Aal-i-Imraan • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ لِيَقْطَعَ طَرَفًۭا مِّنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنقَلِبُوا۟ خَآئِبِينَ ﴾
“[and] that [through you] He might destroy some of those who were bent on denying the truth, and so abase the others that they would withdraw in utter hopelessness.”
آیت 127 لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآءِبِیْنَ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرہ زمانی ترتیب سے نہیں ہے۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کا اپنے گھر سے نکل کر میدان جنگ میں مورچہ بندی کا ذکر ہوا۔ پھر اس سے پہلے کا ذکر ہو رہا ہے جب خبریں پہنچی ہوں گی کہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آ رہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کی خوشخبری دی ہوگی۔ اب اس جنگ کے دوران مسلمانوں سے جو کچھ خطائیں اور غلطیاں ہوئیں ان کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ خود آنحضور ﷺ سے بھی خطا کا ایک معاملہ ہوا ‘ اس پر بھی گرفت ہے ‘ بلکہ سب سے پہلے اسی معاملے کو لیا جا رہا ہے۔ جب آپ ﷺ شدید زخمی ہوگئے اور آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ پھر جب ہوش آیا تو آپ ﷺ کی زبان پر یہ الفاظ آگئے : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ 1یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا !تلوار کا وار آنحضور ﷺ کے رخسار کی ہڈی پر پڑا تھا اور اس سے آپ ﷺ کے دو دانت بھی شہید ہوگئے تھے۔ زخم سے خون کا فوارہ چھوٹا تھا جس سے آپ ﷺ کا پورا چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا تھا۔ خون اتنی مقدار میں بہہ گیا تھا کہ آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ آپ ﷺ ہوش میں آئے تو زبان مبارک سے یہ الفاظ اداہو گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ۔۔ اے نبی ﷺ اس معاملے میں آپ ﷺ ‘ کا کوئی اختیار نہیں ہے ‘ آپ ﷺ ‘ کا کام دعوت دینا اور تبلیغ کرنا ہے۔ لوگوں کی ہدایت اور ضلالت کے فیصلے ہم کرتے ہیں۔ اور دیکھئے اللہ نے کیا شان دکھائی ؟ جس شخص کی وجہ سے مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ‘ یعنی خالد بن ولید ‘ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ ہی کی زبان مبارک سے اسے سیفٌ مِن سُیوف اللّٰہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کا خطاب دلوا دیا۔