Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ وَتُدْلُوا۟ بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا۟ فَرِيقًۭا مِّنْ أَمْوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾
“AND DEVOUR NOT one another's possessions wrongfully, and neither employ legal artifices with a view to devouring sinfully, and knowingly, anything that by right belongs to others.”
فرمایا :آیت 188 وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ تقویٰ کے لیے معیار اور کسوٹی ہے۔ جو شخص اکل حلال پر قانع ہوگیا اور حرام خوری سے بچ گیا وہ متقی ہے۔ ورنہ نمازوں اور روزوں کے انبار کے ساتھ ساتھ جو شخص حرام خوری کی روش اختیار کیے ہوئے ہے وہ متقی نہیں ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ احکام کی آیات کے درمیان یہ آیت کیونکر آئی ہے۔ اس سے پہلے روزے کے احکام آئے ہیں ‘ آگے حج کے احکام آ رہے ہیں ‘ پھر قتال کے احکام آئیں گے۔ ان کے درمیان میں اس آیت کی کیا حکمت ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ جیسے روزے کی حکمت کا نقطۂعروج یہ ہے کہ روح انسانی میں تقرّب الی اللہ کی طلب پیدا ہوجائے اسی طرح احکام صوم کا نقطۂعروج اکل حلال ہے۔