Faatir • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ مَّا يَفْتَحِ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍۢ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴾
“Whatever grace God opens up to man, none can withhold it; and whatever He withholds, none can henceforth release: for He alone is almighty, truly wise.”
آیت 2 { مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا } ”جو رحمت کا دروازہ بھی اللہ لوگوں کے لیے کھول دے تو اسے بند کرنے والا کوئی نہیں۔“ یہاں ”رحمت“ سے مراد نبوت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے وحی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کا بہت بڑا مظہر ہے۔ اسی لیے سورة الانبیاء میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا : { وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ ”اور اے نبی ﷺ ! ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر“۔ بنی نوع انسان کو چونکہ ایک بہت بڑے امتحان سے سابقہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آسانی کے لیے نبوت کا دروازہ کھول دیا ہے اور اپنے رسول کی شخصیت اور سیرت کو ان کے سامنے رکھ دیا ہے ‘ جو بذات خود اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے ‘ تاکہ لوگ احکامِ وحی سے راہنمائی حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی پیروی کر کے اس امتحان میں سرخرو ہونے کی کوشش کریں۔ بہر حال یہاں پر اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ‘ مشیت اور اختیار کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ انسانیت کی راہنمائی کے لیے اس نے نبوت کی صورت میں اپنی رحمت کا جو دروازہ کھولا ہے اسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔ { وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ } ”اور جسے وہ روک لے تو پھر اسے کوئی جاری کرنے والا نہیں ہے اس کے بعد۔“ جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مشیت سے نبوت کا دروازہ بند فرما دے گا تو پھر اسے کوئی کھول نہیں سکے گا۔ چناچہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے ‘ اس لیے اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ مختلف ادوار میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی صورت میں دجالوں کا ظہور ہوتا رہے گا۔ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ”اور یقینا وہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔“