Aal-i-Imraan • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ٱلَّذِينَ يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَٰمًۭا وَقُعُودًۭا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَٰطِلًۭا سُبْحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ ﴾
“[and] who remember God when they stand, and when they sit, and when they lie down to sleep, and [thus] reflect on the creation of the heavens and the earth: "O our Sustainer! Thou hast not created [aught of] this without meaning and purpose. Limitless art Thou in Thy glory! Keep us safe, then, from suffering through fire!”
آیت 191 الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں :رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ج اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں ؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو ‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہوجاؤ ؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘ کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں ‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے ‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چناچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے ‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے ‘ مکافات عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں :سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ تو نے یقیناً ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے ‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی !