An-Noor • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ لَّا تَجْعَلُوا۟ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُم بَعْضًۭا ۚ قَدْ يَعْلَمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًۭا ۚ فَلْيَحْذَرِ ٱلَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِۦٓ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾
“DO NOT regard the Apostles summons to you [in the same light] as a summons of one of you to another: God is indeed aware of those of you who would withdraw surreptitiously: so let those who would go against His bidding beware, lest a [bitter] trial befall them [in this world] or grievous suffering befall them [in the life to come].”
آیت 63 لَا تَجْعَلُوْا دُعَآء الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ط ”یعنی رسول اللہ ﷺ کا بلاوا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کے بلانے پر تم نہ جاؤ تو کوئی بڑی بات نہیں ‘ لیکن رسول ﷺ کے بلانے پر تم لبیک نہ کہو تو اپنے ایمان کی خیر مناؤ۔ اب ایک بلانا یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اس کے کسی دوست نے اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ نے بھی کسی کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ ایسی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کجا اور ایک عام آدمی کی دعوت کجا !۔۔ لیکن ایک بلانا اللہ کے رستے میں جہاد کے لیے بلانا ہے کہ ایک طرف رسول اللہ ﷺ لوگوں کو بلا رہے ہیں کہ آؤ اللہ کی راہ میں میرے ساتھ چلو اور دوسری طرف کوئی عام شخص کسی دوسرے شخص کو اپنی مدد کے لیے بلا رہا ہے تو رسول اللہ ﷺ کے بلانے اور ایک عام آدمی کے بلانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔”دُعَآء الرَّسُوْلِ“ کا ایک مفہوم ”رسول ﷺ کو پکارنا“ بھی ہے۔ یعنی جیسے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہو ‘ رسول اللہ ﷺ کو تم ایسے مخاطب نہیں کرسکتے۔ آپ ﷺ کے ادب اور احترام کے بارے میں سورة الحجرات میں بہت واضح ہدایات دی گئی ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ”اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ آپ ﷺ سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے تم ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو ‘ کہیں تمہارے سارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے“۔ سورة الحجرات کے مطالعہ کے دوران اس بارے میں مزید تفصیل سے بات ہوگی۔قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا ج ”یہ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کی نیت میں پہلے سے ہی فتور ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یوں ہوتا ہے کہ جب لوگ کسی مہم کے لیے نکلے تو یہ بھی نکل پڑے۔ پھر جب دیکھا کہ ان کا نام جانے والوں میں شامل ہوچکا ہے تو اس کے بعد آنکھ بچا کر چپکے سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک گئے۔ یا اس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی اجتماع میں شریک ہوئے ‘ وہاں اچانک کسی مہم کے لیے کچھ رضا کاروں کی ضرورت پڑگئی تو اب اس سے پہلے کہ رضا کاروں کے نام پوچھنے کا مرحلہ آتا ‘ یہ آنکھ بچا کر وہاں سے کھسک گئے۔