Al-Qasas • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ قَالَتْ إِحْدَىٰهُمَا يَٰٓأَبَتِ ٱسْتَـْٔجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ ٱسْتَـْٔجَرْتَ ٱلْقَوِىُّ ٱلْأَمِينُ ﴾
“Said one of the two [daughters]: “O my father! Hire him: for, behold, the best [man] that thou couldst hire is one who is [as] strong and worthy of trust [as he]!””
آیت 26 قَالَتْ اِحْدٰٹہُمَا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُز ”اِسْتَاْجَرَ ”اج ر“ مادہ سے باب استفعال ہے۔ ”مُسْتأجِر“ وہ شخص ہے جو کسی کو اجرت پر ملازم رکھے ‘ جبکہ اجرت پر کام کرنے والے کو عربی میں ”آجر“ یا ”اَجِیر“ کہا جاتا ہے ہمارے ہاں عام طور پر آجر کے معنی اجرت دینے والا یا ملازم رکھنے والا کے لیے جاتے ہیں جو غلط ہیں۔ بہر حال عربی میں یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ ”اَجِیر“ صفت مشبہ ہے اور ”آجر“ اسم الفاعل۔اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی یہ دونوں خصوصیات ان بچیوں کے مشاہدے میں آچکی تھیں۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جب ان کی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آپ علیہ السلام کنویں کی طرف بڑھے تھے تو آپ کا ڈیل ڈول دیکھ کر کسی چرواہے نے آپ علیہ السلام سے الجھنے کی جرأت نہیں کی تھی اور سب نے بلا چون و چرا آپ علیہ السلام کو پانی پلانے کا موقع دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان بچیوں کو آپ علیہ السلام کے شریفانہ رویہ سے آپ علیہ السلام کی امانت داری کا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔ کسی مردکاسامنا کرتے ہوئے ایک شریف عورت فطری طور پر اس کی نظر کے بارے میں بہت حساسّ ہوتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے چونکہ لڑکیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ‘ اس لیے انہوں نے آپ علیہ السلام کی امانتداری کی گواہی دی کہ جس شخص کی نگاہ میں خیانت نہیں ہے وہ کسی اور معاملے میں بھی خیانت نہیں کرے گا۔