Al-Ahzaab • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلدَّارَ ٱلْءَاخِرَةَ فَإِنَّ ٱللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَٰتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًۭا ﴾
“but if you desire God and His Apostle, and [thus the good of] the life in the hereafter, then [know that], verily, for the doers of good among you God has readied a mighty reward!””
آیت 29 { وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا } ”اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طالب ہو تو اطمینان رکھو کہ اللہ نے تم جیسی نیک خواتین کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ اب آپ لوگوں کی مرضی ہے کہ دنیا اور اس کی آسائشیں حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر لویا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے فقر و فاقہ کی زندگی قبول کرلو۔ اس آیت کے نزول کے وقت رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ حضرت سودہ ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت حفصہ اور حضرت اُمّ سلمہ رض۔ ابھی حضرت زینب رض سے حضور ﷺ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ روایات کے مطابق حضور ﷺ نے سب سے پہلے یہ بات حضرت عائشہ رض کے سامنے رکھی اور ان سے فرمایا کہ اس معاملے میں اپنے والدین کی رائے لے لو ‘ پھر فیصلہ کرو۔ انہوں نے بلاتوقف عرض کیا : ”کیا یہ معاملہ میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہوں۔“ اس کے بعد حضور ﷺ نے باقی ازواجِ مطہرات رض میں سے ایک ایک کے پاس جا کر یہی بات فرمائی اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رض نے دیا تھا۔ اور یوں سب ازواجِ مطہرات رض اپنے مطالبات سے دستبردار ہوگئیں۔ اس کے بعد حضور ﷺ کی تمام ازواج مطہرات رض نے اپنی زندگیاں اس طرح گزار دیں کہ حضور ﷺ کے کسی ایک گھر میں بھی متواتر دو وقت کا چولہا کبھی گرم نہ ہوا۔