Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍۢ مِّن رُّسُلِهِۦ ۚ وَقَالُوا۟ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ ﴾
“THE APOSTLE, and the believers with him, believe in what has been bestowed upon him from on high by his Sustainer: they all believe in God, and His angels, and His revelations, and His apostles, making no distinction between any of His apostles; and they say: We have heard, and we pay heed. Grant us Thy forgiveness, O our Sustainer, for with Thee is all journeys' end!”
آیت 285 اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط یہ ایک غور طلب بات اور بڑا باریک نکتہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر جب وحی آئی تو آپ ﷺ نے کیسے پہچان لیا کہ یہ بدروح نہیں ہے ‘ یہ جبرائیل امین علیہ السلام ہیں ؟ آخر کوئی اشتباہ بھی تو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ پہلا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے نہ تو آپ ﷺ نے کہانت سیکھی اور نہ آپ نے کوئی نفسیاتی ریاضتیں کیں۔ آپ ﷺ تو ایک کاروباری آدمی تھے اور اہل و عیال کے ساتھ بہت ہی بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ آپ ﷺ کا بلند ترین سطح کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔ یہ درحقیقت آپ ﷺ کی فطرت سلیمہ تھی جس نے وحی لانے والے فرشتے کو پہچان لیا اور آپ ﷺ اس وحی پر ایمان لے آئے۔ نبی کی فطرت اتنی پاک اور صاف ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کسی بدروح وغیرہ کا کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا۔ بہرحال ہمارے لیے بڑی تسکین کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ایمان کے تذکرے کے ساتھ ہمارے ایمان کا تذکرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اصحاب ایمان میں شامل فرمائے۔ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف سورۃ البقرۃ میں یہ دوسرا مقام ہے جہاں ایمان کے اجزاء کو گنا گیا ہے۔ قبل ازیں آیۃ البر آیت 177 میں اجزائے ایمان کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف۔ یہ بات تیسری مرتبہ آگئی ہے کہ اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ سولہویں رکوع میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں : لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ صلے وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ہم ان میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں۔ اور سب سے پہلے آیت 4 میں یہ الفاظ آ چکے ہیں : وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ البتہ رسولوں کے درمیان تفضیل ثابت ہے اور ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں : تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ 7 مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ط آیت 253 یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے وہ بھی تھے جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے کسی اور اعتبار سے بلند کردیے۔وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاق غُفْرَانَکَ رَبَّنَا غُفْرَانَکَ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی نَسْءَلُکَ غُفْرَانَکَ اے اللہ ! ہم تجھ سے تیری مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں۔ وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ یہاں پر ایمان بالآخرۃ کا ذکر بھی آگیا جو اوپر ان الفاظ میں نہیں آیا تھا : کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف۔ اب آخری آیت آرہی ہے۔