوگوں کو اشاروں کنایوں سے سمجھایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت اہم فیصلہ ہونے جا رہا ہے ‘ لہٰذا تم لوگ صبح وشام کثرت سے اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے رہو۔ عربی میں ”وحی“ کے لغوی معنی ہیں : الاعلام بالسِّر والخِفاء ‘ یعنی کسی کو اشارے سے کوئی بات اس طرح بتانا کہ دوسروں کو پتا نہ چلے۔ انبیاء ورسل علیہ السلام کی طرف جو وحی آتی ہے اس کی کیفیت بھی یہی ہوتی ہے۔ وحی کی مختلف صورتوں کا تذکرہ بیان القرآن ‘ جلد اول کے آغاز میں ”تعارف قرآن“ کے ضمن میں آچکا ہے۔ آگے سورة الشوریٰ میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد اب ان کو براہ راست مخاطب کیا جا رہا ہے :
يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا
📘 آیت 12 یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ کتاب سے مراد یہاں زبور ‘ تورات اور دیگر صحائف ہیں جو اس وقت بنی اسرائیل کے درمیان موجود تھے۔وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّااب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خصوصی اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام John The Baptist and Jesus of Nazarat دونوں ایسی غیر معمولی شخصیات ہیں کہ ان جیسے اوصاف دوسرے انبیاء و رسل علیہ السلام میں بھی نہیں پائے گئے۔ چناچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں حکمت عطا کردی گئی۔
وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا
📘 آیت 12 یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ کتاب سے مراد یہاں زبور ‘ تورات اور دیگر صحائف ہیں جو اس وقت بنی اسرائیل کے درمیان موجود تھے۔وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّااب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خصوصی اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام John The Baptist and Jesus of Nazarat دونوں ایسی غیر معمولی شخصیات ہیں کہ ان جیسے اوصاف دوسرے انبیاء و رسل علیہ السلام میں بھی نہیں پائے گئے۔ چناچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں حکمت عطا کردی گئی۔
وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا
📘 آیت 14 وَّبَرًّام بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّایہ اوصاف اللہ تعالیٰ کی خصوصی عطا کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی گھٹیّ میں ڈال دیے گئے۔
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
📘 آیت 15 وَسَلٰمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّایہاں پر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ اختتام کو پہنچا اور اب آگے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا
📘 آیت 16 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ مَرْیَمَ 7 اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَہْلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّاحضرت مریم سلامٌ علیہا نے اپنے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ہیکل سلیمانی کے مشرقی گوشے میں خود کو مقیدّ کرلیا۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے لیے اعتکاف کی کیفیت تھی۔
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا
📘 آیت 17 فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًاانہوں نے گوشے میں پردہ تان کر خلوت کا ماحول بنا لیا تاکہ یکسوئی سے اللہ کی عبادت کرسکیں۔ فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا یہاں پر روح بمعنی فرشتہ ہے۔ قبل ازیں تفصیلاً بیان ہوچکا ہے کہ فرشتہ بھی روح ہے ‘ وحی بھی روح ہے ‘ قرآن بھی روح ہے اور روح انسانی بھی روح ہے۔ فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًاسَوِیًّایعنی فرشتہ ان کے سامنے ایک مکمل انسان کی صورت میں نمودار ہوا۔
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا
📘 آیت 18 قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّااچانک ایک مرد کو اپنی خلوت گاہ میں دیکھ کر حضرت مریم سلامٌ علیہا گھبرا گئیں کہ وہ کسی بری نیت سے نہ آیا ہو۔ چناچہ انہوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ‘ اور اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو ‘ تمہارے دل میں اللہ کا کچھ بھی خوف ہے تو کسی برے ارادے سے باز رہنا۔
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
📘 آیت 18 قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّااچانک ایک مرد کو اپنی خلوت گاہ میں دیکھ کر حضرت مریم سلامٌ علیہا گھبرا گئیں کہ وہ کسی بری نیت سے نہ آیا ہو۔ چناچہ انہوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ‘ اور اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو ‘ تمہارے دل میں اللہ کا کچھ بھی خوف ہے تو کسی برے ارادے سے باز رہنا۔
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا
📘 آیت 2 ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا ”یہاں ذکر تو حضرت عیسیٰ کا کرنا مقصود ہے مگر آپ کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ حضرت یحییٰ کی ولادت بھی تو ایک بہت بڑا معجزہ تھی۔ حضرت زکریا بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ کی اہلیہ بھی نہ صرف بوڑھی تھیں بلکہ عمر بھر بانجھ بھی رہی تھیں۔ ان حالات میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش کوئی معمول کا واقعہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو یہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔
قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا
📘 آیت 18 قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّااچانک ایک مرد کو اپنی خلوت گاہ میں دیکھ کر حضرت مریم سلامٌ علیہا گھبرا گئیں کہ وہ کسی بری نیت سے نہ آیا ہو۔ چناچہ انہوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ‘ اور اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو ‘ تمہارے دل میں اللہ کا کچھ بھی خوف ہے تو کسی برے ارادے سے باز رہنا۔
قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا
📘 آیت 21 قَالَ کَذٰلِکِ یعنی کسی مرد کے تعلق کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائے گا۔قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌج وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّاج وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّایعنی اس بچے کو ہم لوگوں کے لیے معجزہ اور اپنی رحمت کا ذریعہ بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ چناچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی معجزہ تھی ‘ آپ علیہ السلام کا رفع سماوی بھی معجزہ تھا اور اس کے علاوہ بھی آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزات عطا ہوئے تھے۔ غرض آپ علیہ السلام کی شخصیت ہر لحاظ سے غیر معمولی ‘ ممیز اور ممتاز تھی۔
۞ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا
📘 آیت 22 فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّااس پریشانی میں کہ حمل بڑھے گا تو لوگ کیا کہیں گے ‘ حضرت مریم تنہائی کی غرض سے بیت اللحم چلی گئیں ‘ جو ہیکل سلیمانی سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔“
فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا
📘 آیت 23 فَاَجَآءَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ ولادت کے وقت جب درد زہ کی شدت بڑھی تو حضرت مریم نے سہارے کے لیے ایک کھجور کے تنے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ یہ درد کی شدت کو برداشت کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر عورت وضع حمل کے وقت کسی چیز کو مضبوطی سے تھام لے تو اس میں درد کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّااللہ کی وہ بندی ممکنہ اندیشوں سے کانپ رہی تھی کہ اب میں اس بچے کا کیا کروں گی ؟ لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ دنیا کیا کہے گی ؟ کاش یہ وقت آنے سے پہلے ہی مجھے موت آگئی ہوتی اور میری یاد تک لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوچکی ہوتی۔
فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا
📘 آیت 24 فَنَادٰٹہَا مِنْ تَحْتِہَآ یہاں عام مفسرین کا خیال یہ ہے کہ جس فرشتے نے پہلے بشارت دی تھی اسی نے اب بھی انہیں آواز دی۔ مِنْ تَحْتِہَآ کا مفہوم یہی لیا گیا ہے کہ اس وقت حضرت مریم نسبتاً بلند جگہ پر ہوں گی اور وہ فرشتہ ذرا نشیب میں ہوگا۔ ویسے بھی وضع حمل کے موقع پر فرشتے کا آپ کے بالکل قریب رہنامناسب نہیں تھا۔ لیکن مِنْ تَحْتِہَا کی ایک قراءت مَنْ تَحْتَہَآ بھی ہے ‘ یعنی اسے پکارا اس نے جو اس کے نیچے تھا۔ اس ترجمے کے مطابق مفہوم یہ ہوگا کہ ولادت کے فوراً بعد بچہ بول پڑا اور میں یہاں اسی مفہوم کو ترجیح دیتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر اس وقت بچے نے کلام نہ کیا ہوتا تو حضرت مریم کو کیسے یقین آتا کہ یہ بچہ لوگوں کے سوالات کا خود ہی جواب دے گا اور وہ بچے کو لے کر لوگوں کے سامنے آنے پر کیونکر تیار ہوجاتیں۔ بہر حال وہ جو نیچے تھا اس نے آپ کو پکار کر کہا :اَ لَّا تَحْزَنِیْ اگر یہ حضرت مسیح علیہ السلام یعنی نومولود ہی کا کلام ہے تو گویا آپ علیہ السلام اپنی والدہ کو تسلی دے رہے ہیں کہّ امی جان ! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا
📘 آیت 24 فَنَادٰٹہَا مِنْ تَحْتِہَآ یہاں عام مفسرین کا خیال یہ ہے کہ جس فرشتے نے پہلے بشارت دی تھی اسی نے اب بھی انہیں آواز دی۔ مِنْ تَحْتِہَآ کا مفہوم یہی لیا گیا ہے کہ اس وقت حضرت مریم نسبتاً بلند جگہ پر ہوں گی اور وہ فرشتہ ذرا نشیب میں ہوگا۔ ویسے بھی وضع حمل کے موقع پر فرشتے کا آپ کے بالکل قریب رہنامناسب نہیں تھا۔ لیکن مِنْ تَحْتِہَا کی ایک قراءت مَنْ تَحْتَہَآ بھی ہے ‘ یعنی اسے پکارا اس نے جو اس کے نیچے تھا۔ اس ترجمے کے مطابق مفہوم یہ ہوگا کہ ولادت کے فوراً بعد بچہ بول پڑا اور میں یہاں اسی مفہوم کو ترجیح دیتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر اس وقت بچے نے کلام نہ کیا ہوتا تو حضرت مریم کو کیسے یقین آتا کہ یہ بچہ لوگوں کے سوالات کا خود ہی جواب دے گا اور وہ بچے کو لے کر لوگوں کے سامنے آنے پر کیونکر تیار ہوجاتیں۔ بہر حال وہ جو نیچے تھا اس نے آپ کو پکار کر کہا :اَ لَّا تَحْزَنِیْ اگر یہ حضرت مسیح علیہ السلام یعنی نومولود ہی کا کلام ہے تو گویا آپ علیہ السلام اپنی والدہ کو تسلی دے رہے ہیں کہّ امی جان ! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔
فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا
📘 آیت 26 فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًاحضرت مریم سلامٌ علیہا نے یہ تمام معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ بچہ بھی بول پڑا ‘ چشمہ بھی جاری ہوگیا ‘ اور کھجور کے سوکھے تنے کو ہلانے سے تازہ پکی ہوئی کھجوریں بھی ان کے سامنے آن گریں۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی جرأت پیدا ہوئی اور انہوں نے بچے کو لے کر آبادی میں آنے کا فیصلہ کیا۔فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًالا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ للرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاان کی شریعت میں روزے کی حالت میں کھانے پینے کی پابندی کے علاوہ بات چیت کرنے پر بھی پابندی تھی۔
فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا
📘 آیت 27 فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ حضرت مریم بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے نومولود بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کی طرف آگئیں۔ بچے کی گفتگو والا معجزہ دیکھ لینے کے بعد آپ کو تسلی تھی کہ وہ خود ہی لوگوں کے سوالات کے جواب دے گا۔ آیت 24 کے حوالے سے بچے کے کلام کرنے کا تذکرہ عام طور پر تفاسیر میں نہیں ملتا اور ”مِنْ تَحْتِھَا“ سے یہی سمجھا گیا ہے کہ اس موقع پر فرشتے ہی نے آپ کو پکارا تھا۔ بہرحال میری رائے یہ ہے کہ حضرت مریم کو اس وقت نیچے سے پکارنے والا آپ کا نومولود بیٹا تھا ‘ جس کی گفتگو سے آپ کو حوصلہ ملا اور آپ بچے کے ساتھ لوگوں کا سامنا کرنے پر آمادہ ہوئیں۔ واللہ اعلم !قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیًّاان کو دیکھتے ہی لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں کہ تم نے یہ کیا غضب کیا ! تمہاری گود میں یہ کس کا بچہ ہے ؟ یہ تم نے بہت بری حرکت کی ہے ‘ وغیرہ۔
يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا
📘 آیت 3 اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّایعنی حضرت زکریا نے دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا کی۔
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ
📘 آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
📘 آیت 35 مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍلا سُبْحٰنَہٗط اِذَا قَضآی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں باپ کا حصہ اللہ تعالیٰ کے ایک حرف ”کُن“ کے ذریعے سے پورا ہوا ‘ جبکہ باقی سارا عمل عام فطری اور طبعی طریقے سے تکمیل پذیر ہوا۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کو کلمۃٌ منہُ آل عمران : 45 یعنی اللہ کا خاص کلمہ قرار دیا گیا ہے۔
وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ
📘 آیت 35 مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍلا سُبْحٰنَہٗط اِذَا قَضآی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں باپ کا حصہ اللہ تعالیٰ کے ایک حرف ”کُن“ کے ذریعے سے پورا ہوا ‘ جبکہ باقی سارا عمل عام فطری اور طبعی طریقے سے تکمیل پذیر ہوا۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کو کلمۃٌ منہُ آل عمران : 45 یعنی اللہ کا خاص کلمہ قرار دیا گیا ہے۔
فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ
📘 آیت 37 فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہوگی اور تمام حقائق کھل کر سامنے آئیں گے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بھی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ چناچہ اس بارے میں جن لوگوں نے من گھڑت عقیدے بنائے اور پھر ان غلط عقائد پر ہی جمے رہے حتیٰ کہ اسی حالت میں انہیں موت آگئی ‘ ایسے لوگوں کے لیے اس دن ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 آیت 37 فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہوگی اور تمام حقائق کھل کر سامنے آئیں گے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بھی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ چناچہ اس بارے میں جن لوگوں نے من گھڑت عقیدے بنائے اور پھر ان غلط عقائد پر ہی جمے رہے حتیٰ کہ اسی حالت میں انہیں موت آگئی ‘ ایسے لوگوں کے لیے اس دن ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
📘 آیت 37 فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہوگی اور تمام حقائق کھل کر سامنے آئیں گے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بھی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ چناچہ اس بارے میں جن لوگوں نے من گھڑت عقیدے بنائے اور پھر ان غلط عقائد پر ہی جمے رہے حتیٰ کہ اسی حالت میں انہیں موت آگئی ‘ ایسے لوگوں کے لیے اس دن ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
📘 وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا یعنی بڑھاپے کے سبب میرے سر کے بال مکمل طور پر سفید ہوگئے ہیں۔وَّلَمْ اَکُنْم بِدُعَآءِکَ رَبِّ شَقِیًّاچنانچہ آج میں بڑی ہمت کر کے تجھ سے ایک بہت ہی غیر معمولی دعا کرنے جا رہا ہوں۔ دنیوی حالات اور طبیعی قوانین کے اعتبار سے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ‘ مگر تو چاہے تو ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔
إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ
📘 آیت 40 اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْہَا اس دن روئے زمین کی حکمرانی اور دنیوی مال و متاع کی ملکیت کے عارضی دعویدار سب کے سب ختم ہوجائیں گے اور اس سب کچھ کی وراثت ظاہری طور پر بھی ہمیں منتقل ہوجائے گی۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا
📘 آیت 41 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ ”صِدِّیقًا نَبِیًّا ایک نئی ترکیب ہے ‘ جو قرآن حکیم میں یہاں پہلی مرتبہ آئی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور آیت 56 میں حضرت ادریس علیہ السلام کو صِدِّیقاً نَبِیًّا فرمایا گیا ہے ‘ جبکہ آیات 51 اور 54 میں بالترتیب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو رَسُولاً نَّبِیًّا کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ اگرچہ میرے علم کی حد تک ان الفاظ یا تراکیب کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی ‘ بلکہ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب میں نے ایک معروف عالم دین اور مفسر قرآن سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہے ؟ یعنی کیا واقعی قرآن میں دو انبیاء کے بارے میں صِدِّیقًا نَبِیًّا اور دو کے بارے میں رَسُوْلًا نَّبِیًّا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؟ وہ خود قرآن کی مکمل تفسیر لکھ چکے تھے مگر اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ بہر حال میں چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ جس حد تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمایا ہے اس حد تک میں دوسروں تک پہنچا دوں۔ ان دو تراکیب کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو سورة الفاتحہ کی یہ آیات مدنظر رکھیں جن میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ”اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا ‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا“۔ اور پھر سورة النساء کی اس آیت پر غور کریں جس میں ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے : وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْنَیْ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ۔ اس آیت میں ان لوگوں کے چار درجات بیان ہوئے ہیں جو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں سب سے اوپر انبیاء کا درجہ ہے ‘ پھر صدیقین کا ‘ پھر شہداء کا اور نیچے base line پر صالحین ہیں ‘ یعنی نیک دل ‘ مخلص مسلمان جو صادق القول اور صادق الایمان ہیں۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف ارتقاء کے حوالے سے دیکھاجائے تو base line پر پہلا درجہ مؤمنین صالحین کا ہے۔ اگر کوئی اس درجہ سے ترقی کرے گا تو اس کے لیے درجہ شہادت ہے اور پھر اس سے اوپر درجہ صدیقیت۔ اس لحاظ سے درجہ صدیقیت گویا کسی بھی انسان کے لیے روحانی ترقی کے مدارج میں بلند ترین درجہ ہے ‘ کیونکہ اس کے اوپر نبوت کا درجہ ہے ‘ جو اکتسابی نہیں ‘ سراسر وہبی ہے اور اب وہ دروازہ نوع انسانی کے لیے مستقل طور پر بند ہوچکا ہے۔rِصدیقینّ اور شہداء کے فرق کو سائیکالوجی کی دو جدید اصطلاحات کے ذریعے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف مزاج پر پیدا فرمایا ہے۔ مزاج اور رویے کے اعتبار سے جدید سائیکالوجی انسانوں کو بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جو لوگ مجلس پسند ہوں ‘ تنہائی سے گھبراتے ہوں ‘ ہر وقت سیر سپاٹے کرنے ‘ لوگوں سے ملنے جلنے اور خوش گپیوں میں خوش رہتے ہوں ‘ انہیں بیروں بیں exroverts کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس تنہائی پسند ‘ غور وفکر کرنے والے ‘ اپنے خیالوں میں مگن رہنے اور محفلوں سے حتی المقدور اجتناب کرنے والے لوگ دروں بین introverts کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسری کیفیت ان دو رویوں کے خوبصورت توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ ایسے لوگ جن کی شخصیات میں مذکورہ دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں وہ ambiverts کہلاتے ہیں ‘ لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں۔ اس لیے ambiverts قسم کے لوگ عملاً بہت ہی کم ہوتے ہیں اور عمومی طور پر دنیا میں مزاج کے اعتبار سے مندرجہ بالا دو اقسام کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ دروں بین introverts قسم کے لوگ غور و فکر کی عادت کے باعث فطرت کے حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کائنات کے بارے میں سوچ بچار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی آیات ان سے ہم کلام ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں اہم حقائق ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں اللہ کو بھی پہچان لیتے ہیں ‘ آخرت کی ضرورت اور حقیقت کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان جاتے ہیں کہ بندگی صرف اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔ لیکن بندگی کا طریقہ کیا ہو ؟ اس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وہ اللہ سے راہنمائی کی التجا کرتے ہیں : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ الفاتحہ۔ یہ لوگ دراصل صدیقین ہوتے ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ جونہی کوئی الہامی دعوت ان تک پہنچتی ہے وہ اسے اس انداز میں لپک کر قبول کرتے ہیں گویا مدت سے اسی کے منتظر بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رض کے قبول اسلام کا واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ میں نے جس کے سامنے بھی ایمان کی دعوت پیش کی اس نے کچھ نہ کچھ تو قف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر رض کے۔ یعنی آپ رض نے ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کیا اور دعوت پر ایسے لبیک کہا جیسے وہ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔البتہ بیروں بین extroverts قسم کے لوگ چونکہ خود کو کھیل کود ‘ سیرو شکار ‘ میل ملاقات وغیرہ میں مصروف رکھتے ہیں ‘ اس لیے ان کا طبعی میلان غور و فکر کی طرف نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کسی الہامی دعوت کو سمجھنے میں ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ‘ اور جب وہ کسی ایسے معاملے کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں تو اکثر جذباتی انداز میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی نظریے یا دعوت کو قبول کرلیتے ہیں تو عام طور پر زیادہ متحرک اور فعال ثابت ہوتے ہیں اور یوں مسابقت میں بظاہر introverts سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ کی دعوت کو حضرت ابو بکرصدیق رض نے جہاں ایک لمحے کے توقف کے بغیر قبول کرلیا وہاں حضرت عمر اور حضرت حمزہ رض کو اس طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت عمر رض تو بنو عدی میں سے تھے اور آپ رض کی حضور ﷺ کے ساتھ بظاہر زیادہ قربت نہیں تھی ‘ مگر حضرت حمزہ رض تو آپ ﷺ کے سگے چچا اور دودھ شریک تھے۔ وہ بچپن میں آپ ﷺ کے ساتھ کھیلے تھے اور آپ ﷺ سے بہت محبت بھی کرتے تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود چھ سال تک آپ رض نے حضور ﷺ کی دعوت کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا اور جب ایمان لائے تو حادثاتی اور جذباتی انداز میں لائے۔ایک روز شکار سے واپس آئے تو ابھی گھر میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ لونڈی نے حضور ﷺ سے ابوجہل کی گستاخی کے بارے میں خبر دی۔ بس یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ گھر جانے کے بجائے سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ جاتے ہی اس کے سر پر کمان دے ماری اور اسے للکارا کہ آج سے میں بھی ایمان لے آیا ہوں ‘ تم میرا مقابلہ کرسکتے ہو تو آؤ میدان میں ! ایسے ہی حضرت عمر رض بھی جذباتی انداز میں ایمان لائے۔ گھر سے محمد رسول اللہ ﷺ کو معاذ اللہ ! قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ جذبات کی رو میں ہی بہن اور بہنوئی سے جا الجھے۔ بہن کی غیر معمولی استقامت دیکھی تو سوچنے پر مجبور ہوئے اور جب سنجیدگی سے غور کیا تو یکدم دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ پھر کیا تھا ؟ وہی شمشیر برہنہ جو قتل کے ارادے سے لے کر نکلے تھے ‘ گردن میں لٹکائے غلاموں کی طرح در نبوت پر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ بہر حال اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دروں بین introverts قسم کے لوگ صدیقین اور بیروں بین extroverts مزاج کے افراد شہداء ہوتے ہیں۔ انسانی مزاج کا یہ فرق انبیاء کی شخصیات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ انبیاء کا مزاج صدیقین سے مناسبت رکھتا ہے اور کچھ کا شہداء سے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں روایات ہیں کہ آپ ﷺ شکار کے بہت شوقین تھے اور اسی شوق میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دو مرتبہ آپ علیہ السلام سے ملنے کے لیے گئے ‘ مگر آپ علیہ السلام کے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے دونوں مرتبہ باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزاج بھی جلالی تھا۔ آپ علیہ السلام نے مصر میں ایک آدمی کو مکاّ رسید کیا تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ انسانی مزاج کی اس تشریح کے اعتبار سے میرا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس علیہ السلام کی شخصیات صدیقیت کے ساتھ مناسبت رکھتی تھیں ‘ اس لیے وہ صدیق نبی قرار پائے ‘ جبکہ حضرت اسماعیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیات شہداء جیسی تھیں ‘ چناچہ وہ رسول نبی کہلائے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ رسالت اور شہادت کے الفاظ کی آپس میں خصوصی مناسبت ہے۔ ہر رسول کو اپنی قوم کی طرف شاہد بنا کر بھیجا گیا۔ کار رسالت یعنی دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت میں عمل کا پہلو غالب ہے۔ حضور ﷺ کے بارے میں بھی سورة الاحزاب میں فرمایا گیا : یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ”اے نبی ! بلاشبہ ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا“۔ اسی طرح سورة النساء میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں : فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ”پھر کیا حال ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ اور اے نبی ﷺ ! آپ کو ہم لائیں گے ان پر گواہ“۔ اس ساری وضاحت کاُ لبّ لباب یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں شہداء کا مزاج رکھنے والے انبیاء کو رَسُولاً نَّبِیًّا اور صدیقیت کے مزاج کے حامل انبیاء کو صِدِّیقاً نَبِیًّا کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے۔ سورة الحدید کے مطالعے کے دوران اس کی آیت 19 : اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَق وَالشُّہَدَآءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط کے حوالے سے اس موضوع پر ان شاء اللہ مزید گفتگو ہوگی۔
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا
📘 آیت 42 اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا ”اِن آیات کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کو مخاطب کرنے کا انداز انتہائی مؤدبانہ ہے : یٰٓاَبَتِ ‘ یٰٓاَ بَتِ اے میرے ابا جان ! اے میرے ابا جان ! ۔ ایک داعی اور مبلغ کے لیے یہ گویا ایک مثال ہے کہ اگر اسے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں اپنے سے کسی بڑے یا کسی بزرگ کو مخاطب کرنا ہو تو اس کا طرز تخاطب کیسا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن مجید کا بہترین مقام ہے۔
يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا
📘 آیت 43 یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآءَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ ”مجھے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ میرے پاس وہ ہدایت آئی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے ان الفاظ میں وعدہ فرمایا تھا : فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی۔۔ البقرہ : 38۔فَاتَّبِعْنِیْٓ اَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ”آپ میرا کہنامانیے ‘ میرے پیچھے چلئے ‘ میں یقیناً سیدھے راستے کی طرف آپ کی راہنمائی کروں گا۔
يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا
📘 آیت 44 یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَان للرَّحْمٰنِ عَصِیًّا ”اس شیطان کی فرمانبرداری مت کیجیے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرچکا ہے۔
يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا
📘 آیت 44 یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَان للرَّحْمٰنِ عَصِیًّا ”اس شیطان کی فرمانبرداری مت کیجیے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرچکا ہے۔
قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا
📘 آیت 46 قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓاِبْرٰہِیْمُ ج ”ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لجاجت بھرا طرز تخاطب تھا تو دوسری طرف جواب میں باپ کا یہ فرعونی انداز بھی ملاحظہ ہو !لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا ”تمہاری یہ باتیں میری برداشت سے باہر ہیں ‘ لہٰذا تم فوری طور پر میری نگاہوں سے دور ہوجاؤ !
قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا
📘 آیت 47 قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَج سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ”ابراہیم علیہ السلام نے باپ کی طرف سے اتنے سخت جواب کے بعد بھی اپنا انداز تخاطب انتہائی مؤدبانہ رکھا ‘ اس سے بھی بڑھ کر آپ علیہ السلام نے ان کے لیے اپنے مہربان رب سے دعا کرنے کا بھی ارادہ کیا۔ اسی طرح ایک مبلغ اور داعی کو بھی چاہیے کہ وہ مدِّمقابل کی طرف سے انتہائی سخت جملوں کے بعد بھی ترش انداز اختیار کرنے کے بجائے نرمی کو ہی اپنائے۔
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا
📘 آیت 48 وَاَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْز ”میں تو اپنے رب ہی کی بندگی کروں گا ‘ اسی سے دعا کروں گا۔
فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا
📘 آیت 48 وَاَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْز ”میں تو اپنے رب ہی کی بندگی کروں گا ‘ اسی سے دعا کروں گا۔
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا
📘 آیت 5 وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِ یْ مجھے اپنے ورثاء میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو میرے بعد ہیکل سلیمانی کا متولی اور میرا جانشین بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔وَکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّایہاں ”ولی“ لفظ بہت اہم ہے ‘ یعنی مجھے ایسا ساتھی عطا کر جو میرے مشن میں میرا دوست وبازو بن سکے۔
وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا
📘 آیت 50 وَوَہَبْنَا لَہُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا ”جیسے سورة الانشراح میں نبی اکرم ﷺ کو وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کی سند عطا فرمائی گئی اسی طرح یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام کے ذکر خیر کو بہت اعلیٰ سطح پر دنیا میں باقی رکھنے کا ذکر ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا
📘 آیت 51 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ مُوْسٰٓیز اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ”ہم نے انہیں خاص اپنا بنا لیا تھا۔ یہ مضمون سورة طٰہٰ آیت 41 میں بھی آئے گا۔
وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا
📘 آیت 51 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ مُوْسٰٓیز اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ”ہم نے انہیں خاص اپنا بنا لیا تھا۔ یہ مضمون سورة طٰہٰ آیت 41 میں بھی آئے گا۔
وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا
📘 آیت 53 وَوَہَبْنَا لَہٗٓ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ نَبِیًّا ”حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لیے درخواست کی تھی کہ انہیں بھی میرے ساتھ بھیجا جائے۔ اللہ نے اپنی رحمت سے آپ علیہ السلام کی یہ درخواست قبول فرماتے ہوئے حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی مقام نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس کی تفصیل بھی سورة طٰہٰ میں آئے گی۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا
📘 آیت 54 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَز اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ”یہ خصوصی طور پر اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو آپ علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان الفاظ میں کیا تھا : یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ الصّٰفٰت ”ابا جان آپ کر گزرئیے جو آپ علیہ السلام کو حکم ہوا ہے ‘ مجھے آپ ان شاء اللہ صابرین میں سے پائیں گے“۔ یوں آپ علیہ السلام نے ذبح ہونے کے لیے اپنی گردن پیش کردی اور اس سلسلے میں صبر کرنے کا جو وعدہ کیا تھا آخر وقت تک اسے نبھایا۔وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ”جیسا کہ ”رسول نبی“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے قبل ازیں وضاحت کی جا چکی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام مزاج کے اعتبار سے بہت متحرک اور فعال تھے اس لیے آپ علیہ السلام کو رَسُولاً نَبِیًّا کا لقب عطا ہوا ہے۔ اس ضمن میں اس سے قبل حضرت حمزہ رض کے مزاج کی بھی مثال دی گئی ہے۔ حضرت حمزہ رض حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے بھی تھے اور آپ رض کی شخصیت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شخصیت سے بہت مشابہت بھی رکھتی تھی۔
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا
📘 آیت 55 وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِص وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا ”آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بہت منظور نظر تھے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا
📘 آیت 56 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِدْرِیْسَز ”حضرت ادریس علیہ السلام ‘ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اور حضرت نوح علیہ السلام سے قبل زمانے میں مبعوث ہوئے۔ ان سے پہلے ذریت آدم علیہ السلام میں حضرت شیث علیہ السلام گزر چکے تھے۔ تورات میں ان کا نام ”حنوک“ مذکور ہے۔ ان کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حضرت ادریس اور حضرت شیث علیہ السلام دونوں نبی تھے ‘ جبکہ ان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول کے طور پر مبعوث ہوئے۔اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ”اس سے پہلے آیت 41 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی ”صِدِّیْقًا نَّبِیًّا“ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یعنی مزاج کے اعتبار سے حضرت ادریس علیہ السلام کی مناسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تھی۔ دونوں شخصیات صدیقیت کے مزاج کی حامل تھیں۔
وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا
📘 آیت 57 وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ”اسرائیلی روایات کے زیر اثربعض لوگوں نے اس سے رفع سماوی مراد لیا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح زندہ اٹھا لیا تھا۔ معراج کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کی چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں الفاظ قرآنی بہت واضح ہیں : رَافِعُکَ اِلَیَّ آل عمران : 55 کہ میں آپ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ ان الفاظ سے رفع سماوی کا مفہوم متعین ہوجاتا ہے ‘ جبکہ حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں آیت زیر نظر میں لفظ ”رفع“ کے ساتھ ”اِلٰی“ کی عدم موجودگی میں یہ مفہومّ متعین نہیں ہوتا۔ چناچہ یہاں پر اس لفظ کا یہی مفہوم مراد لیا جاسکتا ہے کہ ہم نے انہیں بلند مقام عطا کیا۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩
📘 آیت 58 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ ”سورۃ النساء کی آیت 69 میں مُنْعَمْ عَلَیھِم لوگوں کے جن چار طبقات کا بیان ہے ‘ ان میں سے اعلیٰ ترین طبقہ کے افراد یعنی انبیاء کرام علیہ السلام کا یہاں اللہ کے انعامات کے حوالے سے تذکرہ فرمایا جا رہا ہے۔
۞ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
📘 آیت 59 فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ ””خَلْف“ کا لفظ جب ”ل“ ساکن کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ”نا خلف“ کے لیے جاتے ہیں۔ یعنی اپنے اسلاف کے کردار کے خلاف عمل کرنے والے اور ان کی نیک نامی اور بزرگی کوّ بٹہ لگانے والے لوگ۔اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ”یعنی عنقریب وہ گمراہی کے انجام سے دو چار ہوں گے۔
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
📘 آیت 6 یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ مجھے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو میری دینی و روحانی وراثت کو سنبھال سکے ‘ اور میری وراثت کیا ! یہ تو آل یعقوب علیہ السلام کی وراثت ہے۔ اس مقدس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مجھے ایک ایسا وارث عطا کر جو واقعی اس منصب کا اہل ہو۔ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّارَضِیّ فعیل کے وزن پر ہے ‘ چناچہ اس میں راضی وہ جو راضی ہو اور مرضِیّ جس کو راضی کردیا گیا ہو دونوں کیفیتوں کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسے سورة البینہ آیت 8 میں فرمایا گیا : رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ اسی طرح سورة الفجر میں نفس مطمئنہ کے حوالے سے فرمایا گیا : ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ”تو لوٹ جا اپنے پروردگار کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ‘ وہ تجھ سے راضی“۔۔ اس دعا کے جواب میں حضرت زکریا علیہ السلام کو بشارت دی گئی :
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا
📘 آیت 60 اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْءًا ” ان کے اعمال کا انہیں پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔
جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا
📘 آیت 61 جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بالْغَیْبِ ط ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن میں ایسے وعدے جگہ جگہ کیے گئے ہیں۔ دنیوی زندگی میں نہ تو کسی نے جنت کو دیکھا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو۔ یہ سارا معاملہ غیب ہی کا ہے۔ چناچہ جو شخص اللہ کو اور اس کے ایسے تمام وعدوں کو مانتا ہے وہ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیب کے مصداق غیب پر ایمان لاتا ہے۔اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا ”وہ اپنے وقت پر پورا ہو کر رہے گا۔
لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا ۖ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا
📘 آیت 62 لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ط ”جنت میں ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں گی۔ ہر طرف سے فرشتوں کا ورود ہوگا اور وہ اہل جنت کو سلام کہہ رہے ہوں گے۔ سورة الواقعہ میں اس مضمون کو ایسے بیان فرمایا گیا ہے : لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۔ اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ”وہ اس میں کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے ‘ مگر ایک ہی بات : سلام ! سلام !“
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا
📘 آیت 62 لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ط ”جنت میں ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں گی۔ ہر طرف سے فرشتوں کا ورود ہوگا اور وہ اہل جنت کو سلام کہہ رہے ہوں گے۔ سورة الواقعہ میں اس مضمون کو ایسے بیان فرمایا گیا ہے : لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۔ اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ”وہ اس میں کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے ‘ مگر ایک ہی بات : سلام ! سلام !“
وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا
📘 آیت 64 وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ ج ”یہاں سے ایک بہت اہم مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ بات اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو قرآن کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی ‘ جو عشق تھا ‘ اس کا جو شغف اور شوق تھا ‘ اس کی بنا پر وحی میں وقفہ آپ ﷺ پر بہت شاق گزرتا تھا۔ آپ ﷺ کی خواہش ہوتی تھی کہ وحی جلد از جلد آتی رہے تاکہ اس سے آپ ﷺ اپنے وجودُِ پر نور کو مزید منور کرتے رہیں۔ اس حوالے سے آپ ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام سے شکوہ کیا کہ آپ کی آمد وقفے وقفے سے ہوتی ہے ‘ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں۔ آپ ﷺ کے اس شکوہ کا یہاں جبرائیل کی طرف سے جواب دیا جا رہا ہے کہ اے نبی ﷺ ہم اپنی مرضی سے نازل نہیں ہوتے ‘ ہم تو آپ کے رب کے حکم کے پابند ہیں۔ اس کا اذن ہوتا ہے تو ہم نازل ہوتے ہیں۔لَہٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ ج ”ان الفاظ میں بہت گہرائی ہے۔ آگے اور پیچھے کے درمیان میں کون ہے ؟ وہی جو یہاں متکلم ہیں ‘ یعنی خود جبرائیل ! مراد یہ کہ میں بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوں اور فرشتے کی یہی شان ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے احکام سے ِ سرمو سرتابی نہیں کرتے ‘ جیسا کہ سورة التحریم میں فرمایا گیا ہے : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ”وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جس کا وہ انہیں حکم دے ‘ اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔“وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ”اے نبی ﷺ ! ہم آپ کے رب کی اجازت اور مشیت سے وحی لے کر نازل ہوتے ہیں۔ اس میں جو تاخیر ہوتی ہے وہ کسی نسیان کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرضی اور حکمت سے ہوتی ہے۔ سورة الفرقان میں اس حکمت کی وضاحت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے : کَذٰلِکَج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ”اسی طرح ہم نے اسے نازل کیا تاکہ مضبوط کردیں اس کے ساتھ آپ ﷺ کا دل اور اسی لیے ہم نے اسے پڑھ کر سنایا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے“۔ اور سورة بنی اسرائیل میں یہ مضمون یوں بیان ہوا ہے : وَقُرْاٰناً فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلاً ”اور قرآن کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے ‘ تاکہ آپ ﷺ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائیں ٹھہر ٹھہر کر ‘ اور ہم نے اس کو اتارا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے۔“
رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا
📘 آیت 65 رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖط ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا ”ظاہر ہے جو اللہ کی صفات ہیں ‘ جو اس کی شان ہے ‘ ایسی صفات اور ایسی شان رکھنے والی کوئی ہستی کائنات میں موجود نہیں۔
وَيَقُولُ الْإِنْسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا
📘 آیت 66 وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا ”یہ ان لوگوں کا قول نقل ہوا ہے جو بعث بعد الموت کے منکر تھے۔ مشرکین مکہ کے عقائد کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بتایا جا چکا ہے کہ ان میں سے اکثر وبیشتر آخرت کے قائل تھے ‘ اسی لیے تو بتوں کے بارے میں ان کے اس عقیدے کا قرآن میں ذکر ہوا ہے : وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط یونس : 18 ”اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہوں گے۔“
أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا
📘 آیت 67 اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْءًا۔ ”آج جو انسان حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ بھلا مرجانے کے بعد میں پھر سے کیسے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جاؤں گا ‘ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اسے اس وقت ایک انسان کی صورت میں پیدا کیا تھا جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ تو اب اللہ کے لیے اسے دوبارہ زندہ کردینا کیونکر مشکل ہوگا ؟
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا
📘 آیت 67 اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْءًا۔ ”آج جو انسان حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ بھلا مرجانے کے بعد میں پھر سے کیسے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جاؤں گا ‘ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اسے اس وقت ایک انسان کی صورت میں پیدا کیا تھا جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ تو اب اللہ کے لیے اسے دوبارہ زندہ کردینا کیونکر مشکل ہوگا ؟
ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَٰنِ عِتِيًّا
📘 آیت 69 ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ کُلِّ شِیْعَۃٍ اَیُّہُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا ”اس اجتماع میں سے ہر ہر گروہ کے ایسے سرکردہ لیڈروں کو چن چن کر علیحدہ کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے معاملے میں زیادہ اکڑنے والے تھے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور گستاخی میں پیش پیش رہتے تھے۔ چناچہ ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط جیسے بڑے بڑے مجرموں کو چھانٹ کر الگ کرلیا جائے گا۔
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا
📘 آیت 7 یٰزَکَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ نِ اسْمُہٗ یَحْیٰیلا لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّااس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی نظیر نہیں بنایا ‘ یعنی اس جیسی صفات کسی میں پیدا نہیں کیں۔
ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَىٰ بِهَا صِلِيًّا
📘 آیت 69 ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ کُلِّ شِیْعَۃٍ اَیُّہُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا ”اس اجتماع میں سے ہر ہر گروہ کے ایسے سرکردہ لیڈروں کو چن چن کر علیحدہ کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے معاملے میں زیادہ اکڑنے والے تھے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور گستاخی میں پیش پیش رہتے تھے۔ چناچہ ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط جیسے بڑے بڑے مجرموں کو چھانٹ کر الگ کرلیا جائے گا۔
وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا
📘 آیت 71 وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَاج کانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ”اس آیت کا جو مفہوم عام طور پر سمجھا گیا ہے مجھے اس سے اتفاق ہے اور وہ یہ ہے کہ نوع انسانی کے تمام افراد کو جہنم کے اوپر ”پل صراط“ پر سے گزرنا ہوگا۔ گویا یہ وہی ”الصراط“ ہوگا جسے ”صراط مستقیم“ کہا گیا ہے ‘ جس پر گامزن ہونے کے ہم دعوے دار ہیں۔ یہی صراط مستقیم قیامت کے دن ”پل صراط“ بن جائے گا۔ اہل جنت اس روشنی میں چلتے ہوئے جو انہیں عطا کی جائے گی بڑی سرعت اور آسانی کے ساتھ پل صراط کو پار کر کے جنت میں داخل ہوجائیں گے ‘ جبکہ اہل جہنم اندھیرے میں ٹھوکریں کھا کھا کر نیچے آگ میں گرتے جائیں گے۔ یہ مضمون سورة الحدید اور سورة التحریم کے مطالعے کے دوران زیادہ وضاحت سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آیت زیر نظر کے مطابق ہر انسان کو اس طریقے سے جہنم پر سے گزرنا ہوگا۔ اہل جنت کو اس پر سے گزارنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے جہنم کا مشاہدہ کرلیں اور انہیں اندازہ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی مغفرت کر کے انہیں کس ہولناک انجام سے بچایا ہے۔
ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا
📘 آیت 72 ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّا ”یعنی اہل ایمان اور اہل تقویُٰ پل پر سے گزرتے جائیں گے اور مجرم لوگ نیچے جہنم میں گرتے جائیں گے۔
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا
📘 آیت 73 وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓالا اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِیًّا ”کفار مکہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے تضحیک و استہزاء کے انداز میں سوال کرتے تھے کہ ذرا دیکھو تو سہی مجلسی شان و شوکت اور معاشرتی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہم دونوں گروہوں میں سے کون ساگروہ بہتر ہے۔ ایک طرف محمد ﷺ چند فقراء و مساکین کو لے کر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ابو جہل اور ولید بن مغیرہ کی چوپالوں میں امراء و رؤساء کی چہل پہل ہے۔ ان دونوں گروہوں کی حیثیت و اہمیت کا بھلا آپس میں کیا تقابل اور موازنہ ! کہاں فرش خاک پر بیٹھے بلال ‘ ّ خباب ‘ ابو فکیہہ ‘ عمار اور یاسر رض جیسے ُ مفلس و قلاش اور غلام ‘ اور کہاں شاہانہ محفلوں میں سرداران قریش کی سج دھج اور شان و شوکت ! یہ وہی انداز ہے جو سورة الکہف میں دو افراد کے مکالمے کے دوران دیکھنے میں آتا ہے۔ وہاں بھی ایک دولت مند متکبر شخص نے اللہ کے بندے کو مخاطب کر کے بڑے طمطراق سے کہا تھا : اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا ”میں تم سے بہت زیادہ ہوں مال میں اور بہت بڑھا ہوا ہوں نفری میں !“
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا
📘 آیت 74 وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْیًا ”قریش مکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم صالح علیہ السلام اور قوم شعیب علیہ السلام جو اپنے اپنے رسول کی دعوت کو ٹھکرا کر ہلاکت سے دو چار ہوئیں وہ دنیوی شان و شوکت اور مال و اسباب کے اعتبار سے ان سے کہیں بڑھ کر تھیں۔
قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضْعَفُ جُنْدًا
📘 آیت 75 قُلْ مَنْ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا ج ”یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور قانون ہے کہ جو شخص فہم و شعور کے باوجود گمراہی میں پڑنا پسند کرلیتا ہے تو وہ اس کی رسّی دراز کرتا ہے اور اسے دنیوی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدًا ”دُنیوی زندگی تو ایک سراب کی مانند ہے۔ یا اس کی مثال ایک سٹیج ڈرامے کی سی ہے جس میں مختلف کرداروں کے مختلف بہروپ نظر آتے ہیں۔ مگر جب آخرت میں حقیقت کھل کر سامنے آئے گی تب انہیں پتا چلے گا کہ اصل میں مقام و مرتبہ اور طاقت و قوت کے لحاظ سے کون بڑھ کر تھا ؟ محمد ﷺ یا ابو جہل ؟
وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَرَدًّا
📘 وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ مَّرَدًّا ”یہ مال و دولت دنیا سب یہیں کی چیزیں ہیں اور یہیں رہ جائیں گی۔ بقا اور دوام اگر کسی چیز کو ہے تو وہ نیک اعمال ہیں۔ انسان کے ساتھ عالم آخرت میں بھی نیک اعمال ہی جائیں گے۔ یہ بدلے کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور اس اعتبار سے بھی کہ بالآخر ہر کسی نے لوٹ کر اپنے انہی اعمال کے پاس ہی جانا ہے۔ جب کوئی نیک شخص جنت میں پہنچے گا تو اپنے نیک اعمال کو جنت کی نعمتوں کی شکل میں اپنا منتظر پائے گا۔ وہاں اسے بتایا جائے گا کہ یہ نعمتیں دراصل تمہارے وہ نیک اعمال ہیں جو تم نے دنیا میں سر انجام دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی سے انہوں نے جنت کی ان نعمتوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا
📘 آیت 77 اَفَرَءَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا ”یہ بھی وہی مضمون ہے جو سورة الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کے مکالمے کے سلسلے میں گزر چکا ہے۔ وہاں بھی بالکل اسی سوچ کے حامل مالدار شخص کا ذکر ہے جس نے اللہ کے نیک بندے کو مخاطب کر کے کہا تھا : وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآءِمَۃً لا وَّلَءِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ قیامت واقعی برپا ہوگی ‘ لیکن بالفرض اگر ایسا ہوا بھی تو میں دنیا کی طرح وہاں بھی نوازا جاؤں گا اور تم جو یہاں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہو وہاں بھی اسی حال میں رہو گے۔ آیت زیر نظر میں یہی نظریہ قریش مکہ کے حوالے سے دہرایا گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم جوُ پر تعیش زندگی کے مزے لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہم سے خوش ہے۔ چناچہ ہمیں آخرت میں بھی اسی طرح سے کثرت مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں آئندہ بھی کثرت مال و اولاد کی توقع لیے بیٹھے تھے ‘ مگر مجھے ان مفسرین کی رائے سے اتفاق ہے جن کے نزدیک یہ ان کی آخرت کی توقع کا ذکر ہے۔
أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا
📘 آیت 78 اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ”جو شخص ایسے دعوے کرتا ہے آخر اس کے ان دعو وں کی دلیل کیا ہے ؟ کیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے ؟ یا اللہ تعالیٰ سے وہ کوئی قول و اقرار لے چکا ہے ؟
كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا
📘 آیت 79 کَلَّاطسَنَکْتُبُ مَا یَقُوْلُ ”ہم ایسے شخص کی ایک ایک بات کو لکھ کر محفوظ کرلیں گے تاکہ اس سے پوری طرح جوابدہی کی جاسکے۔
قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا
📘 آیت 8 قَالَ رَبِّ اَ نّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ یہ وہی بات ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے ہم سورة آل عمران آیت 40 میں بھی پڑھ چکے ہیں۔وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّایعنی بڑھاپے کی وجہ سے میرے جسم میں حیات کے سارے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔
وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا
📘 آیت 80 وَنَرِثُہٗ مَا یَقوْلُ وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا ”اس کا دنیوی مال و متاع تو سب ہماری وراثت میں آجائے گا اور جب اسے ہماری عدالت میں پیش ہونے کے لیے لایا جائے گا تو وہ بالکل یکہ و تنہا ہوگا۔ مال و اولاد ‘ خدم و حشم ‘ قوم و قبیلہ ‘ ہم مشرب و حاشیہ نشین وغیرہ میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔
وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا
📘 آیت 81 وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا ”ان کا خیال ہے کہ ان کے یہ معبود ان کے لیے پشت پناہ ثابت ہوں گے اور انہیں اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے۔
كَلَّا ۚ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا
📘 آیت 82 کَلَّاط سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ ”یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے کہ وہ ہستیاں جنہیں یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے رہے ہوں گے ‘ وہ فرشتے ہوں ‘ اولیاء اللہ ہوں یا انبیاء ہوں ‘ قیامت کے دن وہ سب ایسے مشرکین سے اظہار برا ءت کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تم لوگ دنیا میں ہماری پرستش کرتے رہے ہو ‘ ہم سے دعائیں مانگتے رہے ہو اور سمجھتے رہے ہو کہ ہم تم لوگوں کو اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے !
أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا
📘 آیت 83 اَلَمْ تَرَ اَ نَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّہُمْ اَزًّا ”چونکہ ایسے لوگ خود شیاطین کی رفاقت اختیار کرتے ہیں اس لیے ہم شیاطین کو ان پر مستقل طور پر مسلط کردیتے ہیں تاکہ وہ انہیں گناہوں اور سرکشی پر مسلسل ابھارتے رہیں۔
فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا
📘 آیت 84 فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ ط ”عجلت کی نفی پر مبنی یہ مضمون اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ آیت 64 میں رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید کے بارے میں جلدی کرنے سے منع فرمایا گیا تھا کہ وحی کے سلسلے میں آپ ﷺ کا شوق اپنی جگہ مگر اللہ کی حکمت اور مشیت یہی ہے کہ اس کی تنزیل ایک خاص تدریج سے ہو۔ اب آیت زیر نظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ کفار مکہ کے بارے میں ایسا خیال اپنے دل میں نہ لائیں کہ انہوں نے ظلم و سرکشی کی انتہا کردی ہے ‘ اس لیے ان کا فیصلہ چکا دینا چاہیے۔ سورة الانعام اور اس کے بعد سب مکی سورتوں میں مسلسل قریش مکہ کی سازشوں ‘ کٹ حجتیوں اور مخالفانہ سرگرمیوں کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں ‘ مگر اس کے باوجود فرمایا جا رہا ہے کہ ابھی آپ ﷺ ان کے بارے میں فیصلے کے لیے جلدی نہ کیجیے۔ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ”ہمارے ہاں ہر کام ایک فطری تدریج اور باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت طے پاتا ہے۔ چناچہ ان کے بارے میں فیصلہ بھی ہم اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کریں گے۔ ان کا ایک ایک عمل لکھا جا رہا ہے ‘ ان کی ایک ایک حرکت ریکارڈ ہو رہی ہے ‘ اسی ریکارڈ کے مطابق ان سے جوابدہی ہوگی اور بالآخر ان کے کرتوتوں کی سزا انہیں مل کر رہے گی۔
يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا
📘 آیت 85 یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا ”اللہ تعالیٰ کے ہاں اہل تقویٰ کا مہمانوں کی طرح استقبال کیا جائے گا ‘ جیسے سرکاری سطح پر وفود کا استقبال کیا جاتا ہے۔
وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرْدًا
📘 آیت 86 وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا ”اس دن مجرموں کو جانوروں کی طرح ہانک کر جہنم کے گھاٹ پر لے جایا جائے گا ‘ اس حالت میں کہ پیاس کی شدت سے ان کی جان پر بنی ہوگی۔
لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا
📘 آیت 87 لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ”اس دن کوئی کسی کی شفاعت نہ کرسکے گا اور کوئی شفاعت کسی کے کام نہیں آئے گی ‘ سوائے اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد نبھایا ہو۔ جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ‘ اطاعت اور بندگی میں بسر کی ہو سوائے ان کوتاہیوں اور لغزشوں کے جو بشری کمزوریوں کے تحت سرزد ہوئی ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو شفاعت مفید ہوسکتی ہے ‘ لیکن وہ لوگ جو اپنی زندگیوں میں مستقلاً اللہ کے عہد کی خلاف ورزیاں کرتے رہے ‘ جنہوں نے اپنی زندگیوں کا رخ متعین کرتے ہوئے اللہ کی مرضی اور اس کے احکام کو مسلسل نظر انداز کیے رکھا ‘ ایسے لوگوں کے لیے کسی کی کوئی شفاعت کار آمد نہیں ہوسکتی۔ شفاعت کے بارے میں یہّ مسلمہ اصول ہم آیت الکرسی کے ذیل میں ملاحظہ کرچکے ہیں کہ جس کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت حاصل ہوگا وہ اس کے حق میں شفاعت کرسکے گا جس کے لیے اذن ہوگا۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا
📘 آیت 87 لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ”اس دن کوئی کسی کی شفاعت نہ کرسکے گا اور کوئی شفاعت کسی کے کام نہیں آئے گی ‘ سوائے اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد نبھایا ہو۔ جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ‘ اطاعت اور بندگی میں بسر کی ہو سوائے ان کوتاہیوں اور لغزشوں کے جو بشری کمزوریوں کے تحت سرزد ہوئی ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو شفاعت مفید ہوسکتی ہے ‘ لیکن وہ لوگ جو اپنی زندگیوں میں مستقلاً اللہ کے عہد کی خلاف ورزیاں کرتے رہے ‘ جنہوں نے اپنی زندگیوں کا رخ متعین کرتے ہوئے اللہ کی مرضی اور اس کے احکام کو مسلسل نظر انداز کیے رکھا ‘ ایسے لوگوں کے لیے کسی کی کوئی شفاعت کار آمد نہیں ہوسکتی۔ شفاعت کے بارے میں یہّ مسلمہ اصول ہم آیت الکرسی کے ذیل میں ملاحظہ کرچکے ہیں کہ جس کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت حاصل ہوگا وہ اس کے حق میں شفاعت کرسکے گا جس کے لیے اذن ہوگا۔
لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا
📘 آیت 89 لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا ”یہ عقیدہ گھڑکے تم لوگ اللہ کے حضور ایک بہت بڑی گستاخی کے مرتکب ہوئے ہو اور تمہاری اس گستاخی کی وجہ سے :
قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا
📘 آیت 8 قَالَ رَبِّ اَ نّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ یہ وہی بات ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے ہم سورة آل عمران آیت 40 میں بھی پڑھ چکے ہیں۔وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّایعنی بڑھاپے کی وجہ سے میرے جسم میں حیات کے سارے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا
📘 آیت 89 لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا ”یہ عقیدہ گھڑکے تم لوگ اللہ کے حضور ایک بہت بڑی گستاخی کے مرتکب ہوئے ہو اور تمہاری اس گستاخی کی وجہ سے :
أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا
📘 آیت 91 اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا ”یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام اور عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا ‘ جبکہ قریش مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے۔
وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا
📘 آیت 92 وَمَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ”دراصل اولاد کی خواہش اور ضرورت ایک کمزوری ہے۔ اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی جا چکی ہے کہ اولاد کی ضرورت انسان کو ہے اور اس لیے ہے کہ وہ خود فانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مرنا ہے ‘ اس دنیا سے ہمارا نام و نشان مٹ جانا ہے۔ اپنی اس کمزوری کے تحت ہم اولاد کی خواہش کرتے ہیں۔ ہم اپنی اولاد کے ذریعے دراصل اپنی ہستی کا تسلسل چاہتے ہیں ‘ اولاد کی شکل میں ہم اس دنیا میں اپنی بقا چاہتے ہیں۔ مندرجہ ذیل الفاظ میں Pyramids اہرام مصر کے حوالے سے یہی فلسفہ بیان ہوا ہے :Calm and self possessed ,Still and resolute ,The Pyramids echo into eternity ,They define cry of mans will , To survive and conquer the storms of time .یعنی فراعنہ مصر نے عظیم الشان اہرام اسی خواہش کے تحت تعمیر کیے تھے کہ ان کی وجہ سے ان کا نام اس دنیا میں زندہ رہے گا۔ بہر حال انسان یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ وہ فانی ہے ‘ کسی نہ کسی طریقے سے اس دنیا میں اپنا دوام چاہتا ہے۔ اسی خواہش کے تحت وہ دنیا میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ اولاد کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ بہر حال ایسی کوئی ضرورت ہم انسانوں کو ہی لاحق ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہر کمزوری سے پاک ہے۔ اسے کسی ایسے سہارے کی ضرورت بھلا کیونکر ہوگی !
إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا
📘 آیت 93 اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۔ ”ہر انسان ‘ کسے باشد ! اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ایک مطیع فرمان بندے کی حیثیت سے پیش ہوگا۔ حضور ﷺ بھی ایک بندے کی حیثیت میں اللہ کے حضور حاضر ہوں گے۔ ہم آپ ﷺ کو عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہ کہتے اور مانتے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : لِوَاءُ الْحَمَدُ بِیَدِیْ کہ اس روز میدان حشر میں حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا۔ حضور ﷺ اللہ کی عدالت میں کھڑے ہو کر اس کی حمد بیان کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس روز میں اللہ کی جو حمد بیان کروں گا وہ آج بیان نہیں کرسکتا۔ چناچہ معلوم ہوا کہ اس روز ہر کوئی اللہ کے حضور اللہ کا بندہ بن کر حاضر ہوگا۔ اس میں کسی کو کوئی استثناء حاصل نہیں ہوگا۔ چناچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال کیا جائے گا : یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط المائدۃ : 116 ”اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی معبود بنا لینا ‘ اللہ کے سوا ؟“
لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا
📘 آیت 94 لَقَدْ اَحْصٰٹہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا ”ان میں سے ایک ایک اس کی نظر میں ہے۔ وہ سب انسانوں کا پوری طرح احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی ایک فرد بھی اس سے بچ کر کہیں ادھر ادھر نہیں ہو سکے گا۔
وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا
📘 آیت 95 وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا ”اس دن ہر فرد کا محاسبہ ذاتی حیثیت میں ہوگا۔ نہ ماں باپ ساتھ ہوں گے ‘ نہ اولاد ‘ نہ بہن بھائی۔ نہ شوہر کے ساتھ بیوی اور نہ بیوی کے ساتھ شوہر۔ نہ کوئی حمایتی ‘ نہ مددگار ‘ نہ کوئی سفارشی۔ ہر طرف نفسی نفسی کا شور ہوگا ‘ ہر شخص کو فکر ہوگی تو صرف اپنی جان کی !میری کتاب ”سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل“ کے ایک باب کا عنوان ہے : ”قرآن کا قانون عذاب“۔ اس باب میں دی گئی تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اجتماعی عذاب جو قوموں پر آتا ہے وہ صرف دنیا میں آتا ہے ‘ آخرت کا عذاب فرداً فرداً ہوگا۔ یعنی قوموں کا اجتماعی محاسبہ دنیا میں کیا جاتا ہے جبکہ آخرت میں ہر شخص کا محاسبہ اس کی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں ہوگا۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا
📘 آیت 96 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ”یہ فرمان مکہ کے کٹھن حالات میں مؤمنین کے لیے ایک خوش خبری تھی کہ بلاشبہ ابھی اہل ایمان کے لیے بہت مشکل وقت ہے ‘ انہیں ہر طرف سے مخالفت اور طعن وتشنیع کا سامنا ہے ‘ لیکن بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ محبوبان خلائق ہوں گے۔ ابوبکر رض کی شخصیت پر لوگ عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کریں گے ‘ اور بلال رض کی تعظیم و تکریم دلوں پر راج کرے گی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے : مجھے اپنے فلاں بندے سے محبت ہے ‘ لہٰذا تم بھی اسے محبوب رکھو۔ چناچہ جبرائیل اسے محبوب رکھتے ہیں ‘ پھر وہ آسمان میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو محبوب رکھتا ہے ‘ پس تم سب بھی اس کو محبوب رکھو۔ چناچہ آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں“۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر اس کی مقبولیت زمین میں رکھ دی جاتی ہے۔“ 1 یعنی اہل زمین کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے اور اس طرح اللہ کا محبوب بندہ خلق خدا کا بھی محبوب بن جاتا ہے۔
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُدًّا
📘 آیت 97 فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ ”قرآن کی زبان سہل ممتنع کا خوبصورت نمونہ ہے۔ عام قرآنی عبارت سلیس اور آسان عربی زبان میں ہے۔ اس میں ثقیل اور مشکل الفاظ شاذ ہی کہیں نظر آتے ہیں۔ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا ”یعنی آپ ﷺ کی دعوت کا ذریعہ اور وسیلہ ‘ آپ ﷺ کی تعلیمات کا مرکز و محور اور آپ ﷺ کا آلۂ انقلاب یہی قرآن ہے۔ آپ ﷺ اسی کے ذریعے سے وعظ و تذکیر کا فریضہ انجام دیں اور اسی کی مدد سے انذار وتبشیر کا حق ادا کریں : فَذَکِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ قٓ ”تو آپ ﷺ نصیحت کرتے رہیں قرآن کے ساتھ ہر اس شخص کو جو ڈرتا ہے میری وعید سے“۔ قرآن ایک مؤثر اور جامع وعظ بھی ہے اور تزکیہ نفس کے لیے شافی و کافی دوا بھی۔ اس حقیقت کا اعلان سورة یونس میں اس طرح کیا گیا ہے : یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ”اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں کے روگ کی شفاء اور ہدایت ‘ اور اہل ایمان کے حق میں بہت بڑی رحمت“۔ اور سورة بنی اسرائیل کی آیت 82 میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَآءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ”اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن سے وہ چیز جو شفاء اور رحمت ہے مومنین کے لیے۔“
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا
📘 آیت 98 وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍط ہَلْ تُحِسُّ مِنْہُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَہُمْ رِکْزًا ”کیا آج قوم ثمود کی کہیں آہٹ سنائی دیتی ہے ؟ یا قوم عاد کا کوئی نام و نشان نظر آتا ہے ؟ ماضی کی تمام نافرمان قوموں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے نسیاً منسیاً کردیا گیا ہے۔ چناچہ قریش مکہّ جو آج کفر و سرکشی میں حد سے بڑھے جا رہے ہیں وہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوسکتے ہیں۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم۔