An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءًۭ فَوْقَ ٱثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَٰحِدَةًۭ فَلَهَا ٱلنِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٌۭ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُۥ وَلَدٌۭ وَوَرِثَهُۥٓ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ ٱلثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُۥٓ إِخْوَةٌۭ فَلِأُمِّهِ ٱلسُّدُسُ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ يُوصِى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ ۗ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًۭا ۚ فَرِيضَةًۭ مِّنَ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًۭا ﴾
“CONCERNING [the inheritance of] your children, God enjoins [this] upon you: The male shall have the equal of two females’ share; but if there are more than two females, they shall have two-thirds of what [their parents] leave behind; and if there is only one daughter, she shall have one-half thereof. And as for the parents [of the deceased], each of them shall have one-sixth of what he leaves behind, in the event of his having [left] a child; but if he has left no child and his parents are his [only] heirs, then his mother shall have one-third; and if he has brothers and sisters, then his mother shall have one-sixth after [the deduction of] any bequest he may have made, or any debt [he may have incurred]. As for your parents and your children - you know not which of them is more deserving of benefit from you: [therefore this] ordinance from God. Verily, God is all-knowing, wise.”
سورة النساء کا دوسرا رکوع بڑا مختصر ہے اور اس میں صرف چار آیات ہیں ‘ لیکن معنوی طور پر ان میں ایک قیامت مضمر ہے۔ یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ چار آیتوں کے اندر اسلام کا پورا قانون وراثت بیان کردیا گیا ہے جس پر پوری پوری جلدیں لکھی گئی ہیں۔ گویا جامعیت کی انتہا ہے۔آیت 11 یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِج فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ ط۔ظاہر ہے اگر ایک ہی بیٹا ہے تو وہ پورے ترکے کا وارث ہوجائے گا۔ لہٰذا جب بیٹی کا حصہ بیٹے سے آدھا ہے تو اگر ایک ہی بیٹی ہے تو اسے آدھی وراثت ملے گی ‘ آدھی دوسرے لوگوں کو جائے گی۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ج۔اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو اس کی وراثت میں سے ان کا بھی معین حصہ ہے۔ اگر وفات پانے والا شخص صاحب اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے وراثت میں چھٹا حصہ ہے۔ یعنی میت کے ترکے میں سے ایک تہائی والدین کو چلا جائے گا اور دو تہائی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ ّ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗ اَبَوٰہُ فَلاُِمِّہِ الثُّلُثُج ۔اگر کوئی شخص لاولد فوت ہوجائے تو اس کے ترکے میں سے اس کی ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملے گا۔ یعنی باپ کا حصہ ماں سے دو گنا ہوجائے گا۔فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلاُِمِّہِ السُّدُسُ اگر مرنے والا بےاولاد ہو لیکن اس کے بہن بھائی ہوں تو اس صورت میں ماں کا حصہ مزید کم ہو کر ایک تہائی کے بجائے چھٹا حصہ رہ جائے گا اور باقی باپ کو ملے گا ‘ لیکن بہن بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔ وہ باپ کی طرف سے وراثت کے حق دار ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی فرما دیا :مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط۔وراثت کی تقسیم سے پہلے دو کام کرلینے ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اس شخص کے ذمے کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر اس نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کو پورا کیا جائے۔ پھر وراثت تقسیم ہوگی۔اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْج لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط تم اپنی عقلوں کو چھوڑو اور اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصوں کے مطابق وراثت تقسیم کرو۔ کوئی آدمی یہ سمجھے کہ میرے بوڑھے والدین ہیں ‘ میری وراثت میں خواہ مخواہ ان کے لیے حصہ کیوں رکھ دیا گیا ہے ؟ یہ تو کھاپی ‘ چکے ‘ زندگی گزار چکے ‘ وراثت تو اب میری اولاد ہی کو ملنی چاہیے ‘ تو یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ تمہیں بس اللہ کا حکم ماننا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ۔اس کا کوئی حکم علم اور حکمت سے خالی نہیں ہے۔