slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة يس

(Ya-Sin) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يس

📘 ٓیت 1 { یٰسٓ۔ ”یٰـسٓ !“ زیادہ تر مفسرین کی رائے میں ”یٰـسٓ“ حضور ﷺ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسی طرح ”طٰہٰ“ کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ حضور ﷺ کا نام ہے۔ واللہ اعلم !

وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 10 { وَسَوَآئٌ عَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ } ”اور اے نبی ﷺ ! ان کے حق میں برابر ہے ‘ خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں ‘ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ سورة البقرۃ کی آیت 6 میں بھی ہو بہو یہی الفاظ آئے ہیں۔

إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ ۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ

📘 آیت 11{ اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ } ”آپ ﷺ تو بس اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو الذکر ّ قرآن کی پیروی کرے اور غیب میں ہوتے ہوئے رحمٰن سے ڈرے۔“ آپ ﷺ کے انذار سے تو صرف وہی لوگ متاثر ہوسکتے ہیں جو اس قرآن کے پیغام کو سمجھیں ‘ اس کی پیروی کریں اور غیب میں ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے دلوں میں رکھیں۔ { فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ } ”تو ایسے لوگوں کو آپ ﷺ خوشخبری دے دیجیے مغفرت اور باعزت اجر کی۔“

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ

📘 آیت 12 { اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ } ”یقینا ہم ہی زندہ کریں گے ُ مردوں کو ‘ اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔“ انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چناچہ یہاں پر ”آثار“ سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں۔ بہر حال انسان کو آخرت میں ان ”آثار“ کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا ‘ اس کا اجر وثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بےحیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے ‘ اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔ { وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ } ”اور ہرچیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔“ ”اِمَامٍ مُّبِیْنٍ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جسے سورة الرعد کی آیت 39 اور سورة الزخرف کی آیت 4 میں ”اُمّ الْکِتٰب“ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ

📘 آیت 13 { وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلاً اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ 7 اِذْ جَآئَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ } ”ان کے لیے آپ ﷺ اس بستی والوں کی مثال بیان کیجیے ‘ جب کہ ان کے پاس رسول آئے۔“

إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ

📘 آیت 14 { اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ } ”جب ہم نے بھیجے ان کی طرف دو رسول“ اس بارے میں مفسرین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ دو حضرات ”رسول من جانب اللہ“ نہیں تھے بلکہ کسی ”رسول کے رسول“ تھے۔ یعنی ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے وقت کے رسول کسی دوسرے مقام پر موجود ہوں اور انہوں نے اپنے دو شاگردوں کو کسی خاص بستی کی طرف دعوت کے لیے بھیجا ہو۔ اس بارے میں غالب رائے یہ ہے کہ وہ حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تھے جو آپ علیہ السلام کے حکم سے ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر انطاکیہ میں تبلیغ کے لیے آئے تھے۔ ”رسول کے رسول“ کی اصطلاح ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ نے ُ حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی تو مدینہ واپسی پر آپ ﷺ نے خواتین سے بھی بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور اس کے لیے آپ ﷺ نے حضرت عمر علیہ السلام کو خواتین کے پاس بھیجا۔ چناچہ حضرت عمر علیہ السلام نے خواتین کے مجمع میں آکر فرمایا : اَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ میں اللہ کے رسول ﷺ کا رسول ہوں۔ اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص علیہ السلام نے ایرانیوں کے سامنے اپنا تعارف ان الفاظ میں کروایا تھا ”اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا…“ یعنی ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنا نمائندہ بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ بہر حال یہاں یہ دونوں امکان موجود ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بستی میں اللہ نے ایک ساتھ دو رسول مبعوث فرمائے ہوں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ﷺ کو اکٹھے مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو اصحاب کسی رسول کے نمائندے بن کر متعلقہ بستی میں گئے ہوں۔ { فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ } ”پس انہوں نے ان دونوں کو جھٹلادیا ‘ تو ہم نے ان کو تقویت دی ایک تیسرے کے ساتھ“ اس قوم کی طرف سے ان دونوں رسولوں کی تکذیب کے بعد ہم نے ان کی مدد کے لیے ایک تیسرا رسول بھی بھیجا۔ { فَقَالُوْٓا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ } ”تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔“

قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَٰنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ

📘 آیت 15 { قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَالا } ”انہوں نے کہا کہ تم نہیں ہو مگر ہم جیسے انسان !“ { وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْئٍلا اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ تَکْذِبُوْنَ } ”اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ‘ تم محض جھوٹ بول رہے ہو۔“

قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ

📘 آیت 16 { قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّآ اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ } ”انہوں نے کہا کہ ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم یقینا تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔“ انہوں نے بستی والوں کی ہٹ دھرمی کے جواب میں کوئی اور دلیل تو نہیں دی۔ البتہ اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر ان کے سامنے اپنے اس یقین اور اذعان کا اظہار کیا کہ ہم اسی کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہیں۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 آیت 17 { وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ } ”اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری سوائے اللہ کا پیغام صاف صاف پہنچا دینے کے۔“

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 18 { قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ } ”انہوں نے کہا کہ ہمیں تم سے نحوست کا اندیشہ ہے۔“ یعنی ہم تمہیں اپنے لیے فالِ بد سمجھتے ہیں۔ تم نے آکر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کردی ہیں ان کی وجہ سے ہمیں اندیشہ ہے کہ اس کی نحوست کہیں ہم پر نہ پڑجائے اور اس کی پاداش میں کہیں ہم خدا کی گرفت میں نہ آجائیں۔ { لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ } ”اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیں گے“ { وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ } ”اور تمہیں ضرور پہنچے گی ہماری طرف سے دردناک سزا۔“

قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ ۚ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ

📘 آیت 19 { قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ ”انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے ساتھ ہے۔“ { اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ } ”کیا اس لیے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے ؟“ کیا تم یہ باتیں اس لیے بنا رہے ہو کہ تمہیں نصیحت اور یاد دہانی کرائی گئی ہے ؟ جبکہ یہ نصیحت بھی کوئی نئی اور انوکھی بات سے متعلق نہیں ہے۔ اللہ کی معرفت تو پہلے سے تمہارے دلوں کے اندر موجود ہے۔ ہم تو تم لوگوں کو صرف اس کی یاد دہانی کرانے کے لیے آئے ہیں۔ اسی حقیقت کو سورة الذاریات میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } ”اور تمہارے اپنے اندر بھی اللہ کی نشانیاں ہیں ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ { بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ } ”بلکہ تم حد سے بڑھ جانے والے لوگ ہو۔“

وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ

📘 ٓیت 1 { وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ } ”قسم ہے قرآن حکیم کی !“ عربی زبان میں ”قسم“ سے گواہی مراد لی جاتی ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ حکمت بھرا قرآن گواہ ہے۔ اس قسم کا مقسم علیہ کیا ہے ؟ یعنی یہ قسم کس چیز پر کھائی جا رہی ہے ؟ اور یہ قرآن کس عظیم حقیقت پر گواہ ہے ؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے :

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ

📘 آیت 20 { وَجَآئَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ رَجُلٌ یَّسْعٰی } ”اور شہر کے َپرلے سرے سے آیا ایک شخص بھاگتا ہوا“ { قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ } ”اس نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم ان رسولوں علیہ السلام کی پیروی کرو !“ تم لوگ ان پر ایمان لائو ‘ ان کی تصدیق کرو اور ان کی اطاعت کرو۔

اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ

📘 آیت 21 { اتَّبِعُوْا مَنْ لاَّ یَسْئَلُکُمْ اَجْرًا وَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ } ”پیروی کرو ان کی جو تم سے کسی اجرت کے طالب نہیں ہیں اور جو ہدایت یافتہ ہیں۔“ دیکھو ! یہ لوگ تمہیں نصیحت کرنے اور تمہیں راہ راست کی طرف بلانے کے لیے دن رات مشقت کر رہے ہیں ‘ لیکن اس سب کچھ کے عوض وہ تم سے کسی صلے یا اجرت کا مطالبہ نہیں کرتے۔ جبکہ ان کی سیرتیں خود اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ یہ لوگ واقعی ہدایت یافتہ ہیں۔

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 22 { وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”اور مجھے کیا ہے کہ میں عبادت نہ کروں اس ہستی کی جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔“ دیکھو ! یہ لوگ جو دعوت دے رہے ہیں وہ یہی تو ہے کہ تم اس اکیلے معبود کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوگوں نے پلٹ کر بھی جانا ہے۔ چناچہ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جو میرا خالق ہے۔

أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ

📘 آیت 23 { ئَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً } ”کیا میں اس کے سوا دوسروں کو معبود بنالوں ؟“ کیا میں اس معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں اور دیوی دیوتائوں کی پوجا شروع کر دوں ؟ { اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا وَّلاَ یُنْقِذُوْنِ } ”اگر رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان جھوٹے معبودوں کی سفارش میرے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ وہ مجھے چھڑاسکیں گے۔“

إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آیت 24 { اِنِّیْٓ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”تب تو میں یقینا بہت کھلی گمراہی میں پڑ جائوں گا۔“ اگر میں معبودِ حقیقی کے ساتھ جھوٹے خدائوں کو شریک کرنے کی حماقت کرلوں جنہیں کسی چیز کا بھی اختیار نہیں تو ایسی صورت میں تو میں سیدھے راستے سے بالکل ہی بھٹک جائوں گا۔

إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ

📘 آیت 25 { اِنِّیْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ } ”میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں ‘ سو میری بات سنو !“ یعنی اللہ کے یہ تینوں رسول علیہ السلام تمہیں توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں تمہاری سمجھ میں آئیں نہ آئیں میں ان کی حقیقت تک پہنچ چکا ہوں۔ اور تم ان کی تصدیق کرو نہ کرو میں تو ان پر ایمان لا چکا ہوں۔ یوں اللہ کے اس بندے نے ڈنکے کی چوٹ اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ یہ سنتے ہی اس کی قوم کے لوگ غصے سے پاگل ہوگئے۔ انہیں ان رسولوں پر تو زیادہ غصہ نہ آیا ‘ کیونکہ وہ باہر سے آئے ہوئے افراد تھے ‘ لیکن اپنی قوم کے ایک فرد کی طرف سے اس ”اعلانِ بغاوت“ کو وہ برداشت نہ کرسکے ‘ چناچہ اللہ کے اس بندے کو اسی لمحے شہید کردیا گیا۔

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ

📘 آیت 26 { قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ } ”کہہ دیا گیا کہ تم داخل ہو جائو جنت میں !“ وہ شخص چونکہ اللہ کی راہ کا مقتول تھا ‘ اس لیے جنت تو گویا اس کے انتظار میں تھی۔ شہادت کے رتبے پر فائز ہوجانے والے خوش قسمت لوگوں کو جنت میں داخلے کے لیے روز حشر کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ‘ بلکہ جس لمحے ایسے کسی مومن کی شہادت ہوتی ہے اسی لمحے اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ { قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ } ”اس نے کہا : کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا۔“

بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ

📘 آیت 27 { بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ } ”وہ جو میرے رب نے میری مغفرت فرمائی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں شامل کرلیا ہے۔“ ذرا تصور کیجیے ! ادھر جنت کا تو یہ منظر ہے ‘ مگر دوسری طرف دنیا میں اس کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوگی۔ بیوی بچے ہوں گے تو وہ رو رو کر بےحال ہو رہے ہوں گے ‘ والدین ہوں گے تو ان پر غشی کے دورے پڑ رہے ہوں گے۔ غرض بہن بھائی ‘ عزیز و اقارب سب نوحہ کناں ہوں گے کہ اسے اس طرح ناحق قتل کردیا گیا۔ بہرحال ان دونوں جہانوں کے معاملات علیحدہ علیحدہ ہیں ‘ درمیان میں غیب کا پردہ حائل ہے۔ دنیا والوں کو پردہ غیب کی دوسری طرف اس جہان کی کیفیات کا کچھ علم نہیں ‘ جہاں اللہ کا ایک بندہ جنت کے تخت پر بیٹھا کہہ رہا ہے کہ اگر میری قوم کے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اللہ کے ہاں میری کیسی قدر و منزلت ہوئی ہے اور مجھے کیسے کیسے اعزازو اکرام سے نوازا گیا ہے تو وہ میری شہادت پر رنجیدہ و غمگین نہ ہوتے۔

۞ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ

📘 آیت 28 { وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی قَوْمِہٖ مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَمَا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ } ”اور اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نازل نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہم لشکر نازل کرنے والے تھے۔“ اپنے منکروں اور نافرمانوں کو سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو آسمانوں سے کوئی فوج اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ

📘 آیت 29 { اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ } ”وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ جبھی وہ سب بجھ کر رہ گئے۔“ اس یکبارگی خوفناک چنگھاڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پوری آبادی چشم ِزدن میں گویا راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی۔

إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ

📘 آیت 3 { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } ”کہ اے محمد ﷺ ! یقینا آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ گویا حضور ﷺ کی رسالت کا سب سے بڑا ”مُصدِّق“ تصدیق کرنے والا اور سب سے بڑا ثبوت قرآن حکیم ہے۔ اور قرآن حکیم ہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن کی قسم اور بھی کئی سورتوں کے آغاز میں کھائی گئی ہے مگر وہاں قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے۔ مثلاً سورة صٓ کی پہلی آیت میں یوں فرمایا گیا : { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ۔ ‘ سورة الزخرف کے شروع میں یوں فرمایا گیا : { حٰمٓ۔ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۔ ‘ سورة ق کا آغاز یوں ہوتا ہے : { قٓقف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ۔۔ اب چونکہ سورة یٰـسٓ کی ان آیات میں قرآن کی قسم کے مقسم علیہ کا ذکر بھی ہے اس لیے قرآن کی جن قسموں کا مقسم علیہ مذکور نہیں ان کا مقسم علیہ بھی وہی قرار پائے گا جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ چناچہ قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم تو کھائی گئی ہے لیکن قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے ‘ وہاں ان تمام قسموں کے بعد اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کا جملہ بطور مقسم علیہ محذوف understood مانا جائے گا۔ اس اعتبار سے سورة یٰـسٓ ایسی تمام سورتوں کے لیے ذروہ سنام climax کا درجہ رکھتی ہے جن کے آغاز میں قرآن کی قسم کا ذکر ہے۔

يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 30 { یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِج مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } ”افسوس ہے بندوں کے حال پر ! نہیں آتا ان کے پاس کوئی پیغمبر مگر وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے ہیں۔“

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ

📘 آیت 31 { اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِلَیْہِمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ } ”کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی نسلوں کو ہلاک کردیا کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آتے !“ ایک دفعہ دنیا سے چلے جانے کے بعد کسی کو بھی دوبارہ یہاں آنے کا موقع نہیں ملتا۔ چناچہ ان اقوام کے لوگ نیست و نابود ہو کر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ

📘 آیت 32 { وَاِنْ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ } ”اور وہ سب کے سب ہمارے ہی سامنے حاضر کیے جائیں گے۔“ اگرچہ دنیا میں واپس آنے کی تو انہیں اجازت نہیں مگر وہ معدوم نہیں ہوئے۔ عالم برزخ میں وہ سب کے سب اب بھی موجود ہیں اور وقت آنے پر ان میں سے ایک ایک کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کردیا جائے گا۔

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ

📘 آیت 33 { وَاٰیَۃٌ لَّـہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ } ”اور ان کے لیے ایک نشانی ُ مردہ زمین ہے“ { اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ } ”ہم نے اسے زندہ کیا اور اس سے اناج نکالا ‘ تو اس میں سے وہ کھاتے ہیں۔“ بارش برستے ہی بظاہر مردہ اور بنجر زمین میں زندگی کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طرح طرح کا سبزہ ‘ فصلیں اور پودے اگ آتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا ذریعہ بنتے ہیں۔

وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ

📘 آیت 34 { وَجَعَلْنَا فِیْہَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ } ”اور ہم نے بنا دیے ہیں اس میں باغات کھجور اور انگور کے“ { وَّفَجَّرْنَا فِیْہَا مِنَ الْعُیُوْنِ } ”اور جاری کردیے ہیں ہم نے اس میں چشمے۔“

لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

📘 آیت 35 { لِیَاْکُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ لا وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْط اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ } ”تاکہ یہ ان کے پھلوں میں سے کھائیں ‘ اور یہ سب ان کے ہاتھوں نے تو نہیں بنایا ‘ تو کیا تم لوگ شکر نہیں کرتے ؟“ یہ کھجوریں ‘ انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل جو یہ لوگ کھاتے ہیں ‘ یہ ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے تو نہیں ہیں۔ یہ مضمون سورة الواقعہ کے دوسرے رکوع میں زیادہ زور دار اور موثر انداز میں بیان ہوا ہے۔ وہاں تکرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مختلف تخلیقات کا ذکر کر کے ہر بار یہ سوال کیا گیا ہے کہ ذرا بتائو ! یہ چیز تم نے بنائی ہے یا اس کو بنانے والے ہم ہیں ؟ علامہ اقبالؔ نے اس مضمون کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟خاک یہ کس کی ہے ؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 36 { سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا } ”پاک ہے وہ ذات جس نے پیدا کیا ہے تمام جوڑوں کو“ م { مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ } ”اس میں سے بھی جو زمین اگاتی ہے ‘ اور خود ان کی اپنی جانوں سے بھی اور اس میں سے بھی جن کے بارے میں یہ نہیں جانتے۔“ زمین سے اگنے والے سب نباتات بھی جوڑوں کی شکل میں ہیں ‘ انسانوں کی تخلیق بھی جوڑوں کی صورت میں ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بہت سی دوسری مخلوقات بھی جوڑوں کی شکل میں ہیں جن کے بارے میں انسان ابھی جانتا بھی نہیں ہے۔

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ

📘 آیت 37 { وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیْلُج نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ } ”اور ان کے لیے ایک نشانی رات بھی ہے ‘ ہم کھینچ لیتے ہیں اس سے دن کو ‘ تو اس وقت یہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔“ یہ ایسے ہے جیسے ایک سیاہ چادر بچھی ہو ‘ جسے ایک چمکدار چادر نے ڈھانپ رکھا ہو۔ پھر اوپر والی سفید اور چمکدار چادر کھینچ لی جائے اور نیچے سے سیاہ چادر نمودار ہوجائے۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

📘 آیت 38 { وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا } ”اور سورج چلتا رہتا ہے اپنے مقررہ راستے پر۔“ یعنی اپنے ایک معین مدار پر گردش کرتا ہے۔ { ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ } ”یہ اندازہ مقرر کیا ہوا ہے اس کا جو بہت زبردست ‘ بہت علم والا ہے۔“

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ

📘 آیت 39 { وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰـہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ } ”اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں ‘ یہاں تک کہ وہ پھر کھجور کی پرانی سوکھی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔“ ستائیسویں شب کی صبح کو دیکھیں تو چاند واقعی ایک سوکھی ہوئی ٹہنی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 4 { عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } ”سیدھے راستے پر ہیں۔“

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

📘 آیت 40 { لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ } ”نہ تو سورج کے لیے ممکن ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن سے آگے نکل سکتی ہے۔“ جب تک یہ دنیا قائم ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی چلتے رہیں گے۔ { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ } ”‘ اور یہ سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔“ یہ تمام اجرامِ سماویہ بہت منظم انداز میں اپنے اپنے مدار کے اندر محو ِگردش ہیں۔

وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ

📘 آیت 41 { وَاٰیَۃٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ } ”اور ان کے لیے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا۔“ اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ اس سے خاص طور پر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی مراد ہے۔

وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ

📘 آیت 42 { وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ } ”اور ہم نے ان کے لیے اسی طرح کی اور چیزیں بھی پیدا کردیں جن پر یہ لوگ سواری کرتے ہیں۔“

وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ

📘 آیت 43 { وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْہُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَہُمْ وَلَا ہُمْ یُنْقَذُوْنَ } ”اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کردیں ‘ پھر نہ تو ان کا کوئی فریاد رس ہوگا اور نہ ہی وہ چھڑائے جائیں گے۔“

إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ

📘 آیت 44 { اِلَّا رَحْمَۃً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰی حِیْنٍ } ”مگر یہ ہماری طرف سے رحمت ہے اور فائدہ اٹھانا ہے ایک وقت ِمعین ّتک کے لیے۔“ ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے اس زمین کے ماحول کو انسانی زندگی کے لیے سازگار بنایا ہے اور اس میں انسانوں کے رہنے اور بسنے کے لیے ضرورت کا تمام سازوسامان فراہم کردیا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

📘 آیت 45 { وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَمَا خَلْفَکُمْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سبق حاصل کرو اس سے جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یہاں پر اِتَّقُوْا بچنے اور ڈرنے کے بجائے سوچنے ‘ توجہ کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ اس طرح نگاہوں کے سامنے سے مراد آیات آفاقیہ آلاء اللہ اور پیچھے سے مراد نسل انسانی کی پرانی تاریخ ایام اللہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو زیر مطالعہ سورة کی آیت 9 کی تشریح

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

📘 آیت 46 { وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ } ”اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے مگر یہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔“

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آیت 47 { وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ } ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خرچ کرو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے“ یعنی اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے غریبوں کی حاجت روائی کرو ‘ بھوکوں کو کھلائو ‘ یتیموں کی سرپرستی کرو ‘ خلق ِخدا کی بہبود اور بھلائی کے دوسرے کاموں میں خرچ کرو۔ { قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآئُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ} ”تو یہ کافر کہتے ہیں اہل ِ ایمان سے کہ کیا ہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا !“ اس کے جواب میں ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اللہ تو ہرچیز پر قادر ہے۔ وہ اگر چاہتا کہ یہ لوگ بھوکے نہ رہیں تو وہ انہیں خود ہی وافر رزق عطا کردیتا ‘ لیکن اگر اللہ نے انہیں ان کی ضروریات کے مطابق رزق نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود انہیں اسی حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ تو کیا ہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ نے ہی کھلانا نہیں چاہا ؟ { اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”تم تو خود ہی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو !“ یہ جواب ہے ان کافروں کا نصیحت کرنے والوں کو کہ تم لوگ ہمیں کیا نصیحتیں کرتے ہو ‘ تمہاری تو مت ماری گئی ہے ‘ تم تو خود بھٹکے ہوئے ہو ‘ تمہاری یہ بات اور نصیحت عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ خوشحال لوگ غرباء و مساکین کا خیال رکھیں اور بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 48 { وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ”اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ‘ اگر تم لوگ سچے ہو !“ یہاں وعدے سے قیامت کا وعدہ بھی مراد ہوسکتا ہے اور عذاب آنے کا وعدہ بھی۔ یعنی آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ایمان نہ لانے کی پاداش میں ہم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا۔ چناچہ ہم آپ کی دعوت کا انکار تو کرچکے ہیں ‘ اب وہ عذاب ہم پر آخر کب آئے گا ؟ یا اگر قیامت کے بارے میں آپ کا دعویٰ سچا ہے تو ذرا یہ بھی بتادیں کہ قیامت آخر کب برپا ہوگی ؟

مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ

📘 آیت 49 { مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُہُمْ وَہُمْ یَخِصِّمُوْنَ } ”یہ لوگ نہیں انتظار کر رہے مگر ایک چنگھاڑ کا ‘ وہ انہیں آپکڑے گی اور یہ اسی طرح جھگڑ رہے ہوں گے۔“

تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ

📘 آیت 5 { تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ } ”اور اس قرآن کا نازل کیا جانا ہے اس ہستی کی جانب سے جو بہت زبردست ‘ نہایت رحم فرمانے والا ہے۔“

فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ

📘 آیت 50 { فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَۃً وَّلَآ اِلٰٓی اَہْلِہِمْ یَرْجِعُوْنَ } ”پھر نہ تو وہ کوئی وصیت ہی کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر جاسکیں گے۔“ وہ معاملہ اس قدر اچانک ہوگا کہ جو کوئی جس حالت میں ہوگا اسی حالت میں اس کا شکار ہوجائے گا۔ قبل ازیں اسی سورت میں اس منظر اور کیفیت کا ایک نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : { اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ } ”وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ تو جبھی وہ سب بجھ کر رہ گئے۔“

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ

📘 آیت 51 { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ } ”اور صور پھونکا جائے گا تو وہ یکایک قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔“ وہ چار ونا چار ‘ کشاں کشاں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لیے بھاگے چلے جا رہے ہوں گے۔

قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ

📘 آیت 52 { قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاسکۃ } ”وہ کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! ہمیں کس نے اٹھا دیا ہماری قبروں سے ؟“ { ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ } ”پھر خود ہی کہیں گے : ارے یہ تو وہی دن ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔“ پیغمبروں نے بعث بعد الموت کے بارے میں جو خبریں دی تھیں وہ سب کی سب سچ ثابت ہوئیں اور آج واقعی وہ دن آن پہنچا ہے جس کے بارے میں وہ ہمیں بار بار یاد دہانی کرایا کرتے تھے۔

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ

📘 آیت 53 { اِنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ } ”پھر ایک ہی چنگھاڑ ہوگی تو اس کے نتیجے میں وہ سب کے سب ہمارے حضور حاضر کردیے جائیں گے۔“

فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 54 { فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } ”پس آج کے دن کسی جان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بدلے میں نہیں دیا جائے گا مگر وہی کچھ جو تم عمل کرتے رہے تھے۔“

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ

📘 آیت 55 { اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰـکِہُوْنَ } ”یقینا اہل ِجنت اس دن مزے کرنے میں مشغول ہوں گے۔“

هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ

📘 آیت 56 { ہُمْ وَاَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَی الْاَرَآئِکِ مُتَّکِئُوْنَ } ”وہ اور ان کی بیویاں سائے میں تختوں کے اوپر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔“

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ

📘 آیت 57 { لَہُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ } ”اس میں ان کے لیے تمام میوے ہوں گے اور ان کے لیے ہر وہ شے ہوگی جو وہ طلب کریں گے۔“

سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ

📘 آیت 58 { سَلٰمٌقف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ } ”سلام کہا جائے گا ربّ ِرحیم کی طرف سے۔“ جنت میں اللہ کی طرف سے ان کے لیے سلامتی کے پیغامات آتے رہیں گے۔

وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ

📘 آیت 59 { وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ } ”اور اعلان کیا جائے گا : اے مجرمو ! آج تم الگ ہو جائو۔“ پھر تمام کافر اور مشرک لوگوں کو چھانٹ کر الگ کرلیا جائے گا اور انہیں مخاطب کر کے پوچھا جائے گا :

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ

📘 آیت 6 { لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ } ”تاکہ آپ ﷺ خبردار کردیں اس قوم کو جن کے آباء و اَجداد کو خبردار نہیں کیا گیا ‘ پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“ یہ مضمون اس سے پہلے سورة السجدۃ کی آیت 3 میں بھی آچکا ہے۔ یعنی آپ ﷺ سے پہلے چونکہ اس قوم میں کوئی نبی یا رسول نہیں آیا ‘ اس لیے نہ تو انہیں نبوت و رسالت کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ وہ کتاب و شریعت سے واقف ہیں۔ یہاں پر فَہُمْ غٰفِلُوْنَ کے الفاظ میں رعایت کا انداز بھی پایا جاتا ہے ‘ یعنی چونکہ اس قوم میں اس سے پہلے نہ تو کوئی پیغمبر آیا ہے اور نہ ہی کوئی الہامی کتاب ان لوگوں تک پہنچی ہے اس لیے ان کا ”غافل“ ہونا بالکل قرین قیاس تھا۔ لیکن اب جبکہ ان میں پیغمبر بھی مبعوث ہوچکا ہے اور ایک حکمت بھری کتاب کی آیات بھی ان تک پہنچ چکی ہیں تو اس کے بعد ان کی گمراہی کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن یہ لوگ ہیں کہ اب بھی گمراہی سے چمٹے ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے ہمارے رسول ﷺ کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے اس لیے :

۞ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 آیت 60 { اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰــبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَج اِنَّہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} ”اے آدم کی اولاد ! کیا میں نے تم سے یہ وعدہ نہیں لے لیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی مت کرنا ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“

وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

📘 آیت 61 { وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْط ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ} ”اور میری ہی بندگی کرنا۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔“

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ

📘 آیت 62 { وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا کَثِیْرًاط اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ } ”اور وہ تو تم میں سے بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر کے لے گیا ‘ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے تھے !“

هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

📘 آیت 63 { ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } ”اب یہ جہنم حاضر ہے جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا۔“

اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

📘 آیت 64 { اِصْلَوْہَا الْیَوْمَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ } ”آج اس میں داخل ہو جائو اپنے کفر کی وجہ سے جو تم کرتے رہے تھے۔“

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 آیت 65 { اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ } ”آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے“ { وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ”اور ان کے پائوں گواہی دیں گے اس کمائی کے بارے میں جو وہ کرتے رہے تھے۔“ مجرمین کے اپنے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ ہمارے ذریعے سے انہوں نے فلاں فلاں غلط کام کیے تھے۔

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ

📘 آیت 66 { وَلَوْ نَشَآئُ لَطَمَسْنَا عَلٰٓی اَعْیُنِہِمْ } ”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں مٹا دیں“ { فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَ } ”پھر یہ دوڑیں راستہ پانے کے لیے ‘ لیکن کہاں دیکھ سکیں گے ؟“

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ

📘 آیت 67 { وَلَوْ نَشَآئُ لَمَسَخْنٰـہُمْ عَلٰی مَکَانَتِہِمْ } ”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی صورتیں مسنح کردیں ان کے اپنے مقام پر“ یعنی اگر اللہ چاہے تو وہ جہاں ‘ جس حالت میں ہوں وہیں پر ان کی صورتیں مسنح ہوجائیں۔ { فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّا وَّلَا یَرْجِعُوْنَ } ”تو نہ وہ آگے چل سکیں اور نہ پیچھے لوٹ سکیں۔“

وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ

📘 آیت 68 { وَمَنْ نُّـعَمِّرْہُ نُـنَـکِّسْہُ فِی الْْخَلْقِ } ”اور جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اس کی ِخلقت میں ضعف پیدا کردیتے ہیں۔“ ظاہر ہے جب بڑھاپا آتا ہے تو انسان کے قویٰ کمزور ہوجاتے ہیں۔ ؎مضمحل ہوگئے قویٰ غالبؔوہ عناصر میں اعتدال کہاں ؟ { اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ } ”تو کیا یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟“

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ

📘 آیت 69 { وَمَا عَلَّمْنٰـہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ } ”اور ہم نے ان کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے۔“ اس سے پہلے سورة الشعراء میں شعراء کے بارے میں یہ حکم ہم پڑھ آئے ہیں : { وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ } ”اور شعراء کی پیروی تو گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں“۔ سورة الشعراء کی ان آیات کے بعد اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے استثناء کا ذکر بھی فرمایا ہے ‘ لیکن شعراء اور شاعری کے بارے میں عام قاعدہ کلیہ بہر حال یہی ہے جو ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس حقیقت کا اعلان فرمادیا گیا کہ شاعری کے ساتھ ہمارے رسول ﷺ کی طبیعت کی مناسبت ہی نہیں۔ آپ ﷺ کی طبیعت میں شعر فہمی اور شعر شناسی کا ملکہ تو تھا لیکن شعر پڑھنے کا ذوق نہیں تھا ‘ اس لیے اگر آپ ﷺ کبھی کوئی شعر پڑھتے بھی تو اس کے الفاظ آگے پیچھے ہوجاتے اور شعر کا وزن خراب ہوجاتا۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے ایک شعر پڑھا اور پڑھتے ہوئے حسب معمول شعر بےوزن ہوگیا۔ حضرت ابوبکر رض پاس تھے ‘ آپ رض سن کر مسکرائے اور عرض کیا : اِنِّی اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں“۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کو شعر کی تعلیم نہیں دی تو پھر آپ ﷺ درست شعر کیونکر پڑھیں گے ! گویا آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بےوزن شعر سن کر حضرت ابوبکر رض کو ثبوت مل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ میں شعر کے فنی رموز اور وزن وغیرہ کا ذوق پیدا ہی نہیں فرمایا۔ البتہ معنوی اعتبار سے حضور ﷺ شعر کو خوب سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کا فرمان ہے : اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً 1… اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا 2 کہ بہت سے اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور بہت سے خطبات جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ { اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ} ”یہ تو بس ایک یاد دہانی اور نہایت واضح قرآن ہے۔“ یہ ایک صاف واضح اور روشن کلام ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 7 { لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓی اَکْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ } ”ان کی اکثریت پر ہمارا قول قانونِ عذاب سچ ثابت ہوچکا ہے تو اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ گویا حضور ﷺ کی دعوت کا مسلسل انکار کر کے یہ لوگ قانونِ الٰہی کی عذاب سے متعلق ”شق“ کی زد میں آچکے ہیں۔

لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ

📘 آیت 70 { لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا } ”تاکہ وہ خبردار کر دے اس کو جو زندہ ہو“ یہاں ”زندہ ہونے“ سے مراد روح کا زندہ ہونا ہے۔ یہ مضمون اگرچہ قبل ازیں بھی متعدد مقامات پر بیان ہوچکا ہے ‘ لیکن اس آیت میں یہ واضح ترا نداز میں آیا ہے۔ گویا کچھ انسان جیتے جی مردہ ہوتے ہیں ‘ جیسے ابوجہل اور ابو لہب بحیثیت انسان زندہ نہیں تھے ‘ وہ صرف حیوانی سطح پر زندہ تھے ‘ جبکہ ان کے اندر ان کی روحوں کی موت واقع ہوچکی تھی۔ چناچہ قرآن کا انذار صرف اسی انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جس کے اندر اس کی روح زندہ ہو اور اس کی فطرت مسنح نہ ہوچکی ہو۔ یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ”فطرت“ کے مترادف کے طور پر ”خلقت“ کا لفظ استعمال کرلیا جاتا ہے اور اسی کو فارسی زبان میں ”سرشت“ بھی کہتے ہیں۔ لیکن زیر بحث مضمون کی وضاحت کے لیے جس سیاق وسباق میں لفظ ”فطرت“ کا حوالہ آیا ہے اس کا مفہوم لفظ ِ ”خلقت“ سے یکسر مختلف ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ”خلقت“ کا تعلق عالم ِخلق یعنی مٹی اور زمین سے ہے ‘ اس لیے یہ ضعف اور خامیوں سے عبارت ہے۔ مثلاً قرآن کے مطابق انسان کمزور النساء : 28 بھی ہے اور جلد باز بنی اسرائیل : 11 بھی۔ گویا انسانی خلقت میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس انسانی ”فطرت“ کا تعلق ”روح“ سے ہے جو اللہ کی طرف سے انسان میں پھونکی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَاط } الروم : 30 ”یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے“۔ چناچہ فطرت کمزوریوں اور خامیوں سے پاک ہے ‘ کیونکہ اس کا تعلق عالم امر یا عالم ِبالا سے ہے۔ { وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ } ”اور کافروں پر قول واقع ہوجائے۔“ یعنی ان پر حجت تمام ہوجائے اور وہ عذاب کے مستحق ہوجائیں۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ

📘 آیت 71 { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰـلِکُوْنَ } ”کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کردیے ‘ جن کے اب یہ مالک بنے پھرتے ہیں۔“ یہ میری بھینس ہے ‘ میں اس کا مالک ہوں ! یہ اس کی گائے ہے ! یہ فلاں کا گھوڑا ہے ! بکریوں کے ریوڑ کا مالک فلاں ہے ! گویا یہ لوگ بڑے فخر سے ان مویشیوں اور چوپایوں پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں ‘ لیکن یہ حقیقت وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہیں تخلیق تو اللہ نے ہی کیا ہے۔

وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ

📘 آیت 72 { وَذَلَّلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاْکُلُوْنَ } ”اور ہم نے ان مویشیوں کو ان کا مطیع کردیا ہے تو ان میں سے بعض پر وہ سوار ہوتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔“ انسان سے کئی کئی گنا زیادہ طاقتور جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر اس کے تابع کردیا ہے۔ چناچہ کئی جانور تو ایسے ہیں جن کو انسان سواری اور باربرداری کے کام میں لاتا ہے اور کئی وہ ہیں جن کے گوشت سے اس کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

📘 آیت 73 { وَلَہُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُط اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ } ”اور ان کے لیے ان میں بہت سی منفعتیں اور پینے کی جگہیں ہیں۔ تو کیا یہ لوگ شکر نہیں کرتے !“ انسانی زندگی میں جانوروں کی اہمیت اور افادیت کے بہت سے دوسرے پہلو بھی ہیں۔ باربرداری کی خدمات اور غذائی ضروریات کے علاوہ ان کی اون اور کھالوں سے انسانی استعمال کی بیشمار چیزیں بنتی ہیں۔ اور اب تو ان جانوروں کی کوئی ایک چیز بھی ضائع نہیں جاتی ‘ حتیٰ کہ ان کے خون اور گوبر کو بھی مختلف طریقوں سے استعمال کرلیا جاتا ہے۔ ”مشَارِب“ جمع ہے اور اس کا واحد ”مشرب“ ہے جس کے معنی پینے کی جگہ اور گھاٹ کے ہیں۔ گویا دودھ دینے والے جانور اور ان جانوروں کے تھن انسان کے لیے ”مشرب“ یعنی دودھ کے گھاٹ ہیں۔ دودھ ایک بہترین مشروب اور انسانی زندگی کے لیے بیحد مفید غذا ہے۔ جانوروں سے حاصل ہونے والی اس ایک نعمت پر ہی انسان اللہ کا شکر ادا کرنا چاہے تو اس کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اسماعیل میرٹھی صاحب نے یہ انتہائی اہم اور سنجیدہ بات کتنے سادہ انداز میں بچوں کی زبان میں کہہ دی ہے : ؎ رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی اس مالک کو کیوں نہ پکاریں جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں !

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ

📘 آیت 74 { وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لَّعَلَّہُمْ یُنْصَرُوْنَ } ”اور انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود گھڑ لیے ہیں ‘ شاید کہ ان کی مدد کی جائے۔“ انہیں امید ہے کہ اللہ کے ہاں ان معبودوں کی سفارش سے وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائیں گے۔

لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ

📘 آیت 75 { لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَہُمْ } ”وہ ہرگز کوئی استطاعت نہیں رکھتے ان کی مدد کی“ { وَہُمْ لَہُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ } ”بلکہ یہ تو خود ہوں گے ان کے پکڑے ہوئے قیدی۔“ یعنی جنہیں یہ لوگ پوجتے تھے وہی انہیں پکڑ پکڑ کر اللہ کے حضور پیش کریں گے اور کہیں گے : اے اللہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں ہمارے ساتھ یہ ظلم کیا تھا کہ ہمیں تیرا شریک ٹھہراتے رہے۔

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ

📘 آیت 76 { فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ } ”تو اے نبی ﷺ ! ان کی بات آپ کو رنجیدہ نہ کرے۔“ آپ ﷺ ان کی باتوں سے رنجیدہ اور دل گرفتہ نہ ہوں۔ { اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ } ”ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ چھپا رہے ہیں اور جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں۔“

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ

📘 آیت 77 { اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ} ”تو کیا انسان نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اسے بنایا ہے ایک قطرہ سے ‘ تو اب یہ بن گیا ہے کھلا جھگڑنے والا !“ اب اس کی دیدہ دلیری کا یہ عالم َہے کہ یہ ہماری آیات پر اعتراض کرتا ہے اور ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ کج بحثی کرتا ہے۔

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ

📘 آیت 78 { وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ } ”اور یہ ہمارے بارے میں تو مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے !“ { قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ } ”کہتا ہے کہ کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جبکہ وہ بالکل بوسیدہ ہوچکی ہوں گی ؟“ وہ اعتراضات کرتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ہمارے جسموں کے اعضاء منتشر ہوجائیں گے تو کون ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا ؟

قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ

📘 آیت 79 { قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔“ اس اعتراض کے جواب میں یہ دلیل قرآن حکیم میں متعدد بار بیان فرمائی گئی ہے جسے معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ یعنی کسی چیز کا ابتدائی طور پر پیدا کرنا ‘ یا کسی بھی کام کا پہلی مرتبہ انجام دینا ‘ اس کا اعادہ کرنے کے مقابلے میں بظاہر زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ تو جس ہستی نے پہلی دفعہ انسان کو بنایا ہے اس کے لیے اسے دوبارہ بنانا بھلا کیونکر مشکل ہوگا ! { وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُ } ”اور وہ ہر مخلوق کا مکمل علم رکھنے والا ہے۔“ کون کہاں دفن ہوا ‘ کس کے جسم کے کون کون سے اجزاء کس کس حالت میں کہاں کہاں منتشر ہوئے ‘ یہ سب معلومات اللہ تعالیٰ کے علم قدیم اور علم کامل کے اندر محفوظ ہیں۔

إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ

📘 آیت 8 { اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلاً فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ } ”ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں ‘ پس ان کے سر اونچے اٹھے رہ گئے ہیں۔“ یعنی ان کی کیفیت اس شخص کی سی ہے جس کی گردن میں طوق پڑا ہو اور وہ طوق اس کی ٹھوڑی کے نیچے جاپھنسا ہو۔ ایسے شخص کے چہرے کا رخ مستقل طور پر اوپر کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ مطلب یہ کہ تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ لوگ واضح حقائق کو بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ

📘 آیت 80 { الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا } ”جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی“ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرے بھرے درختوں کے اندر جلنے اور آگ پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے۔ ان کی لکڑیوں کو تم لوگ خشک کر کے جلاتے ہو اور آگ کے حوالے سے اپنی مختلف ضروریات پوری کرتے ہو۔ اس کے علاوہ اس سے بعض ایسے درخت بھی مراد ہیں جن کی سبزٹہنیوں کو رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً بانس کی بعض اقسام میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صحرائوں میں خاص طور پر بعض ایسے درخت پیدا کر رکھے ہیں جن کی مدد سے مسافر ضرورت پڑنے پر آگ پیدا کرسکیں۔ جیسے کہ عرب کے صحرائوں میں مرخ اور عفار نامی دو درخت پائے جاتے تھے ‘ جن کی سبز شاخوں کو آپس میں رگڑکر آگ پیدا کی جاسکتی تھی۔ { فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ } ”تو تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔“

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 81 { اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ } ”تو کیا جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو ‘ وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسی مخلوق دوبارہ پیدا کر دے !“ یہاں پر یَخْلُقَ مِثْلَہُمْکے الفاظ میں ایک اہم مضمون بیان ہوا ہے جو اس آیت کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا تو ہم میں سے ہر ایک کو بعینہٖ دنیا والا جسم نہیں دیا جائے گا بلکہ ”اس جیسا“ جسم دیا جائے گا۔ اس کی عقلی توجیہہ یہ ہے کہ انسان کا جسم تو اس کی زندگی میں بھی مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس میں مسلسل تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کھال سمیت جسم کے تمام اعضاء کے خلیات اور خون کے سرخ وسفید خلیات مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے نئے خلیات بنتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا جو جسم دس سال پہلے تھا وہ آج ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ بالکل ایک نیا جسم بن چکا ہے۔ اسی طرح آج میرا جو جسم ہے چند سال بعد اس کی یہ ہیئت تبدیل ہوجائے گی۔ گویا بچپن میں جسم کی جو کیفیت ہوتی ہے ‘ جوانی تک پہنچتے پہنچتے وہ کیفیت بالکل بدل جاتی ہے ‘ جبکہ بڑھاپے کی عمر میں جوانی والے جسم کی ہیئت بھی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ بہر حال ہر انسان کو دوبارہ اٹھنے پر جو جسم دیا جائے گا وہ بعینہٖ دنیا والا جسم نہیں ہوگا ‘ بلکہ ”اس جیسا“ جسم ہوگا اور اس کی شکل کی سی شکل ہوگی۔ دنیا کی زندگی میں جس جسم سے اس نے نیک یا برے اعمال کمائے ہوں گے ‘ اسی طرح کے جسم کے ساتھ اسے ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان بھی اس کے لیے دلیل فراہم کرتا ہے جو بالعموم آپ ﷺ کی خوش طبعی کی مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھی خاتون حاضر ہوئی اور اپنے لیے جنت کی دعا کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : ”اے اُمّ فلاں ! جنت میں بوڑھی عورتیں تو داخل نہیں ہوں گی“۔ اس پر وہ سادہ لوح خاتون رنجیدہ ہو کر رونے لگی۔ آپ ﷺ نے یہ دیکھا تو اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : اَنَّ الْعَجُوْزَ لَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّۃَ عَجُوْزًا بَلْ یُنْشِئُھَا اللّٰہُ خَلْقًا آخَرَ ، فَتَدْخُلُھَا شَابَّـۃً بِکْرًا ”بوڑھی عورتیں بڑھاپے کی حالت میں ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک اور ہی اٹھان پر اٹھائے گا ‘ پس تم نوجوان کنواری بن کر جنت میں داخل ہوگی“۔ اور پھر آپ ﷺ نے اس خاتون کو یہ آیات پڑھ کر سنائیں : { اِنَّــآ اَنْشَاْنٰـھُنَّ اِنْشَآئً فَجَعَلْنٰـھُنَّ اَبْکَارًا عُرُبًا اَتْرَابًا۔ } الواقعۃ ”ان کو ہم ایک خاص اٹھان پر اٹھائیں گے ‘ اور ان کو باکرہ بنائیں گے ‘ محبت کرنے والی ‘ ہم عمر۔“ 1 { بَلٰیق وَہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ } ”کیوں نہیں ! جبکہ وہ تو بہت تخلیق فرمانے والا ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔“

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 آیت 82 { اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } ”اس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔“ یہاں پر یہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ یہ ”عالم امر“ کا معاملہ ہے ‘ جبکہ عالم ِخلق کے قوانین مختلف ہیں۔ قرآن میں یہ آیت متعدد بار آئی ہے اور اسی مفہوم اور انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت سورة الاعراف کی آیت 54 کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم امر میں چیزوں کو وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ‘ جبکہ عالم خلق میں تخلیق کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں چھ دنوں میں بنایا۔ ان چھ دنوں سے مراد چھ ادوار Eras ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ میلینیم millennlums کہہ لیں۔ عین ممکن ہے کہ جس عرصہ کو یہاں ”دن“ کا نام دیا گیا ہے وہ لاکھوں برس پر محیط ہو۔ لیکن چھ دنوں کے ذکر سے یہ حقیقت تو بہرحال واضح ہوتی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کچھ وقت لگا۔ اس لیے کہ یہ ”عالم خلق“ کی تخلیق ہے۔ اس کے برعکس ”عالم ِامر“ میں ”وقت“ کا ّتکلف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً روحِ انسانی اور فرشتوں کا تعلق عالم امر سے ہے ‘ اس لیے روح کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں۔ اسی طرح حضرت جبریل امین علیہ السلام آنِ واحد میں عرش سے زمین پر آجاتے ہیں اور آنِ واحد میں زمین سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اللہ تعالیٰ کے امر کی خصوصی شان کا ذکر عالم امر کے حوالے سے ہوا ہے۔

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 83 { فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”تو بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر شے کا اختیار ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔“

وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ

📘 آیت 9 { وَجَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لاَ یُبْصِرُوْنَ } ”اور ہم نے ایک دیوار کھڑی کردی ہے ان کے آگے اور ایک ان کے پیچھے ‘ اس طرح ہم نے انہیں ڈھانپ دیا ہے ‘ پس اب وہ دیکھ نہیں سکتے۔“ یہ مضمون آگے چل کر آیت 45 میں پھر آئے گا۔ -۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حق کی پہچان کے لیے اگر انسان کو راہنمائی چاہیے تو اس مقصد کے لیے بیشمار آفاقی آیات آلاء اللہ ہر وقت ہر جگہ اس کے سامنے ہیں۔ قرآن حکیم بار بار انسان کو ان آیات کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کی آیت 164 میں بہت سی آفاقی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق ان ”آیات“ کے مشاہدے سے ان کے خالق کو پہچان سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی آیات ایام اللہ سے بھی انسان کو راہنمائی مل سکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان چاہے تو اقوامِ سابقہ کے حالات سے بھی اسے سبق اور عبرت کا وافر سامان حاصل ہوسکتا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ایسے بد بخت لوگ ہیں جو نہ تو التذکیر بآلاء للہ سے استفادہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ التذکیر بایام اللہ سے کچھ سبق حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے دیوار حائل ہوچکی ہے کہ وہ اللہ کی کسی بڑی سے بڑی نشانی کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور یوں وہ تاریخ اوراقوام ماضی کے حالات سے بھی کسی قسم کا سبق حاصل کرنے سے قاصر و معذور ہیں۔