Al-Hajj • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۗ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَكَفُورٌۭ ﴾
“seeing that it is He who gave you life, and then will cause you to die, and then will bring you back to life: [but,] verily, bereft of all gratitude is man!”
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ ”یعنی پہلے تم مردہ تھے اور اس نے تمہیں زندہ کیا۔ یہ آیت سورة البقرۃ کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَاکُمْْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ دونوں آیات کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں۔ صرف سورة البقرۃ کے ”کُنْتُمْ اَمْوَاتاً“ کے الفاظ کو زیر مطالعہ آیت میں دہرایا نہیں گیا۔ مضمون دونوں آیات کا بہر حال ایک ہی ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی ارواح کو عالم ارواح میں پیدا کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ؟ لینے کے بعد سب کو سلا دیا ‘ بالکل اسی طرح جیسے آج کسی چیز کو کو لڈ سٹوریج میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ تمام انسانوں کی پہلی موت تھی۔ اس کے بعد جب کسی روح کا رحم مادر میں کسی جنین کے ساتھ ملاپ ہوتا ہے تو یہ اس روح یا اس انسان کا احیائے اول ہے۔ پھر دنیوی زندگی کے بعد جب اسے موت آئے گی تو یہ اس کا ”اماتہ ثانیہ“ ہوگا اور جب اسے قیامت کو اٹھایا جائے گا تو وہ احیائے ثانی ہوگا۔ اس مضمون کا ذروۂ سنام climax سورة غافر المؤمن کی آیت 11 میں آئے گا۔