slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة ص

(Sad) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ

📘 آیت 1 { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ } ”ص ‘ قسم ہے اس قرآن کی جو ذکر والا ہے۔“یہاں پر پہلے حرف یعنی صٓ پر آیت مکمل نہیں ہوئی بلکہ یہ حرف پہلی آیت کا حصہ ہے۔ اسی طرح سورة قٓ اور سورة نٓ کے آغاز میں بھی ایک ایک حرف ہے اور ان دونوں سورتوں میں بھی ایسا ہی ہے کہ اکیلا حرف پہلی آیت کا حصہ ہے نہ کہ الگ مستقل آیت۔ البتہ کئی سورتوں میں آغاز کے دو حروف پر آیت مکمل ہوجاتی ہے۔ مثلاً طٰہٰ ‘ یٰسٓ اور حٰمٓ مستقل آیات ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سورتیں بھی ہیں جن کے آغاز میں تین تین حروف مقطعات ہیں لیکن وہ حروف الگ آیت کی حیثیت سے نہیں بلکہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ مثلاً الٓــــرٰ۔ اس کے برعکس بہت سی سورتوں کے آغاز میں تین حروف مقطعات ایک مکمل آیت کے طور پر بھی آئے ہیں ‘ مثلاً الٓـــــمّٓ۔ یہاں ان مثالوں سے دراصل یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کے یہ معاملات توقیفی حضور ﷺ کے بتانے پر موقوف ہیں ‘ کسی کے اجتہاد یا گرامر کے کسی اصول سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ ”بیان القرآن“ کے آغاز میں تعارفِ قرآن کے عنوان کے تحت اس موضوع کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ جہاں تک سورة صٓ کی پہلی آیت کے مضمون کا تعلق ہے اس میں ”ذکر والے“ قرآن کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہم کئی ایسی آیات بھی پڑھ چکے ہیں جن میں قرآن کو ”الذِّکْر“ یا ”ذِکْر“ کہا گیا ہے۔ سورة الحجر کی یہ آیت اس حوالے سے بہت اہم ہے : { اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ ”یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔ سورة الانبیاء میں فرمایا گیا : { لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ ”اے لوگو ! اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ‘ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے !“ بہر حال ”ذکر“ کے معنی یاددہانی کے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں القرآن ذی الذکرکا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن یاد دہانی reminding کا حامل ہے ‘ یاد دہانی سے معمور ہے۔ قرآن کی قسم کے بارے میں یہاں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کا ”مقسم علیہ“ محذوف ہے۔ یعنی ذکر والے قرآن کی قسم کس بات پر کھائی گئی ہے ‘ اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت قبل ازیں سورة یٰسٓ کی آیت 3 کے تحت یوں کی جا چکی ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن کی قسم کے بعد اس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ ان تمام مقامات پر سورة یٰسٓ کی آیت 3 ہی کو ان تمام قسموں کا مقسم علیہ تصور کیا جائے گا۔ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم اور اس قسم کے مقسم علیہ کا ذکر یوں ہوا ہے : { یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ ”یٰسٓ‘ قسم ہے قرآن حکیم کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقینا آپ مرسلین میں سے ہیں“۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے بعد بھی اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کے کلمات کو محذوف مانتے ہوئے پورے جملے کا مفہوم یوں تصور کیا جائے گا : ”اے محمد ﷺ یہ ذکر والا قرآن گواہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔“

أَمْ لَهُمْ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ

📘 آیت 10 { اَمْ لَہُمْ مُّلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَاقف } ”کیا ان کے پاس ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کی ؟“ { فَلْیَرْتَقُوْا فِی الْاَسْبَابِ } ”تو چاہیے کہ یہ چڑھ جائیں رسیاں تان کر آسمان پر۔“ اگر تمہارے لیے ممکن ہے تو اپنے تمام وسائل و ذرائع بروئے کار لا کر آسمان پر چڑھ جائو اور ربّ العالمین کی رحمت کے خزانوں اور اس کے اقتدار واختیار میں تصرف کر کے دکھائو !

جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ

📘 آیت 11 { جُنْدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ } ”یہ بھی ایک لشکر ہے پہلے ہلاک کیے گئے لشکروں میں سے ‘ جواَب یہاں ہلاک ہوگا۔“ اگلی آیات میں قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم لوط علیہ السلام ‘ قوم شعیب علیہ السلام اور آلِ فرعون کے عبرتناک انجام کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ جو روش اختیار کر کے ماضی کی یہ اقوام ہلاکت سے دو چار ہوئیں ‘ وہی روش اب قریش ِمکہ ّبھی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی مذکورہ اقوام جیسے انجام سے دو چار ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ

📘 آیت 12 { کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ } ”ان سے پہلے جھٹلایا تھا قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم عاد اور میخوں والے فرعون نے۔“ کہا جاتا ہے کہ فرعون جب اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتا تھا تو گھوڑوں اور خچروں کی ایک کثیر تعداد کو صرف خیموں کے کھونٹے اٹھانے کے لیے مختص کیا جاتا تھا ‘ اس لیے اسے فِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ کہا گیا ہے۔ اس میں کثرت افواج کی طرف اشارہ ہے۔

وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ ۚ أُولَٰئِكَ الْأَحْزَابُ

📘 آیت 13 { وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ وَّاَصْحٰبُ لْئَیْکَۃِط اُولٰٓئِکَ الْاَحْزَابُ } ”اور قوم ثمود ‘ قوم لوط علیہ السلام اور َبن والوں قومِ شعیب علیہ السلام نے ‘ یہ ہیں وہ ہلاک ہونے والے لشکر !“ یعنی یہ تمام اقوام اس سے پہلے اللہ کے رسولوں علیہ السلام کو جھٹلا کر ہلاک ہوچکی ہیں۔

إِنْ كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ

📘 آیت 14 { اِنْ کُلٌّ اِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ } ”ان سب نے ہی رسولوں علیہ السلام کی تکذیب کی ‘ تو وہ میری سزا کے مستحق ہوگئے۔“

وَمَا يَنْظُرُ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ

📘 آیت 15 { وَمَا یَنْظُرُ ہٰٓؤُلَآئِ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنْ فَوَاقٍ } ”اور یہ لوگ بھی اب منتظر نہیں ہیں مگر صرف ایک چنگھاڑ کے جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔“ ماضی کی کئی اقوام پر اللہ کا عذاب ایک مسلسل تیز آواز اور چنگھاڑ کی صورت میں بھی آیا تھا۔ چناچہ اگر مشرکین ِمکہ ّاپنی ہٹ دھرمی پر اسی طرح قائم رہے تو ایسا ہی کوئی عذاب ان پر بھی آسکتا ہے۔ آج کی سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ صوتی لہریں sound waves چونکہ انرجی ہی کی ایک قسم ہے ‘ اس لیے ایک انتہائی زور دار آواز کسی بھی مادی نظام کو درہم برہم کرنے اور ماحول میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہے تو یہ کام وہ صرف ایک زور دار آواز سے ہی کرسکتا ہے۔

وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ

📘 آیت 16 { وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ } ”اور وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمارا حصہ ُ تو ہمیں جلدی دے دے ‘ یومِ حساب سے پہلے۔“ یعنی تو ہمارا حساب روز حساب سے پہلے ہی چکا دے ! قِطّ کے معنی حصہ بھی ہیں اور یہ حساب کے رجسٹر چٹھا کے لیے بھی بولاجاتا ہے ‘ جس میں کسی کاروبار کی آمدن اور خرچ کا سالانہ حساب کتاب لکھا جاتا ہے اور اس سے اس کاروبار کی سالانہ بچت یا نقصان کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات مشرکین مکہ استہزائیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ یہ جو محمد ﷺ ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا ‘ پھر ہمارے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا اور اس کے بعد ہمیں سزا دی جائے گی ‘ تو اے ہمارے پروردگار ! اس کے لیے یوم حساب ہی کا انتظار کیوں ؟ یہ کام ابھی کیوں نہ ہوجائے ! اس لیے بہتر ہوگا کہ تو ہمارا حساب کتاب ابھی کرلے اور ہمارا چٹھا Balace Sheet ابھی اسی زندگی میں ہی ہمارے ہاتھ میں تھما دے۔

اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ

📘 آیت 17 { اِصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ”اے محمد ﷺ ! آپ صبرکیجیے اس پر جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں“ { وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِج اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ} ”اور آپ ﷺ تذکرہ کیجیے ہمارے بندے دائود کا جو بہت قوت والا تھا ‘ بیشک وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والا تھا۔“

إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ

📘 آیت 18 { اِنَّاسَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ } ”ہم نے تو اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا ‘ جو اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے شام کو بھی اور صبح کے وقت بھی۔“

وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً ۖ كُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ

📘 آیت 19 { وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃًط کُلٌّ لَّہٗٓ اَوَّابٌ} ”اور پرندے بھی ‘ جو کہ جمع کردیے جاتے تھے۔ یہ سب کے سب اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔“ یعنی حضرت دائود علیہ السلام ‘ پہاڑ اور پرندے سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے ‘ یا یہ کہ پہاڑ اور پرندے حضرت دائود علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور پھر حضرت دائود علیہ السلام ان سب کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس طرح وہ سب مل کر حضرت دائود علیہ السلام کی آواز میں آواز ملا کر اللہ کی حمد کے ترانے الا پتے تھے۔

بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ

📘 آیت 2 { بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ } ”لیکن جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ہے وہ غرور اور ضد میں مبتلا ہیں۔“ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں ضدم ّضدا ایک موقف اختیار کرلیا ہے اور اب غرور اور جھوٹی اَنا کی وجہ سے اس پر اڑے ہوئے ہیں۔

وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ

📘 آیت 20 { وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ } ”اور ہم نے اس کی حکومت کو خوب مضبوط کیا تھا ‘ اور ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بھی۔“ یعنی ایسی واضح ‘ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات جو تمام مخاطبین و متعلقین کے لیے موجب ِاطمینان ہو۔ اب آگے اس سورت میں چند ایسے واقعات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ دراصل ان واقعات کا بیان یہاں اشاروں کنایوں میں ہوا ہے۔ تفصیلات کی تحقیق کے لیے اگر ہم تورات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں ان واقعات کے حوالے سے جو معلومات ملتی ہیں وہ انبیائِ کرام علیہ السلام کے شایانِ شان نہیں۔ یوں ہمارے لیے شش و پنج کی سی صورت ِحال بن جاتی ہے۔ بہر حال ان واقعات کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں خطا یا لغزش کا کوئی معاملہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء و رسل علیہ السلام معصوم تھے ‘ لیکن انسان تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان میں کبھی غلطی کا رجحان ہی پیدا نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ فرشتے ہوتے ‘ انسان نہ رہتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندے ہونے کے سبب تمام انبیاء و رسل علیہ السلام ہر وقت اللہ کی حفاظت میں رہتے تھے۔ خود حضور ﷺ کی زندگی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً کتب سیرت میں حضور ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ جوانی میں ظہورِنبوت سے پہلے دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ﷺ نے کسی میلے میں جانے کا ارادہ کیا۔ عرب میں ہر سال بہت سے ایسے میلے لگتے تھے جن میں فحش گوئی اور لہو و لعب کا سامان بھی ہوتا تھا اور بےہودہ مشاعرے بھی سجائے جاتے تھے۔ ان میلوں میں عکاظ کا بازار بہت مشہور تھا جوہر سال خصوصی اہتمام سے سجتا تھا اور اس میں شرکت کے لیے پورے عرب سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ روایات کے مطابق آپ ﷺ نے دو مرتبہ ایسے کسی بازار یا میلے میں جانے کا ارادہ فرمایا ‘ مگر دونوں مرتبہ ایسا ہوا کہ راستے میں جہاں آپ ﷺ آرام کے لیے رکے ‘ وہاں آنکھ لگ گئی اور پھر ساری رات سوتے میں ہی گزر گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس لہو و لعب میں شریک ہونے سے آپ ﷺ کو کلیۃً محفوظ رکھا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات حضور ﷺ کے منصب ِنبوت پر فائز ہونے سے پہلے کے ہیں ‘ لیکن ایک نبی تو پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضور ﷺ کا فرمان ہے : کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ 1 ”میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسد میں نہیں پھونکی گئی تھی“۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور ﷺ کی روح مبارک کی ایک خصوصی امتیازی شان تھی۔ بہر حال آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر میں ہوا لیکن آپ ﷺ بچپن سے ہی براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے اور اس حفاظت کا مطلب یہی ہے کہ بشری سطح پر اگر کبھی کوئی غلط ارادہ پیدا ہو بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل کی نوبت نہ آنے دی۔ آئندہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کی جو تفصیل محرف شدہ تورات میں ملتی ہے اس میں حضرت دائود علیہ السلام پر بہت شرمناک الزامات عائد کیے گئے ہیں ‘ جو عصمت ِ انبیاء کے یکسر منافی ہیں۔ قرآن حکیم کے اشارات سے اصل بات یوں معلوم ہوتی ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کی بہت سی بیویاں تھیں واضح رہے کہ چار بیویوں کی پابندی شریعت ِمحمدی ﷺ میں ہے ‘ اس سے قبل ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے باوجود آپ علیہ السلام کے دل میں ایک ایسی عورت سے نکاح کی رغبت پیدا ہوئی جو کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اس پر متنبہ فرمایا اور اس سے روکنے کی ایک صورت پیدا فرما دی۔

۞ وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ

📘 آیت 21 { وَہَلْ اَتٰٹکَ نَبَؤُا الْخَصْمِ } ”اور کیا آپ کے پاس خبر آئی ہے جھگڑنے والوں کی ؟“ یہ ایک مقدمہ تھا جو دو دعویداروں نے فیصلے کے لیے حضرت دائود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ { اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ } ”جب وہ دیوار پھلانگ کر محراب میں داخل ہوگئے۔“ حضرت دائود علیہ السلام تنہائی میں محو عبادت تھے کہ دو اشخاص اچانک آپ علیہ السلام کے حجرے میں آدھمکے۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ

📘 آیت 22 { اِذْ دَخَلُوْا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْہُمْ } ”جب وہ دائود علیہ السلام کے پاس آئے تو وہ ان سے ڈرا۔“ تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود دو افراد کا آپ علیہ السلام کی خلوت گاہ میں اچانک در آنا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ چناچہ آپ علیہ السلام کو بجا طور پر تشویش ہوئی کہ نہ معلوم یہ لوگ کس نیت سے آئے ہیں۔ { قَالُوْا لَا تَخَفْج خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ } ”انہوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ‘ ہم دو مخالف فریق ہیں ‘ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے“ عربی میں ”خصم“ سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کے بالمقابل ہو ‘ یعنی دشمن یا مخالف فریق۔ { فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِط } ”تو آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیجیے اور آپ اسے ٹالیے نہیں“ یعنی یہ مقدمہ ہمارے لیے بہت اہم ہے اور ہم اس کا فوری طور پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام اسے کسی اور وقت پر نہ ٹال دیجیے گا۔ { وَاہْدِنَآ اِلٰی سَوَآئِ الصِّرَاطِ } ”اور سیدھی راہ کی طرف ہماری راہنمائی کیجیے۔“ ہمارے بیانات سن کر آپ علیہ السلام ہمیں درست لائحہ عمل اختیار کرنے کی ہدایت فرمائیں۔ چناچہ ان میں سے جو مدعی تھا اس نے اپنا مقدمہ اس طرح پیش کیا :ـ

إِنَّ هَٰذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ

📘 آیت 23 { اِنَّ ہٰذَآ اَخِیْقف لَہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌقف } ”یہ میرا بھائی ہے ‘ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میری ایک ہی دنبی ہے۔“ اگر ہم اس کی توجیہہ تورات کے مطابق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مدعی نے کنائے کے انداز میں بات کی۔ وہ دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ میری ایک ہی بیوی ہے جبکہ میرے مخالف کی ننانوے بیویاں ہیں۔ { فَقَالَ اَکْفِلْنِیْہَا وَعَزَّنِیْ فِی الْْخِطَابِ } ”اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کر دو ‘ اور گفتگو میں اس نے مجھے دبا لیا ہے۔“

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩

📘 آیت 24 { قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ } ”دائود علیہ السلام نے کہا کہ یہ تو واقعتا اس نے بہت ظلم کیا ہے ‘ تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے۔“ { وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ } ”اور یقینا مشترک معاملہ رکھنے والوں میں سے اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں“ قریبی رشتہ داروں کے باہمی اشتراک کو پنجابی میں ”شریکا“ کہا جاتا ہے اور شری کے والوں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جس کسی کو جہاں موقع ملتا ہے وہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے میں نہیں چوکتا۔ { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ } ”سوائے ان لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل والے ہوں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔“ { وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ } ”اور دائود علیہ السلام کو اچانک خیال آیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے“ حضرت دائود علیہ السلام سمجھ گئے کہ ان دو اشخاص کا ان کے پاس آنا اور آکر مقدمہ پیش کرنا اللہ کی طرف سے تھا اور اللہ نے یہ ساری صورت حال انہیں متنبہ کرنے کے لیے پیدا فرمائی تھی۔ { فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ } ”تو اس نے فوراً اپنے رب سے استغفار کیا اور اس کے حضور جھک گیا پوری طرح متوجہ ہو کر۔“ رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں ‘ لہٰذا یہاں رَاکِعًا سے رکوع بھی مراد ہوسکتا ہے اور سجدہ بھی۔ اس واقعہ کے حوالے سے جو اسرائیلی روایت دستیاب ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رض کا ایک اثر قول بھی موجود ہے جس کے مرفوع ہونے کے بارے میں کوئی واضح اشارہ یا ثبوت موجود نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے حضور ﷺ سے اس بارے میں سنا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسرائیلی روایت سنی ہو اور اسی کو بیان کردیا ہو واللہ اعلم۔ بہر حال میری رائے اس حوالے سے یہی ہے کہ انبیاء کے معاملے میں بشری تقاضوں کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ سورة الاحزاب کی آیت 52 ہم پڑھ چکے ہیں ‘ جس میں حضور ﷺ سے فرمایا گیا ہے : { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْم بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ } ”اس کے بعد اب مزید عورتیں آپ ﷺ کے لیے نکاح میں لانا جائز نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں بدل لیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو !“ ان الفاظ میں حضور ﷺ کی خواہش کے امکان کا ذکر بہت واضح انداز میں ملتا ہے کہ اگر آپ ﷺ کی طبیعت میں کسی خاتون سے نکاح کرنے کے بارے میں آمادگی پیدا ہو بھی جائے تو بھی آپ ﷺ ایسا نہ کریں۔ چناچہ اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ انبیاء انسان تھے اور ان کی شخصیات میں انسانی و بشری تقاضے بھی موجود تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ معصوم تھے۔ اس لیے کہ اگر کبھی کسی بشری تقاضے کے تحت کسی نبی کو کوئی ایسا خیال آتا بھی تھا جو کہ نہیں آنا چاہیے تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا اور اس خیال کی تکمیل کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسی کا نام عصمت ِانبیاء ہے۔

فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ

📘 آیت 25 { فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ } ”تو ہم نے اسے معاف کردیا۔ اور یقینا ہمارے پاس اس کے لیے مقام قرب اور اچھا انجام ہے۔“ جب وہ ہمارے پاس لوٹ کر آئے گا تو ہم اسے بہت اعلیٰ مقام عطا کریں گے۔

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ

📘 آیت 26 { یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ } ”ہم نے کہا : اے دائود علیہ السلام ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے ‘ لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو“ { وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ”اور دیکھو ! اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔“ { اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ } ”یقینا وہ لوگ جو بھٹک جاتے ہیں اللہ کے راستے سے ان کے لیے بڑا سخت عذاب ہے ‘ بسبب اس کے کہ وہ بھول گئے حساب کے دن کو۔“ اگر حساب کا دن یاد رہے اور آخرت کی زندگی کا یقین دل میں موجود ہو تو انسان راہ راست پر رہتا ہے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ

📘 آیت 27 { وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا } ”اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے ‘ اسے بےکار پیدا نہیں کیا۔“ یہ مضمون قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے اور سورة آل عمران کی آیت 191 میں تو اسی لفظ باطل کے ساتھ آیا ہے : { رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ } ”اے ہمارے ربّ ! تو نے یہ سب کچھ بےکار پیدا نہیں کیا ‘ تو ُ پاک ہے ‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے !“ سورة المو منون میں یوں فرمایا گیا ہے : { اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ } ”کیا تم نے سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا تھا اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے !“ مطلب یہ کہ عبث اور بےکار کام کرنا اللہ کی شان سے بہت بعید ہے۔ { ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِ } ”یہ گمان تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کفر کیا ‘ پس ہلاکت اور بربادی ہے ان کافروں کے لیے آگ کی۔“

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ

📘 آیت 28 { اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ } ”کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کردیں گے ؟“ ظاہر ہے دنیا میں کچھ لوگ نیکو کار ہیں جو اکثر بھلائی کے کاموں میں کوشاں رہتے ہیں ‘ جبکہ کچھ لوگ بدمعاش ‘ ظالم اور شریر ہیں جو ہر وقت بد امنی پھیلانے اور لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسان کے لیے اسی دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہوتی اور آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو نیک لوگ اور مجرمین ایک جیسے ہوجاتے۔ یوں نہ تو نیکی کے راستے پر چلنے ‘ غلط کاریوں سے بچنے اور قدم قدم پر مشکلات برداشت کرنے والوں کو کوئی جزا ملتی اور نہ ہی ان ظالموں ‘ قاتلوں اور لٹیروں کو کوئی سزا ملتی جو خلق خدا پر ظلم بھی کرتے رہے اور عیش و عشرت کے مزے بھی لوٹتے رہے۔ بلکہ ایسی صورت میں نیکوں کار لوگ سخت گھاٹے میں رہتے کہ انہوں نے ساری زندگی تکلیفوں اور پابندیوں میں گزاردی اور اس کا کچھ اجر بھی انہیں نہ ملا۔ اس کے برعکس بدکردار اور بد قماش لوگ فائدے میں رہتے کہ انہوں نے عمر بھر جو چاہا کیا ‘ نہ جائز و ناجائز کو دیکھا اور نہ ہی خود کو کبھی قانون اور اخلاقیات scruples کا پابند سمجھا اور پھر اس کی پاداش میں انہیں کوئی سزا بھی نہ ملی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوتا کہ یہ دنیا بےکار پیدا ہوئی ہے اور انسان کی جبلت ّمیں جو اخلاقی ِحس اور نیکی و بدی کی جو تمیز پیدا کی گئی ہے وہ بھی بےمقصد اور بےجواز ہے ‘ کیونکہ اس تمیز اور حس کے مطابق تو نیکی کا نتیجہ اچھا اور برائی کا انجام برا ہونا چاہیے۔ اگر نظریاتی طور پر آخرت کی نفی ہوجائے تو یہ سب نتائج الٹے ہوجاتے ہیں۔ { اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ ”کیا ہم متقیوں کو فاجروں کی طرح کردیں گے ؟“ کیا ہم اپنے متقی بندوں کو ان فاسقوں اور فاجروں کے برابر کردیں گے ؟

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ

📘 آیت 29 { کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ} ”اے نبی ﷺ ! یہ کتاب جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے بہت بابرکت ہے“ عربی میں اَلْـبَرَکَۃ کسی چیز میں سے اس کے خیر کو نکالنے والے عامل کو کہتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے ایک ایسے شخص کی مثال لیں جس کے اندربالقوۃ ُ potentially کوئی مثبت صلاحیت یا اہلیت موجود ہے مگر چونکہ اس کی وہ صلاحیت غیر فعال dormant ہے اس لیے نہ تو اسے اس کا شعور ہے اور نہ ہی وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چناچہ اگر کوئی واقعہ یا کسی دوسرے شخص کا کوئی عمل یا کسی کی کوئی نصیحت اسے اس صلاحیت کا احساس دلا دے اور وہ اسے بروئے کار لانا شروع کر دے تو وہ واقعہ یا عمل گویا اس کے لیے برکت کا باعث بن گیا۔ اسی مفہوم میں بارش کے پانی کو قرآن میں مآئً مُبٰرَکاً قٓ: 9 کہا گیا ہے۔ اس پانی کی برکت کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ زمین میں روئیدگی کی صلاحیت تو بالقوہ potentially موجود ہے مگر خشک اور بےآب وگیاہ زمین میں مختلف قسم کے بیشمار بیج ُ خفتہ dormant حالت میں بیکار پڑے رہتے ہیں۔ جب بارش کا پانی اس زمین کو سیراب کرتا ہے تو اس کے اندر جذب کا عمل osmosis شروع ہوتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے اس کے اندر موجود بیجوں کی قوت نمو کو انگیخت ملتی ہے ‘ زمین کی خفتہ قوت یا صلاحیت بھی فعال ہوجاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں طرح طرح کے نباتات اگنے لگتے ہیں۔ تو اس طرح گویا خشک زمین کے لیے بارش کا پانی مبارک یا باعث برکت ثابت ہوا۔ لفظ بَرَکۃ سے متعلق اس وضاحت کی روشنی میں آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو انسانی روح کی نشوونما کے لیے غذا فراہم کرتی ہے اور روح کے اندر موجود خیر اور نیکی کی غیرفعال dormant صلاحیت کو انگیخت دے کر اسے عمل صالح کے صدور کے قابل بناتی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے انسان کو اس کی روح کی اہمیت کا احساس ان الفاظ میں دلایا ہے : ؎ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ِادراک نہیں ہے ! { لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ } ”تاکہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریں اور ہوش مند لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔“

كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ

📘 آیت 3 { کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ } ”کتنی ہی قوموں کو ہم نے ان سے پہلے ہلاک کیا ہے“ { فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ } ”تو عذابِ الٰہی کے وقت وہ لگے چیخنے ِچلانے ‘ حالانکہ تب خلاصی کا وقت نہیں رہا تھا۔“ اللہ تعالیٰ کے قاعدے اور قانون کے مطابق کسی شخص کی موت کے آثار ظاہر ہونے کے بعد اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم پر عذاب کے آثار ظاہر ہوجائیں تو اس وقت ان لوگوں کی اجتماعی توبہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس قانون سے پوری انسانی تاریخ میں صرف قوم یونس علیہ السلام کو استثناء ملا تھا ‘ جس کا ذکر سورة یونس کی آیت 98 میں آیا ہے۔

وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ

📘 آیت 30 { وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَ } ”اور ہم نے دائود علیہ السلام کو سلیمان علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا۔“ { نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ۔ } ”وہ بہت ہی اچھا بندہ تھا۔ بیشک وہ ہماری طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔“

إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ

📘 آیت 31 { اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ } ”جب اس کے سامنے پیش کیے گئے شام کے وقت عمدہ نسل کے اصیل گھوڑے۔“ اس سے پہلے ہم سورة النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان لشکروں کے بارے میں پڑھ چکے ہیں کہ آپ علیہ السلام کے لشکروں میں انسانوں کے علاوہ ِجن اور پرندے بھی تھے اور ان سب کو الگ الگ رجمنٹس regiments اور دستوں میں منظم کیا گیا تھا۔ اسی طرح سوار فوج cavalry کی اہمیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے آپ علیہ السلام نے اپنے لشکر میں اعلیٰ نسل کے اصیل اور تیز رو گھوڑوں کے دستوں کا اہتمام بھی کر رکھا تھا اور اس زمانے میں اصل فوجی طاقت یہی گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ سورة النمل کی متعلقہ آیات کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی افواج کے مختلف دستوں کے باقاعدہ معائنے inspection parade کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے : { وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ } ”اور جمع کیے گئے سلیمان علیہ السلام کے معائنہ کے لیے اس کے لشکر جنوں ‘ انسانوں اور پرندوں میں سے ‘ اس طرح کہ انہیں جماعتوں میں منظم کیا گیا تھا“۔ چناچہ ایسے ہی کسی معائنہ کے لیے ایک سہ پہر آپ علیہ السلام کے سامنے گھوڑوں کے دستے پیش کیے گئے۔ اس مصروفیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام ایسے مشغول ہوئے کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ علیہ السلام کی نماز عصر قضا ہوگئی ‘ جیسے غزوہ احزاب کے موقع پر حضور ﷺ کی بھی نماز عصر قضا ہوگئی تھی۔ اس پر حضور ﷺ نے کافروں پر بایں الفاظ بددعا فرمائی تھی : مَلاَ َٔاللّٰہُ بُیُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا 1 ”اللہ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے“۔ بہر حال گھوڑوں کی مشغولیت کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی نماز عصر قضا ہوگئی جس کا آپ علیہ السلام کو بیحد افسوس ہوا۔

فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ

📘 آیت 32 { فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ } ”تو اس نے کہا کہ میں نے پسند کرلیا مال کی محبت کو اپنے رب کے ذکر کے مقابلے میں !“ حُبَّ الْخَیْرِ سے مال و دولت یعنی گھوڑوں کی محبت مراد ہے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اس قدر مشغول ہوگیا کہ اپنے رب کے ذکرکو بھول گیا۔ اپنے ربّ کی یاد سے غافل ہوگیا۔ { حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ } ”یہاں تک کہ سور ج چھپ گیا اوٹ میں۔“ یہاں پر تَوَارَتْ کے بعد الشَمْس سور ج کا لفظ گویا محذوف ہے۔

رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ

📘 آیت 33 { رُدُّوْہَا عَلَیَّط فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ } ”تو اس نے کہا : واپس لائو ان کو میرے پاس ! تو اب وہ لگا تلوار مارنے ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر۔“ یعنی آپ علیہ السلام کو نماز قضا ہونے کا اس قدر افسوس تھا کہ آپ علیہ السلام نے گھوڑوں کو واپس منگوایا اور شدید تاثر اور مغلوبیت کی کیفیت میں ان کی گردنوں اور ٹانگوں پر تلوار سے وار کرنا شروع کردیے۔ یہاں پر بعض مفسرین نے مَسْحًاسے ”ہاتھ پھیرنا“ مراد لے کر آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دراصل گھوڑوں کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں واپس منگوایا تھا اور جب گھوڑے واپس لائے گئے تو آپ علیہ السلام ان کی گردنوں اور ٹانگوں کو پیار سے سہلاتے رہے ‘ یعنی ان سے اظہارِ محبت کے طور پر ان پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ لیکن آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق کے مطابق پہلا مفہوم ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ یہاں پر اس نکتہ کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مذکورہ عمل دراصل غلبہ حال کے تحت تھا۔ جیسے حضرت عمر رض غزوئہ اُحد میں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کی خبر سن کر تلوار پھینک کر بیٹھ گئے تھے کہ اب کس کے لیے لڑنا ہے ؟ حالانکہ اُن رض کا جہاد و قتال تو اللہ کے لیے تھا ‘ نہ کہ حضرت محمد ﷺ کے لیے۔ اسی طرح حضور ﷺ کے انتقال کے موقع پر بھی حضرت عمر رض نے غلبہ حال کے سبب تلوار کھینچ لی کہ جس کسی نے کہا کہ حضور ﷺ انتقال کر گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اس انتہائی نازک صورت حال کو حضرت ابوبکر صدیق رض نے سنبھالا۔ آپ رض نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَد مَاتَ ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ”جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو وہ سن لے کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوچکا ہے اور جو کوئی اللہ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت واقع نہیں ہوگی“۔ اس کے بعد آپ رض نے سورة آلِ عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْط } آیت 144 1۔ بہرحال غلبہ حال کی کیفیت میں کبھی کبھی بڑی شخصیات سے بھی غیر معمولی افعال اور غیر متوقع رویے کا صدور ہوجاتا ہے۔ چناچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنی نماز قضا ہونے کے رنج میں غلبہ حال کی غیر معمولی کیفیت کے تحت گھوڑوں پر تلوار سے وار کرنا بعید از فہم نہیں ہے۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ

📘 آیت 34 { وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ } ”اور اسی طرح ہم نے آزمائش میں ڈالا سلیمان علیہ السلام کو ‘ اور اس کے تخت پر ہم نے ایک جسد ڈال دیا ‘ پھر اس نے رجوع کیا۔“ اس واقعہ کے بارے میں ایک مرفوع حدیث موجود ہے۔ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک موقع پر اپنے سپہ سالاروں سے غصے کی کیفیت میں کہا کہ تم مت سمجھو کہ میرا اقتدار اور میری طاقت تم لوگوں کے بل پر قائم ہے۔ میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس جائوں گا اور ان سب سے بیٹے پیدا ہوں گے جو بڑے ہو کر میرے دست بازو بنیں گے۔ لیکن آپ علیہ السلام یہ کہتے ہوئے ”ان شاء اللہ“ کہنا بھول گئے۔ چناچہ آپ علیہ السلام کی تمام ازواج میں سے صرف ایک کو حمل ہوا اور اس حمل سے بھی ایک ناقص الخلقت بچہ پیدا ہوا جو دایہ نے لا کر آپ علیہ السلام کے تخت پر رکھ دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو بات کہی تھی اس کا شاید دربار میں چرچا بھی ہوگیا تھا ‘ چناچہ اس موقع پر انہیں سبکی بھی اٹھانی پڑی۔ ایسا ہی معاملہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ آپ ﷺ سے مشرکین مکہ نے اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو ان کے بارے میں کل بتائوں گا۔ مگر یہ کہتے ہوئے آپ ﷺ ”ان شاء اللہ“ کہنا بھول گئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام روزانہ ہی آپ ﷺ کے پاس آتے تھے اور آپ ﷺ کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ راہنمائی کے لیے وحی بھیج دیں گے ‘ مگر اس کے بعد کئی روز تک وحی نہیں آئی۔ ظاہر ہے یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ مشرکین بار بار آپ ﷺ کے پاس آکر مطالبہ کرتے ہوں گے اور تالیاں پیٹتے ہوں گے کہ کیا ہوا آپ ﷺ کے علم کو ؟ اور کہاں رہ گئی آپ ﷺ کی وحی ؟ پھر جب کئی روز کے بعد سورة الکہف نازل ہوئی تو اس میں مذکورہ سوالات کے جوابات کے ساتھ یہ آیات بھی نازل ہوئیں : { وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُز وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَقُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّہْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا۔ ”اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل ضرور کر دوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے ! اور اپنے رب کو یاد کر لیاکیجیے جب آپ بھول جائیں اور کہیے : ہوسکتا ہے کہ میرا رب میری راہنمائی کر دے اس سے بہتر بھلائی کی طرف۔“ ایسے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے مقرب بندوں کا چھوٹی چھوٹی فروگزاشتوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ ہوتا ہے ‘ جبکہ عام لوگوں کی بڑی بڑی غلطیوں کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بہر حال حضرت سلیمان علیہ السلام مذکورہ بات کہتے ہوئے ”ان شاء اللہ“ کہنا بھول گئے۔ بلکہ روایت میں تو یہ بھی ہے کہ اس موقع پر فرشتے نے آپ علیہ السلام کو یاد بھی کرایا مگر جذبات کی کیفیت میں آپ علیہ السلام اس کا اہتمام نہ کرسکے۔ البتہ تنبیہہ کے بعد پر آپ علیہ السلام نے فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیا۔

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ

📘 آیت 35 { قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ } ”اس نے دعا کی : پروردگار ! مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہ ہو ‘ یقینا تو ہی عطا فرمانے والا ہے۔“ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرماتے ہوئے آپ علیہ السلام کو ِجنوں ‘ پرندوں اور ہوائوں پر بھی حکومت عطا فرمائی اور ایسی حکومت آپ علیہ السلام کے بعد پھر کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے والد حضرت دائود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے جو خصوصی انعامات اور احسانات فرمائے تھے ان کے بارے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے جذباتِ شکر کا اظہار آپ علیہ السلام کی اس دعا سے بھی ہوتا ہے : { وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ۔ النمل ”اور اس نے دعا کی : پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں شکر ادا کروں تیری اس نعمت کا جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور یہ کہ میں اچھے اعمال کروں جن سے تو راضی ہو ‘ اور مجھے داخل کرنا اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں۔“

فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ

📘 آیت 36 { فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآئً حَیْثُ اَصَابَ } ”تو ہم نے اس کے لیے ہوا کو بھی مسخر کردیا ‘ وہ اس کے حکم سے چلتی تھی بہت نرمی سے ‘ جہاں کہیں کا وہ قصد کرتا۔“ ہوا کے چلنے کا رخ متعین کرنا بھی آپ علیہ السلام کے اختیار میں تھا۔ چناچہ ہوا آپ علیہ السلام کی مرضی سے آپ علیہ السلام کو اور آپ علیہ السلام کے سفیروں کو خشکی اور سمندر کی مسافتیں طے کراتی تھی۔

وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ

📘 آیت 37 { وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآئٍ وَّغَوَّاصٍ } ”اور سرکش ِجنات ّکو بھی ہم نے مسخر کردیا تھا سب کے سب عمارتیں بنانے والوں اور غوطہ خوروں کو۔“ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے یہ جنات بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے اور سمندر کی تہہ سے موتی اور دیگر اشیاء نکالتے تھے۔ -۔ -۔ -۔ - بَنَّـائ کے معنی معمار کے ہیں۔ حسن البناء شہید بھی اسی وجہ سے ”البناء“ کہلاتے تھے کہ ان کا تعلق ایک معمار خاندان سے تھا۔ عرب معاشرے میں کسی بھی پیشے کو حقیر یا باعث عار نہیں سمجھا جاتا۔ بقول غالب ع ”پیشے کو عیب نہیں ‘ رکھیے نہ فرہاد کو نام !“ چناچہ عربوں کے ہاں اگر کسی شخص کے آباء و اَجداد حرم میں لوگوں کو پانی پلایا کرتے تھے تو وہ آج بھی ”سقّاء“ کہلاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کا تعلق نانبائیوں کے خاندان سے ہے تو وہ ”خباز“ کہلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ

📘 آیت 38 { وَّاٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ } ”اور دوسرے ِجنات ّکو بھی جو جکڑے ہوئے تھے زنجیروں میں۔“ یعنی کچھ جنات کو تو آپ علیہ السلام نے کام پر لگایا ہوتا تھا جبکہ بعض دوسروں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا تھا کہ کہیں اچانک ضرورت پڑنے پر ان سے کام لیا جاسکے۔

هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ

📘 آیت 39 { ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ } ”یہ ہماری عطا ہے ‘ پس تم چاہو تو لوگوں پر احسان کرو یا اپنے پاس روکے رکھو ‘ اس پر کوئی حساب نہیں۔“ ہم نے سلیمان علیہ السلام سے کہہ دیا تھا کہ ہم نے جو نعمتیں تمہیں عطا کر رکھی ہیں ان میں سے جو چاہو لوگوں میں تقسیم کرو اور جو چاہو اپنے پاس رکھو۔ نیز جس کو چاہو دو اور جس کو چاہو نہ دو۔ اس معاملے میں آپ علیہ السلام سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔

وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ

📘 آیت 4 { وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”اور انہیں بڑا تعجب ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ { وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ } ”اور کافر کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے ‘ کذاب ّہے۔“ یہ بہت سخت الفاظ ہیں ‘ لیکن قرآن نے مشرکین ِمکہ ّکے قول کے طور پر انہیں جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ان الفاظ سے دراصل حضور ﷺ کی مخالفت کی اس کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت مکہ کے ماحول میں پائی جاتی تھی۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے یہ معلومات اپنے حافظے میں پھر سے تازہ کرلیں کہ مکی سورتوں کے پچھلے گروپ کی آٹھ سورتیں الفرقان تا السجدۃ اور زیر مطالعہ گروپ کی تیرہ سورتیں سبا تا الاحقاف 4 نبوی ﷺ سے 8 نبوی ﷺ کے زمانے میں نازل ہوئیں۔ ان میں سے سورة الصّٰفّٰت البتہ اس دور کی سورت نہیں ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آیات پانچ رکوعوں میں 182 آیات ہیں اور ایک رکوع میں 53 آیات بھی ہیں اور تیز ردھم سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورت ہے۔ بہر حال ان سورتوں کا نزول جس دور 4 تا 8 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوا ‘ اس دور میں حضور ﷺ کی مخالفت بہت شدت اختیار کرچکی تھی اور اسی نسبت سے آپ ﷺ پر ہونے والے حملوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آچکی تھی۔ ابتدا میں تو اکثر لوگوں نے آپ ﷺ کی باتوں پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے اس زمانے میں اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تو وہ آپ ﷺ کو مجنون وغیرہ کہہ دیتا ‘ بلکہ ابتدا میں تو بعض لوگوں کے ہاں اس حوالے سے آپ ﷺ کے ساتھ ہمدردی کا انداز بھی پایا جاتا تھا۔ اس وقت بعض لوگ تو واقعی سمجھتے تھے کہ غار حرا میں راتیں گزارنے کی وجہ سے آپ ﷺ پر کوئی آسیب وغیرہ آگیا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے آپ ﷺ سے بہت ہمدردی کے انداز میں کہا تھا کہ اے میرے بھتیجے ! عرب کے بہت سے کاہنوں اور عاملوں کے ساتھ میرے تعلقات ہیں ‘ اگر تم کہو تو میں ان میں سے کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں۔ البتہ جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ وہ آواز جس کو وہ محض ایک شخص کی پکار سمجھتے تھے اب گھر گھر میں گونجنے لگی ہے اور جس تحریک کو انہوں نے ایک مشت ِغبار سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا اب وہ ایک طوفان کا روپ دھار کر ان کے پورے معاشرے کو زیر و زبر کرنے والی ہے تو ان کی مخالفت میں بتدریج شدت آتی گئی۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ سٰحِرٌ کَذَّابٌ ایسے ہی شدید مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ

📘 آیت 40 { وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ } ”اور اس کے لیے ہمارے پاس مقام قرب بھی ہے اور بہت عمدہ ٹھکانہ بھی۔“ جب وہ علیہ السلام لوٹ کر ہمارے پاس آئے گا تو اسے مقام قرب ‘ بہت بلند مراتب اور بڑے بڑے انعامات سے نوازا جائے گا۔

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ

📘 آیت 41 { وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ 7 اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ } ”اور ذرا یاد کیجیے ہمارے بندے ایوب علیہ السلام کو ‘ جبکہ اس نے پکارا اپنے رب کو کہ مجھے شیطان نے شدید بیماری اور تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔“ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور ان کا صبر مشہور ہے۔ آپ علیہ السلام کسی جلدی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا سارا جسم گل گیا تھا۔ مال و دولت بھی سب جاتا رہا ‘ اعزہ و اقرباء منہ موڑ گئے ‘ آل و اولاد میں سے کچھ فوت ہوگئے اور کچھ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر کار ایک بیوی ساتھ رہ گئی تھی جو اس بیماری سے اکتانے لگی۔ واضح رہے کہ شر یا ایذاوغیرہ کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ مراد نہیں کہ شیطان کو تکلیف پہنچانے کی قدرت حاصل ہے۔ آپ علیہ السلام نے انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مذکورہ بالا دعا کی تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ

📘 آیت 42 { اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ} ”ذرا اپنا پائوں زمین پر مارو ‘ یہ چشمہ جو جاری ہوا ہے ٹھنڈا پانی ہے غسل کے لیے ہے اور پینے کے لیے۔“ آپ علیہ السلام کے ایڑی مارنے پر زمین سے ٹھنڈے پانی کا چشمہ ابل پڑا۔ اس پانی میں اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے لیے ایسی شفا رکھ دی کہ اس سے نہانے اور اس کو پینے سے آپ علیہ السلام صحت یاب ہوگئے۔ ممکن ہے اس پانی میں گندھک کے اثرات ہوں۔ ایسے چشمے بعض مقامات پر آج بھی دیکھنے میں آتے ہیں جن میں نہانے سے جلدی امراض کے مریض شفایاب ہوجاتے ہیں۔

وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

📘 آیت 43 { وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ } ”اور ہم نے اسے اس کے اہل و عیال بھی عطا کردیے اور ان کے ساتھ ویسے ہی اہل و عیال مزید بھی دیے“ یعنی آپ علیہ السلام کے اہل و عیال آپ علیہ السلام کے پاس واپس آگئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو مزید اولاد سے بھی نوازا۔ { رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } ”یہ سب ہماری طرف سے رحمت کا مظہر تھا ‘ اور یاددہانی تھی ہوش مند لوگوں کے لیے۔“

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ

📘 آیت 44 { وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْ } ”اور تم لے لو اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک ُ مٹھا ‘ تو اس سے ایک ضرب لگا دو ‘ اور قسم نہ توڑو !“ حضرت ایوب علیہ السلام کسی موقع پر اپنی بیوی سے ناراض ہوئے تو آپ علیہ السلام نے غصے میں قسم کھالی کہ آپ علیہ السلام انہیں سو کوڑے ماریں گے۔ اب جب کہ آپ علیہ السلام صحت مند ہوگئے تو آپ علیہ السلام فکر مند تھے کہ اب قسم پوری کرنے کی کیا ترکیب کریں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی راہنمائی کرتے ہوئے ایک طریقہ بتادیا کہ آپ علیہ السلام سو تنکے لے کر ان کو باندھ کر ایک جھاڑو سا بنا لیں اور اس سے اپنی بیوی کو ایک ضرب لگا دیں۔ اس طرح آپ علیہ السلام کی قسم پوری ہوجائے گی اور آپ علیہ السلام کی اہلیہ کو تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ { اِنَّا وَجَدْنٰـہُ صَابِرًاط نِعْمَ الْعَبْدُط اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ} ”یقینا ہم نے اسے صابر پایا ‘ بہت ہی خوب بندہ۔ یقینا وہ ہماری طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔“

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ

📘 آیت 45 { وَاذْکُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ } ”اور تذکرہ کیجیے ہمارے بندوں ابراہیم علیہ السلام ‘ اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کا ‘ جو قوت والے اور بصیرت والے تھے۔“

إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ

📘 آیت 46 { اِنَّآ اَخْلَصْنٰہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ } ”ہم نے ان کو خالص کرلیا تھا ایک خالص شے ‘ یعنی آخرت کے گھر کی یاد دہانی کے لیے۔“ ان لوگوں کی زندگی کا ایک یہی مقصد تھا کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ اس حوالے سے یہ بات میں بارہا عرض کرچکا ہوں کہ اللہ کا جو بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے دنیا کے مال و دولت اور دوسری چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ زندگی میں اگر اس کا کوئی ہدف ہوتا ہے تو بس یہی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے ‘ انہیں آخرت کے برے انجام سے بچائے۔ پھر اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی ہدف کے لیے صرف ہوتا ہے اور اس کی تمام تر صلاحیتیں اسی مشن کے لیے وقف ہوجاتی ہیں۔ حضرت شیخ معین الدین اجمیری رح کی مثال لے لیجیے۔ آپ رح یہی مشن لے کر اجمیر پہنچے تھے۔ اجمیر اس زمانے میں ہندو راجپوتوں کا مرکزی شہر اور کفر کا گڑھ تھا۔ حضرت شیخ علی ہجویری رح تو لاہور اس وقت تشریف لائے تھے جب یہ علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوچکا تھا ‘ لیکن حضرت معین الدین رح نے اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنایا جو اس وقت مکمل طور پر کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بہر حال آپ رح اپنا گھر بار چھوڑ کر کوئی کاروبار کرنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے آئے تھے اور یہی آپ رح کی زندگی کا مقصد اور مشن تھا۔

وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ

📘 آیت 47 { وَاِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ } ”اور یقینا وہ ہمارے نزدیک ُ چنے ہوئے اور نیک لوگوں میں سے ہیں۔“ گویا جو شخص لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے اور اس کے دین کی دعوت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیتا ہے اور اس کا جینا مرنا اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے ‘ وہ اللہ کے نزدیک مُصْطَفَیْن چنیدہ اور برگزیدہ افراد میں سے ہوجاتا ہے۔

وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْيَارِ

📘 آیت 48 { وَاذْکُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَذَا الْکِفْلِط وَکُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ } ”اور ذکرکیجیے اسماعیل علیہ السلام الیسع علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ السلام کا ‘ یہ سب بھی بہت عمدہ لوگوں میں سے تھے۔“ حضرت الیسع اور حضرت ذوالکفل ﷺ کے بارے میں آج ہمیں یقینی معلومات میسر نہیں۔ سورة الانبیاء آیت 85 کی تشریح کے ذیل میں مولانا مناظر احسن گیلانی رح کا یہ خیال نقل کیا گیا تھا اور مجھے اس سے کسی حد تک اتفاق ہے کہ قرآن میں ذو الکفل علیہ السلام کے نام سے جس پیغمبر کا ذکر ہوا ہے وہ دراصل گوتم بدھ تھے۔ ان کا اصل نام سدھارتا تھا۔ ”گوتم بدھ“ یا ”گو تمابدھا“ ان کا لقب تھا جو بعد میں مشہور ہوا۔ آپ ریاست ”کپل وستو“ کے ولی عہد تھے۔ چناچہ جن محققین کا خیال ہے کہ قرآن میں ذوالکفل کے نام سے گوتم بدھ ہی کا ذکر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ”کفل“ دراصل ”کپل“ ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ یعنی ہندی ”پ“ کی جگہ عربی کی ”ف“ نے لے لی ہے اور اس طرح گویا ذوالکفل کے معنی ہیں ”کپل ریاست والا۔“ ٭

هَٰذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ

📘 آیت 49 { ہٰذَا ذِکْرٌط وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ } ”یہ ایک ذکر ہے ‘ اور یقینا متقین کے لیے بہت ہی اچھی لوٹنے کی جگہ ہے۔“

أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ

📘 آیت 5 { اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًاج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} ”کیا اس نے تمام معبودوں کو بس ایک معبود بنا دیا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے !“ جیسا کہ قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے ‘ زیر مطالعہ گروپ کی ان سورتوں کا مرکزی مضمون توحید ہے جو اس آیت میں بڑے موثر اور زوردار انداز میں بیان ہوا ہے۔

جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ

📘 آیت 50 { جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ } ”یعنی رہنے والے باغات جن کے دروازے ان کے لیے کھلے رکھے جائیں گے۔“ اہل ِجنت کے لیے جنت کے دروازے کھلے رکھے جانے کا ذکر سورة الزمر کے آخری رکوع میں بھی آیا ہے ‘ بلکہ وہاں اس حوالے سے اہل جنت اور اہل جہنم کے استقبال کا فرق اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ اہل جنت کے لیے تو جنت کے دروازے پہلے سے ہی کھلے ہوں گے۔ جیسے کسی مہمان کا انتظار کھلے دروازوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی جس مہمان کا باقاعدہ انتظار ہو اس کے لیے یوں نہیں ہوتا کہ پہلے دروازہ بند ہو اور اس کے آنے پر ہی اسے کھولا جائے۔ چناچہ جنتی مہمانوں کے لیے جنت کے دروازوں کو پہلے سے ہی کھول کر رکھا جائے گا۔ اس کے برعکس اہل جہنم کو ہانک کر جب جہنم کے دروازے پر لے جایا جائے گا تب دروازوں کو کھولا جائے گا۔ یہ اس لیے کہ جہنم کی مثال جیل کی سی ہے اور جیل کے دروازوں کو معمول کے مطابق بند رکھا جاتا ہے۔ البتہ جب کوئی نیا مجرم آتا سے تو اسے داخل کرنے کے لیے اس کے کھولنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ

📘 آیت 51 { مُتَّکِئِیْنَ فِیْہَا یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ } ”اس میں وہ تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے ‘ طلب کریں گے اس میں میوے بہت سے اور مشروبات بھی۔“

۞ وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ

📘 آیت 52 { وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ} ”اور ان کے پاس ہوں گی ان کی بیویاں نیچی نگاہوں والی ‘ ان کی ہم عمر۔“

هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ

📘 آیت 53 { ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ } ”یہ کچھ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے حساب کے دن کے لیے !“

إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ

📘 آیت 54 { اِنَّ ہٰذَا لَرِزْقُنَا مَالَـہٗ مِنْ نَّفَادٍ } ”یہ ہیں ہماری عطا کی ہوئی چیزیں ‘ جو کبھی ختم نہیں ہوں گی۔“

هَٰذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ

📘 آیت 55 { ہٰذَا ط وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ } ”متقین کے لیے تو یہ ہے ! اور یقینا سرکشوں کے لیے لوٹنے کی بہت بری جگہ ہے۔“

جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ

📘 آیت 56 { جَہَنَّمَج یَصْلَوْنَہَاج فَبِئْسَ الْمِہَادُ } ”یعنی جہنم ‘ جس میں وہ داخل ہوں گے ‘ پس وہ بہت ہی برا بچھونا ہوگا۔“

هَٰذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ

📘 آیت 57 { ہٰذَالا فَلْیَذُوْقُوْہُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ} ”یہ ہے ان کے لیے ‘ پس اس کو چکھیں ‘ کھولتا ہوا پانی اور پیپ !“ جہنم میں لے جا کر اہل جہنم سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ جگہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اب اس میں رہو اور اس کے عذاب کو برداشت کرو۔ اس میں ان کو کھولتے ہوئے پانی اور زخموں کے خون اور پیپ کا مزہ بھی چکھنا ہوگا۔ گویا انہیں کھانے اور پینے کے لیے ایسی چیزیں دی جائیں گی جن کو انسان کی طبیعت بہت ناگوار محسوس کرتی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک !

وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ

📘 آیت 58 { وَّاٰخَرُ مِنْ شَکْلِہٖٓ اَزْوَاجٌ } ”اور اسی طرح کی کئی دوسری چیزیں بھی۔“ اور اسی طرح کی مزید خوفناک ‘ گندی اور بدذائقہ چیزیں بھی اہل جہنم کو کھانے اور پینے کے لیے دی جائیں گی۔

هَٰذَا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ ۖ لَا مَرْحَبًا بِهِمْ ۚ إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ

📘 آیت 59 { ہٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَکُمْ } ”یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ دھنسی چلی آرہی ہے۔“ جہنم میں پہلے سے موجود لوگ ہر نئے آنے والے گروہ کے بارے میں یوں کہیں گے کہ ہم تو پہلے ہی یہاں انتہائی مصیبت میں ہیں۔ جگہ بھی تنگ ہے ‘ گرمی اور حبس بھی بہت ہے اور اوپر سے تم بھی ہمارے اوپر دھنسے چلے آرہے ہو۔ { لَا مَرْحَبًام بِہِمْ } ”ان کے لیے کوئی کشادگی نہ ہو !“ یعنی یہ جو نئی کھیپ آرہی ہے ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ ”مرحبا“ کے لغوی معنی فراخی اور کشادگی کے ہیں۔ یہ کسی کو خوش آمدید کہنے کا کلمہ greeting ہے۔ یعنی آئیے آئیے ! آپ کے لیے یہاں بہت جگہ اور ہر قسم کی سہولت موجود ہے چشم ِما روشن دل ماشاد ! لیکن ان کے لیے وہاں کوئی خیر مقدم نہیں ہوگا۔ یعنی نہ تو کوئی ”مرحبا“ خوش آمدید کہنے والا ہوگا اور نہ ہی ”مرحبا“ کہنے کے لائق وہ ماحول ہوگا۔ { اِنَّہُمْ صَالُوا النَّارِ } ”یہ ہیں آگ میں گھسے آنے والے۔“

وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ

📘 آیت 6 { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ } ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“ یہ آیت لفظی تصویر کشی word picture کا خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہے۔ ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد مکہ کے مخصوص ماحول میں ایک مجمع کا نقشہ نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے ‘ جس سے رسول اللہ ﷺ خطاب فرما رہے ہیں۔ مجمع میں عام لوگوں کے ساتھ قریش کے چند سردار بھی موجود ہیں۔ سب لوگ حضور ﷺ کی باتیں بڑے دھیان سے سن رہے ہیں ‘ مگر تھوڑی دیر کے بعد ان کے سردار یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل پڑتے ہیں کہ چلو چلو یہاں سے ! تم لوگ کہاں کھڑے ہو ؟ کس کی باتیں سن رہے ہو ؟ کیا ان کے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے ؟ چھوڑو ان باتوں کو اور جائو اپنا اپنا کام کرو ! اور سنو ‘ ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے پیچھے ضرور ان کا کوئی مفاد پوشیدہ ہے۔ یہ دعوت تو اس غرض سے دی جارہی ہے کہ محمد ﷺ یہاں اپنا اقتدار قائم کر کے ہم پر حکم چلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے تم اپنے عقائد اور اپنے معبودوں کی پرستش پر مضبوطی سے جمے رہو اور ان باتوں پر دھیان مت دو !

قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ ۖ أَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ۖ فَبِئْسَ الْقَرَارُ

📘 آیت 60 { قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْقف لَا مَرْحَبًامبِکُمْ } ”وہ نئے آنے والے کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم ایسے ہو ! تمہارے لیے نہ ہو کوئی کشادگی !“ تمہارے لیے کوئی ”مرحبا“ نہیں ‘ کوئی خیر مقدم اور خوش آمدید نہیں ! { اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْہُ لَنَاج فَبِئْسَ الْقَرَارُ } ”تم نے ہی اسے ہمارے لیے پہلے بھیجا ہے ‘ تو یہ بہت ہی بری جگہ ہے ٹھہرنے کی۔“ تم نے ہی ہمارے لیے یہ سارا سامان فراہم کیا ہے۔ یہ سارا تمہارا کیا دھرا ہے۔ تم ہماری پہلی نسل ہو اور تم نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا۔ تم لوگوں نے ہی ہمیں تمام غلط عقائد اور برے اعمال سکھائے تھے۔ تمہارے کرتوتوں کے باعث اور تمہاری پیروی کرنے کی وجہ سے ہی آج ہم یہاں جہنم میں آئے ہیں۔

قَالُوا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هَٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ

📘 آیت 61 { قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا ہٰذَا فَزِدْہُ عَذَابًا ضِعْفًا فِی النَّارِ } ”وہ کہیں گے : پروردگار ! جس نے یہ سب کچھ ہمارے لیے آگے بھیجا ہے تو اس کے لیے عذاب کو آگ میں دوگنا بڑھا دے۔“ جس نے ہمارے لیے یہ سارا سامان فراہم کیا ہے ‘ جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست کیا ہے اس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے !

وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ

📘 آیت 62 { وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّہُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ } ”اور وہ کہیں گے : کیا بات ہے ہم یہاں ان کو نہیں دیکھ رہے جنہیں ہم دنیا میں برے لوگوں میں شمار کرتے تھے ؟“ دنیا میں ہمارے ساتھ کچھ گھٹیا اور کم حیثیت لوگ بھی تو تھے جو محمد ﷺ پر ایمان لے آئے تھے۔ وہاں ہم انہیں تنگ کیا کرتے تھے اور ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج وہ لوگ یہاں جہنم میں نظر نہیں آرہے ‘ معلوم نہیں کہاں چلے گئے ہیں !

أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ

📘 آیت 63 { اَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِیًّا } ”کیا ہم نے انہیں خواہ مخواہ ہنسی مذاق بنا لیا تھا“ یعنی کیا ہم نے انہیں غلط سمجھا تھا ؟ اور ہم ان کا جو مذاق اڑایا کرتے تھے کیا وہ سب بلاوجہ اور بےمحل تھا ؟ اور کیا اصل میں وہ برے لوگ نہیں تھے ؟ { اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الْاَبْصَارُ } ”یا ہماری نگاہیں ان سے چوک رہی ہیں ؟“ یعنی کیا وہ لوگ یہاں جہنم میں موجود ہی نہیں یا پھر ہم انہیں دیکھ نہیں پا رہے۔ اہل جہنم کی یہ ساری گفتگو اہل ِایمان کے بارے میں ہوگی جو اس وقت جنت کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے۔

إِنَّ ذَٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ

📘 آیت 64 { اِنَّ ذٰلِکَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَہْلِ النَّارِ } ”یقینا یہ حق ہے اہل جہنم کے مابین جھگڑا !“ تم لوگوں کو یقین رکھنا چاہیے کہ جیسے ہم یہ سب کچھ بیان کر رہے ہیں ‘ اس روز اہل ِجہنم کے مابین بالکل اسی طرح سے بحث و تکرار ہوگی۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ

📘 آیت 65 { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌق وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ } ”اے نبی ﷺ ! کہہ دیجیے کہ میں تو بس ایک خبردار کرنے والا ہوں ‘ اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘ وہ اکیلا ہے اور ہرچیز پر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔“

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ

📘 آیت 66 { رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ } ”وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے مابین ہے ‘ اور وہ بہت زبردست ‘ بہت بخشنے والا ہے۔“

قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 67 { قُلْ ہُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ } ”آپ کہہ دیجیے کہ یہ ایک بہت بڑی خبر ہے۔“

أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ

📘 آیت 68 { اَنْتُمْ عَنْہُ مُعْرِضُوْنَ ”تم اس سے اعراض کر رہے ہو۔“ دیکھو ! ہمارے یہ رسول ﷺ تمہارے پاس بہت بڑی اور فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں ‘ لیکن تم لوگ ہو کہ مسلسل اس سے اعراض کیے جا رہے ہو۔

مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ يَخْتَصِمُونَ

📘 آیت 69 { مَا کَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍم بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓی اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ } ”مجھے کچھ علم نہیں ملااعلیٰ کے بارے میں ‘ جب وہ باہم بحث و تکرار کر رہے ہوتے ہیں۔“ یہ مضمون سورة الزمر کی آخری آیت میں بھی آئے گا۔ فرشتے چونکہ عاقل ہستیاں ہیں اس لیے تکوینی امور پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ممکن ہے کسی وقت کوئی فرشتہ کسی ملک یا قوم کے بارے میں کہتا ہو کہ اب تو ان لوگوں پر عذاب آجانا چاہیے اور اس کے جواب میں کوئی دوسرا کہتا ہو کہ نہیں ابھی انہیں کچھ مزید مہلت ملنی چاہیے۔ آخری فیصلہ تو ہر کام میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہوتا ہے ‘ لیکن فرشتے بھی مختلف امور کے بارے میں باہم گفتگو کرتے ہیں اور اس طرح ان کی آراء میں کبھی کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔

مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ

📘 آیت 7 { مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ } ”ہم نے ایسی کوئی بات پچھلے دین میں تو نہیں سنی ہے۔“ آخر ہمارا بھی اپنا ایک دین ہے جو ہم نے ورثے میں پایا ہے۔ پھر ہمارے باپ دادا کی روایات ہیں جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسی باتیں اس سے پہلے نہ تو اپنے باپ دادا کے دین میں سنی ہیں اور نہ ہی پرانی روایات سے ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ { اِنْ ہٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ ”یہ تو نہیں ہے مگر ایک گھڑی ہوئی چیز۔“ اختلاق ”خلق“ سے باب افتعال ہے۔ یعنی یہ کوئی خواہ مخواہ بنائی ہوئی چیز ہے۔

إِنْ يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 70 { اِنْ یُّوْحٰٓی اِلَیَّ اِلَّآ اَنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ} ”میری طرف تو بس یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں صرف واضح طور پر خبردار کردینے والا ہوں۔“

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ

📘 آیت 71 { اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ } ”جب کہا تھا آپ ﷺ کے رب نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں ایک بشر کو مٹی سے۔“ قصہ آدم و ابلیس کے ذکر کے حوالے سے یہ قرآن کریم کا ساتواں اور آخری مقام ہے۔

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ

📘 آیت 72 { فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ } ”تو جب میں اس کو پوری طرح درست کر دوں“ ”تسویہ“ کے معنی کسی تخلیق کو ہر لحاظ سے درست کر کے اس کی تکمیل کردینے کے ہیں۔ انگریزی میں اسے finishing touch دینا کہا جاتا ہے۔ چناچہ ”تسویہ“ کا مرحلہ بنیادی تخلیق کے بعد آتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الاعلیٰ میں فرمایا گیا : { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی۔ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی۔ ”آپ ﷺ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی ‘ جس نے تخلیق کیا ‘ پھر تسویہ کیا“۔ سورة الاعلیٰ کے مطالعہ کے دوران اس موضوع پر ان شاء اللہ تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ { وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ } ”اور میں اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم گرپڑنا اس کے سامنے سجدے میں۔“ یہاں پر رُوْحِیْ میری روح کا لفظ نوٹ کیجیے اور اس نکتے کو ذہن نشین کر لیجیے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مسجودِ ملائک ہونا اس روح ربانی کی بنیاد پر تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم میں پھونکی تھی۔ اس سے قبل نہ تو وہ مسجودِ ملائک تھے ‘ اور نہ ہی ان کا وہ مقام و مرتبہ تھا جو بعد میں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ان کو ملا۔

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ

📘 آیت 73 { فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ } ”تو سجدہ کیا سب کے سب فرشتوں نے ‘ اکٹھے ہو کر۔“ یہ بہت پر زور اسلوب ہے۔ یہ آیت اس سے پہلے جوں کی توں سورة الحجر آیت 30 میں بھی آچکی ہے۔

إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 74 { اِلَّآ اِبْلِیْسَ اِسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ } ”سوائے ابلیس کے ‘ اس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔“ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا۔ کفر اور تکبر اس کے اندر پہلے سے موجود تھا جو اس موقع پر کھل کر سامنے آگیا۔ جیسے غزوہ احزاب کے موقع پر بہت سے منافقین کا نفاق واضح ہو کر ان کی زبانوں پر آگیا تھا۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ

📘 آیت 75 { قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } ”اللہ نے فرمایا : اے ابلیس ! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کو سجدہ کرتا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے ؟“ یہاں پر آدم علیہ السلام کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کا اپنے دونوں ہاتھوں سے نسبت دینا بہت اہم اور قابل غور ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی قدرت کے استعارے کے طور پر اللہ کے ہاتھوں کا ذکر متعدد بار آیا ہے۔ جیسے سورة یٰـسٓ کی آیت 71 میں فرمایا گیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اَیدِینَا سے ان کے لیے چوپائے بنائے ہیں ‘ لیکن آیت زیر مطالعہ میں ”دونوں ہاتھوں“ کا ذکر خصوصی اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ میرے نزدیک اس سے دو عالم یعنی عالم ِ خلق اور عالم امر مراد ہیں ‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم یعنی انسان میں جمع کردیا ہے۔ سورة الاعراف کی آیت 54 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : { اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط } یعنی خلق اور امر کے دونوں عالم اسی کے ہیں ‘ ان دونوں پر اسی کا تسلط اور اسی کی حکومت ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی کچھ مخلوق تو ایسی ہے جس کا تعلق صرف عالم امر سے ہے۔ مثلاً فرشتے جو حیوانی جسم یا حیوانی خواہشات نہیں رکھتے اور نر یا مادہ کی تفریق سے بھی منزہ و مبرا ّہیں۔ دوسری طرف جنات اور تمام ارضی حیوانات ہیں جو عالم خلق کی مخلوق ہیں۔ ان میں ”روح“ نہیں پائی جاتی۔ اس لحاظ سے انسان گویا اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہے جس کا تعلق ان دونوں عالم سے ہے۔ اس کا حیوانی جسم مٹی سے بنا ہے ‘ اس لحاظ سے یہ ”عالم خلق“ کی چیز ہے ‘ جبکہ اس کے جسم میں پھونکی گئی روح ”عالم امر“ کی امانت ہے۔ جیسا کہ سورة الاحزاب کی اس آیت میں فرمایا گیا : { اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۔ ”یقینا ہم نے امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر تو انہوں نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے ‘ اور انسان نے اسے اٹھالیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے“۔ امانت کے اس تصور کی وضاحت اس آیت کے مطالعے کے دوران کی جا چکی ہے۔ چناچہ تخلیق ِآدم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کا ذکر گویا استعارہ ہے اس کی تخلیق میں عالم ِ خلق اور عالم امر کو جمع کرنے کا۔ انسان کو دونوں ہاتھوں سے بنانے کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خصوصی اہتمام سے بنایا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس لحاظ سے یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا نقطہ عروج climax ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔ { اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ } ”کیا تو نے تکبر کیا یا تو عالی مرتبہ لوگوں میں سے ہے ؟“

قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ

📘 آیت 76 { قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ } ”اس نے کہا : میں اس سے بہتر ہوں !“ اس نے کہا ہاں ! یہ بات صحیح ہے کہ میں اس سے بہتر اور برتر ہوں۔ دراصل شیطان کا یہ دعویٰ اس کے مشاہدے کی بنیاد پر تھا۔ اس کے پیش نظر صرف حضرت آدم علیہ السلام کا جسد ِخاکی تھا۔ اس کے اندر پھونکی گئی روح کا اسے علم نہیں تھا۔ چناچہ اس کا یہ دعویٰ کہ ”میں اس خاکی وجود سے بہتر ہوں“ اس کے مشاہدے کے اعتبار سے کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ { خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ } ”مجھے بنایا تو نے آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے !“

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ

📘 آیت 77 { قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ} ”اللہ نے فرمایا : نکل جائو یہاں سے ! اب تم مردود ہوگئے ہو۔“

وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ

📘 آیت 78 { وَّاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ } ”اور اب تم پر میری لعنت رہے گی جزا اور سزا کے دن تک۔“

قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

📘 آیت 79 { قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ } ”اس نے کہا : پروردگار ! پھر مجھے مہلت دے ‘ اس دن تک جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔“

أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْ ذِكْرِي ۖ بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ

📘 آیت 8 { ئَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْم بَیْنِنَا } ”کیا اسی پر نازل ہوا ہے یہ ذکر ہمارے درمیان ؟“ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہے تو کیا یہ محمد ﷺ پر ہی نازل ہونا تھا ‘ کیا اس کے لیے اللہ کو ہمارے بڑے بڑے سرداروں اور سرمایہ داروں سے کوئی ”اعلیٰ شخصیت“ نظر نہیں آئی ؟ { بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ ذِکْرِیْ } ”بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ میرے ذکر کے معاملے میں شک میں پڑگئے ہیں۔“ { بَلْ لَّمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ } ”بلکہ ابھی تک انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔“ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تک انہوں نے میرے کسی عذاب کی مار نہیں چکھی ‘ اس لیے انہیں میرے اس کلام کے بارے میں شک ہے۔

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ

📘 آیت 80 { قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ ”اللہ نے فرمایا : ٹھیک ہے تمہیں یہ مہلت دے دی گئی۔“ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں بھی ”استحقار“ کا وہی انداز محسوس کیا جاسکتا ہے جو اوپر آیت 77 میں پایا جاتا ہے۔

إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ

📘 آیت 81 { اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ } ”اس دن تک جس کا وقت طے شدہ ہے۔“ تمہارے کہنے کے مطابق تمہیں اس دن تک مہلت دے دی گئی ہے جس دن آدم علیہ السلام اور اس کی پوری نسل کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 82 { قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ”اس نے کہا : پس تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا۔“

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ

📘 آیت 83 { اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ } ”سوائے ان میں سے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کرلیا ہو۔“

قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ

📘 آیت 84 { قَالَ فَالْحَقُّز وَالْحَقَّ اَقُوْلُ } ”اللہ نے فرمایا : تو حق یہ ہے ‘ اور میں تو حق ہی کہتا ہوں۔“

لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 85 { لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ”کہ پھر میں بھی بھر کر رہوں گا جہنم کو تجھ سے اور ان سب سے جو تیری پیروی کریں گے۔“

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ

📘 آیت 86 { قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا“ یہ واقعہ سنا کر اب حضور ﷺ سے مخاطب ہو کر فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ انہیں جتلائیں کہ میں تم لوگوں کو یہ غیب کی خبریں سنا رہا ہوں ‘ ازل میں رو نما ہونے والے واقعات کی تفصیلات سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں ‘ لیکن تم ذرا یہ بھی تو سوچو کہ میں نے اس سب کچھ کے عوض تم لوگوں سے کبھی کوئی اجر یا انعام تو طلب نہیں کیا۔ { وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ } ”اور میں کوئی بناوٹ کرنے والوں میں سے بھی نہیں ہوں۔“ مُتَـکَلِّف تکلف کرنے والا کا مفہوم سمجھنے کے لیے دو ایسے اشخاص کی مثال سامنے رکھیں جن میں سے ایک شاعر ہے اور دوسرا متشاعر۔ ایک شخص فطری طور پر شاعر ہے ‘ شاعری اس کی طبیعت میں گندھی ہوئی ہے اور اس پر اشعار کی آمد ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص متشاعر کی طبیعت شعر کے لیے بالکل موزوں نہیں ہے۔ البتہ وہ محنت کرتا ہے ‘ علم عروض کے امور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے ‘ ذخیرئہ الفاظ جمع کرتا ہے ‘ قافیے جوڑتا ہے اور یوں تصنع ّاور تکلف ّسے شعر کہتا ہے۔ چناچہ یہ شخص شاعری کے میدان میں گویا ”مُتَکَلِّف“ ہے۔ چناچہ ان آیات میں حضور ﷺ کی زبان اطہر سے مشرکین ِمکہ ّکے لیے کہلوایا جا رہا ہے کہ لوگو ! کچھ تو عقل سے کام لو ‘ تم لوگ مجھے بچپن سے جانتے ہو : { فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖط } یونس : 16 ”میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے بھی“۔ میرے عادات واطوار اور میری طرز زندگی سے تم اچھی طرح واقف ہو۔ تم خوب جانتے ہو کہ میں کوئی تکلف اور تصنع پسند شخص نہیں ہوں۔ تم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو کہ میں نے اب تک کی عمر میں کبھی کوئی شعر نہیں کہا ‘ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ میں نے خطابت کا فن سیکھنے کے لیے کبھی کوئی مشقت یا ریاضت نہیں کی۔ تو تم لوگوں نے یہ کیسے سوچ لیا ہے کہ اب میں نے اچانک تکلف اور تصنع کا سہارا لے کر شاعری میں طبع آزمائی شروع کردی ہے اور تم لوگوں کو وحی کے نام پر میں اپنا کلام سنا رہا ہوں ؟

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ

📘 آیت 87 { اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ } ”نہیں ہے یہ مگر ایک یاد دہانی اور نصیحت تمام جہان والوں کے لیے۔“

وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ

📘 آیت 88 { وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ ”اور تم ضرور جان لوگے اس کی اصل خبر ایک وقت کے بعد۔“ ان لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچ چکا ہے ‘ انہیں خاطر خواہ طور پر یاد دہانی کرادی گئی ہے ‘ ہر لحاظ سے ان پر حجت قائم ہوچکی ہے۔ اب بہت جلد اس اتمامِ حجت کا نتیجہ ان کے سامنے آجائے گا۔ سورة الطارق میں قرآن کے بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : { اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ۔ یعنی یہ قرآن کوئی بےمقصد کلام نہیں ہے ‘ بلکہ یہ فیصلہ کن قول بن کر آیا ہے۔ اب اس کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 105 میں قرآن کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے : { وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ } کہ ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اب اسی کے ترازو میں قوموں کی تقدیریں تلیں گی اور اسی کی عدالت میں ان کے عروج وزوال سے متعلق فیصلے ہوں گے۔ حضرت عمرفاروق رض کی روایت سے نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ 1 ”اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت بعض اقوام کو عروج پر پہنچائے گا اور اس کو ترک کرنے کی وجہ سے بعض کو قعرمذلت میں گرا دے گا۔“

أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ

📘 آیت 9 { اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَہَّابِ } ”کیا ان کے اختیار میں ہیں آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ؟ جو بہت زبردست ‘ بہت عطا کرنے والا ہے۔“ کیا اللہ کی رحمت کے خزانوں کا اختیار ان لوگوں کے پاس ہے ؟ کیا اللہ ان لوگوں سے پوچھنے کا مکلف تھا کہ میں نبوت اور رسالت کے منصب پر کسے فائز کروں ؟