Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًۭى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٍۢ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ فَعِدَّةٌۭ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا۟ ٱلْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا۟ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾
“It was the month of Ramadan in which the Qur'an was [first] bestowed from on high as a guidance unto man and a self-evident proof of that guidance, and as the standard by which to discern the true from the false. Hence, whoever of you lives to see this month shall fast throughout it; but he that is ill, or on a journey, [shall fast instead for the same] number of other days. God wills that you shall have ease, and does not will you to suffer hardship; but [He desires] that you complete the number [of days required], and that you extol God for His having guided you aright, and that you render your thanks [unto Him].”
آیت 185 شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط اب وہ وجوب علی التخییرّ کا معاملہ ختم ہوگیا اور وجوب علی التعیین ہوگیا کہ یہ لازم ہے ‘ یہ رکھنا ہے۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط یہ رعایت حسب سابق برقرار رکھی گئی۔یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز لوگ خواہ مخواہ اپنے اوپر سختیاں جھیلتے ہیں ‘ شدید سفر کے اندر بھی روزے رکھتے ہیں ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنے کی اجازت دی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک سفر میں ان لوگوں پر کافی سرزنش کی جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ ‘ صحابہ کرام رض کے ہمراہ جہاد و قتال کے لیے نکلے تھے کہ کچھ لوگوں نے اس سفر میں بھی روزہ رکھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سفر کے بعد جہاں منزل پر جا کر خیمے لگانے تھے وہ نڈھال ہو کر گرگئے اور جن لوگوں کا روزہ نہیں تھا انہوں نے خیمے لگائے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ 21 سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔ لیکن ہمارا نیکی کا تصور مختلف ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خواہ 105 بخار چڑھا ہوا ہو وہ کہیں گے کہ روزہ تو میں نہیں چھوڑوں گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی رعایت سے فائدہ نہ اٹھانا ایک طرح کا کفران نعمت ہے۔ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ مرض یا سفر کے دوران جو روزے چھوٹ جائیں تمہیں دوسرے دنوں میں ان کی تعداد پوری کرنی ہوگی۔ وہ جو ایک رعایت تھی کہ فدیہ دے کر فارغ ہوجاؤ وہ اب منسوخ ہوگئی۔وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٹکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ وہ نعمت عظمیٰ جو قرآن حکیم کی شکل میں تمہیں دی گئی ہے ‘ تم اس کا شکر ادا کرو۔ اس موضوع پر میرے دو کتابچوں عظمت صوم اور عظمت صیام و قیام رمضان مبارک کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ ان میں یہ سارے مضامین تفصیل سے آئے ہیں کہ روزے کی کیا حکمت ہے ‘ کیا غرض وغایت ہے ‘ کیا مقصد ہے اور آخری منزل کیا ہے۔ مطلوب تو یہ ہے کہ تمہارا یہ جو جسم حیوانی ہے ‘ یہ کچھ کمزور پڑے اور روح ربانی جو تم میں پھونکی گئی ہے اسے تقویت حاصل ہو۔ چناچہ دن میں روزہ رکھو اور اس حیوانی وجود کو ذرا کمزور کرو ‘ اس کے تقاضوں کو دباؤ۔ پھر راتوں کو کھڑے ہوجاؤ اور اللہ کا کلام سنو اور پڑھو ‘ تاکہ تمہاری روح کی آبیاری ہو ‘ اس پر آب حیات کا ترشح ہو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود تمہارے اندر سے تقربّ الی اللہ کی ایک پیاس ابھرے گی۔