Aal-i-Imraan • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِى هَٰذِهِ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍۢ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍۢ ظَلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ ٱللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾
“The parable of what they spend on the life of this world is that of an icy wind which smites the tilth of people who have sinned against themselves, and destroys it: for, it is not God who does them wrong, but it is they who are wronging themselves.”
آیت 117 مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا قریش مکہ اہل ایمان کے خلاف جو جنگی تیاریاں کر رہے تھے تو اس کے لیے مال خرچ کرتے تھے۔ فوج تیار کرنی ہے تو اس کے لیے اونٹ اور دیگر سواریوں کی ضرورت ہے ‘ سامان حرب و ضرب کی ضرورت ہے ‘ تو ظاہر ہے اس کے لیے مال تو خرچ ہوگا۔ یہ اس انفاق مال کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں یا تو دین کی مخالفت کے لیے یا اپنے جی کو ذرا جھوٹی تسلی دینے کے لیے کرتے ہیں کہ ہم کچھ صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں ‘ چاہے ہمارا کردار کتنا ہی گرگیا ہو۔ تو ان کے انفاق کی مثال ایسی ہے :کَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْہَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ فَاَہْلَکَتْہُ ط۔یعنی ان کی یہ نیکیاں ‘ یہ انفاق ‘ یہ جدوجہد اور دوڑ دھوپ سب کی سب بالکل ضائع ہوجانے والی ہے۔