An-Noor • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ ٱلْمُحْصَنَٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا۟ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجْلِدُوهُمْ ثَمَٰنِينَ جَلْدَةًۭ وَلَا تَقْبَلُوا۟ لَهُمْ شَهَٰدَةً أَبَدًۭا ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ ﴾
“And as for those who accuse chaste women [of adultery], and then are unable to produce four witnesses [in support of their accusation], flog them with eighty stripes and ever after refuse to accept from them any testimony - since it is they, they that are truly depraved!”
آیت 4 وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ””محصنات“ ُ سے مراد خاندانی عورتیں بھی ہیں اور منکوحہ عورتیں بھی۔ گویا عورتوں کے حق میں احصان حفاظت کا حصار کی دو صورتیں ہیں۔ جو عورتیں کسی معزز اور شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہیں وہ اپنے اس خاندان کی حفاظت کے حصار میں ہیں اور جو کسی کے نکاح کی قید میں ہیں انہیں اپنے خاوند اور نکاح کے اس تعلق کی حفاظت حاصل ہے۔ اس طرح خاندانی منکوحہ خا تون کو دوہرا ”اِحصان“ حاصل ہوتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی شخص کسی پاکدامن خاندانی یا منکوحہ عورت پر زنا کا الزام لگائے اور :وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ”اگر کوئی شخص کسی پاکدامن خاتون پر بدکاری کا الزام لگائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ چار چشم دیدگواہ پیش کرے۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتا ہے تو اس کے اس الزام کو بہتان تصور کیا جائے گا ‘ اور زنا کے بہتان کی سزا کے طور پر اسے اسّی 80 کوڑے لگائے جائیں گے۔ شریعت میں اسے ”حد قذف“ کہا جاتا ہے۔دیکھا جائے تو یہ سزا زنا کی سزا سو کوڑے کے قریب ہی پہنچ جاتی ہے۔ اس میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ خواہ مخواہ برائی کی تشہیر نہ ہو۔ دراصل برائی کا چرچا بھی معاشرے کے لیے برائی ہی کی طرح زہر ناک ہے اور شریعت کا مقصود اس زہرناکی کا سدباب کرنا ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کہیں ایسی غلطی کا ارتکاب ہو تو قصور وار افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ لیکن اگر کسی قانونی سقم کی وجہ سے یا گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث جرم ثابت نہ ہوسکتا ہو اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر بہتر ہے کہ اس سلسلے میں خاموشی اختیار کی جائے اور برائی کی تشہیر کر کے معاشرے کی فضا میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے۔