Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ۞ وَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ فِىٓ أَيَّامٍۢ مَّعْدُودَٰتٍۢ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوْمَيْنِ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ ٱتَّقَىٰ ۗ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾
“And bear God in mind during the appointed days; but he who hurries away within two days shall incur no sin, and he who tarries longer shall incur no sin, provided that he is conscious of God. Hence, remain conscious of God, and know that unto Him you shall be gathered.”
آیت 203 وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ اَ یَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ط اس سے مراد ذوالحجہ کی گیارہویں ‘ بارہویں اور تیرہویں تاریخیں ہیں جن میں یوم نحر کے بعد منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے۔ اِن تین دنوں میں کنکریاں مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے۔ دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں تکبیر اور ذکر الٰہی کثرت سے کرنا چاہیے۔فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ج۔ یعنی جو کوئی تین دن پورے نہیں کرتا ‘ بلکہ دو دن ہی میں واپسی اختیار کرلیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔وَمَنْ تَاَخَّرَ یعنی منیٰ میں ٹھہرا رہے اور تین دن کی مقدار پوری کرے۔فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ط۔ اصل چیز تقویٰ ہے۔ جو کوئی زمانۂ حج میں پرہیزگاری کی روش اختیار کیے رکھے تو اس پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کرے یا تین دن۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر محفوظ ہے۔ اگر کسی شخص نے منیٰ میں قیام تو تین دن کا کیا ‘ لیکن تیسرے دن اس نے کچھ اور ہی حرکتیں شروع کردیں ‘ اس لیے کہ جی اکتایا ہوا ہے اور طبیعت کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہے تو وہ تیسرا دن اس کے لیے کچھ خاص مفید ثابت نہیں ہوگا۔ اصل شے جو اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے شرط لازم ہے ‘ وہ تقویٰ ہے۔ آگے پھر فرمایا :وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ تم سب کے سب ہانک کر اسی کی جناب میں لے جائے جاؤ گے۔