Al-Qasas • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ ٱلْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِىٓ أُمِّهَا رَسُولًۭا يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِى ٱلْقُرَىٰٓ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَٰلِمُونَ ﴾
“Yet, withal, thy Sustainer would never destroy a community without having [first] raised in its midst an apostle who would convey unto them Our messages; and never would We destroy a community unless its people are wont to do wrong [to one another].”
آیت 59 وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا ”یعنی اللہ تعالیٰ کسی بستی تک دعوت حق پہنچائے بغیر اس پر عذاب نہیں بھیجتا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اصول اور طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پہلے متعلقہ قوم کی طرف باقاعدہ ایک رسول مبعوث کیا جاتا جو حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر کے اس قوم پر حجت قائم کردیتا۔ پھر اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر پر اڑے رہتے انہیں عذاب کے ذریعے نیست و نابود کردیا جاتا۔ یہی اصول سورة بنی اسرائیل میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ”اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول علیہ السلام نہ بھیج دیں“۔ آیت زیر مطالعہ میں اس اصول کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے ہر ہر گاؤں اور ہر ہر بستی میں رسول مبعوث کیے جاتے تھے بلکہ اس کا طریقہ اور معیار یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم کے مرکزی شہر میں رسول بھیج دیا جاتا تھا۔وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُآٰی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ ””ظالم“ کا لفظ مشرک ‘ کافر ‘ گنہگار اور ظلم و ناانصافی کرنے والے ‘ سب کو محیط ہے۔