Saba • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَقَالُوٓا۟ ءَامَنَّا بِهِۦ وَأَنَّىٰ لَهُمُ ٱلتَّنَاوُشُ مِن مَّكَانٍۭ بَعِيدٍۢ ﴾
“and will cry, “We do [now] believe in it!” But how can they [hope to] attain [to salvation] from so far away,”
آیت 52 { وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ } ”اور اُس وقت وہ کہیں گے کہ اب ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور اُس وقت کہاں ہوگی ان کی رسائی ایمان تک اتنی دور کی جگہ سے !“ ”تناوش“ اور ”تناول“ ہم معنی الفاظ ہیں۔ یعنی پالینا ‘ کسی چیز کا پہنچ میں ہونا اور اس تک رسائی ہونا۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان لانے کا فائدہ تو دنیا کی زندگی میں ہے جو انسانوں کے لیے امتحانی عرصہ ہے۔ جب امتحان کی مہلت ختم ہوجائے گی تو ایمان لانے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چناچہ اس روز کسی کا ایمان لانا اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔