Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا ٱلْوَصِيَّةُ لِلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ بِٱلْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى ٱلْمُتَّقِينَ ﴾
“IT IS ordained for you, when death approaches any of you and he is leaving behind much wealth, to make bequests in favour of his parents and [other] near of kin in accordance with what is fair: I this is binding on all who are conscious of God.”
آیت 180 کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بالْمَعْرُوْفِ ج۔ ابھی قانون وراثت نازل نہیں ہوا تھا ‘ اس ضمن میں یہ ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔ دورِجاہلیت میں وراثت کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی ‘ جیسے آج بھی ہندوؤں میں ہوتی ہے ‘ کہ مرنے والے کی ساری جائیداد کا مالک بڑا بیٹا بن جاتا تھا۔ اس کی بیوی ‘ بیٹیاں ‘ حتیٰ کہ دوسرے بیٹے بھی وراثت سے محروم رہتے۔ چناچہ یہاں وراثت کے بارے میں پہلا حکم دیا گیا کہ مرنے والا والدین اوراقرباء کے بارے میں وصیت کر جائے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ پھر جب سورة النساء میں پورا قانون وراثت آگیا تو اب یہ آیت منسوخ شمار ہوتی ہے۔ البتہ اس کے ایک جزو کو رسول اللہ ﷺ نے باقی رکھا ہے کہ مرنے والا اپنے ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتا ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں ‘ اور یہ کہ جس شخص کا وراثت میں حق مقرر ہوچکا ہے ‘ اس کے لیے وصیت نہیں ہوگی۔ وصیت غیر وارث کے لیے ہوگی۔ مرنے والا کسی یتیم کو ‘ بیوہ کو ‘ کسی یتیم خانہ کو یا کسی دینی ادارے کو اپنی وراثت میں سے کچھ دینا چاہے تو اسے حق حاصل ہے کہ ایک تہائی کی وصیت کر دے۔ باقی دو تہائی میں لازمی طور پر قانونی وراثت کی تنفیذ ہوگی۔ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ ان پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ وصیت کر جائیں کہ ہمارے والدین کو یہ مل جائے ‘ فلاں رشتہ دار کو یہ مل جائے ‘ باقی جو بھی ورثاء ہیں ان کے حصے میں یہ آجائے۔