Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴾
“For, never will the Jews be pleased with thee. nor yet the Christians, unless thou follow their own creeds. Say: "Behold, God's guidance is the only true guidance." And, indeed, if thou shouldst follow their errant views after all the knowledge that has come unto thee. thou wouldst have none to protect thee from God, and none to bring thee succour.”
آیت 120 وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ ط لہٰذا آپ ان سے امید منقطع کر لیجیے۔ اس لیے کہ زیادہ امید ہو تو پھر مایوسی ہوجاتی ہے۔ اقبال نے بندۂ مؤمن کے بارے میں بہت خوب کہا ہے : ع اس کی امیدیں قلیل ‘ اس کے مقاصد جلیل !مقصد اونچا ہو ‘ لیکن امید قلیل رہنی چاہیے۔ اللہ چاہے گا تو ہوجائے گا ‘ نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ بندۂ مؤمن کا کام اپنی حد تک اپنا فرض ادا کردینا ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش اگر اپنے دل میں پالیں گے تو کسی عجلت پسندی میں گرفتار ہوجائیں گے اور کسی راہ یسیر یا راہ قصیر short cut کے ذریعے منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اپنے آپ کو بھی برباد کرلیں گے۔قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی ط۔ جو اللہ نے بتلایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآءَ ‘ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَ ‘ کَ مِنَ الْعِلْمِلا اگر بفرض محال آپ ﷺ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی کہ چلو کچھ لو کچھ دو کا معاملہ کرلو ‘ کچھ ان کی بات مانوکچھ اپنی بات منوا لو ‘ تو یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگا۔ مکہ میں قریش کی طرف سے اس طرح کی پیشکش کی جاتی تھی کہ کچھ اپنی بات منوا لیجیے ‘ کچھ ہماری مان لیجیے ‘ compromise کرلیجیے ‘ اور اب مدینہ میں یہود کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ چناچہ اس پر متنبہ کیا جا رہا ہے۔ ّ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ معاذ اللہ ! حق کی تلوار بالکل عریاں ہے۔ اللہ کا عدل ہر فرد کے لیے الگ نہیں ہے ‘ یہ فرد سے فرد تک بدلتا نہیں ہے۔ ایسے ہی ہر قوم اور ہر امت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک قوم سے کوئی ایک معاملہ ہو اور دوسری قوم سے کوئی دوسرا معاملہ۔ اللہ کے اصول اور قوانین غیر مبدل ہیں۔ اس ضمن میں اس کی ایک سنت ہے جس کے بارے میں فرمایا : فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا فاطر پس تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ‘ اور تم اللہ کے طریقے کو ہرگز ٹلتا ہوا نہیں پاؤ گے۔