slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 90 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ بِئْسَمَا ٱشْتَرَوْا۟ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا۟ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ ۖ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍۢ ۚ وَلِلْكَٰفِرِينَ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ ﴾

“Vile is that [false pride] for which they have sold their own selves by denying the truth of what God has bestowed from on high, out of envy that God should bestow aught of His favour upon whomsoever He wills of His servants: and thus have they earned the burden of God's condemnation, over and over. And for those who deny the truth there is shameful suffering in store.”

📝 التفسير:

آیت 90 بِءْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ یعنی دنیا کا حقیر سا فائدہ ‘ یہاں کی حقیر سی منفعتیں ‘ یہاں کی مسندیں اور چودھراہٹیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں اور وہ اپنی فلاح وسعادت اور نجات کی خاطر ان حقیر سی چیزوں کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ج یہود اس امید میں تھے کہ آخری نبی بھی اسرائیلی ہی ہوگا ‘ اس لیے کہ چودہ سو برس تک نبوت ہمارے پاس رہی ہے ‘ یہ فترۃ کا زمانہ ہے ‘ جسے چھ سو برس گزر گئے ‘ اب آخری نبی آنے والے ہیں۔ ان کو یہ گمان تھا کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے ہوں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور یہ فضل بنی اسماعیل پر ہوگیا۔ اس ضدم ضدا کی وجہ سے یہود عناد اور سرکشی پر اتر آئے۔ اس بَغْیًا کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ دین میں جو اختلاف ہوتا ہے اس کا اصل سبب یہی ضدم ضدا والا رویہ ہوتا ہے ‘ جسے قرآن مجید میں بَغْیًا کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں کئی بار آیا ہے۔ ّ عہد حاضر میں علم نفسیات Psychology میں ایڈلر کے مکتبۂ فکر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا نقطۂ فظر یہ ہے کہ انسان کے جبلی افعال instincts اور محرکاتّ motives میں ایک نہایت طاقتور محرک غالب ہونے کی طلب Urge to dominate ہے۔ چناچہ کسی دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے ‘ وہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے ! بَغْیًا کے معنی بھی حد سے بڑھنے اور تجاوز کرنے کے ہیں۔ دوسروں پر غالب ہونے کی خواہش میں انسان اپنی حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ یہی معاملہ یہود کا تھا کہ انہوں نے دوسروں پر رعب گانٹھنے کے لیے ضدام ضدا کی روش اختیار کی ‘ محض اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک شخص محمد عربی ﷺ کو اپنے فضل سے نواز دیا۔ ّ َ فَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍط۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے۔وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ۔ مُھِیْنٌ اہانت سے بنا ہے۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ان کے لیے اہانت آمیز عذاب مقرر ہے۔ّ