An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَآ أَمَانِىِّ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوٓءًۭا يُجْزَ بِهِۦ وَلَا يَجِدْ لَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّۭا وَلَا نَصِيرًۭا ﴾
“It may not accord with your wishful thinking - nor with the wishful thinking of the followers of earlier revelation - [that] he who does evil shall be requited for it, and shall find none to protect him from God, and none to bring him succour,”
آیت 123 لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَلَآ اَمَانِیِّ اَہْلِ الْکِتٰبِ ط۔تنبیہہ آگئی کہ تمہارے اندر بھی بلا جواز اور بےبنیاد خواہشات پیدا ہوجائیں گی۔ یہود و نصاریٰ کی طرح تم لوگ بھی بڑی دل خوش کن آرزوؤں wishful thinkings کے عادی ہوجاؤ گے ‘ شفاعت کی امید پر تم بھی حرام خوریاں کرو گے ‘ اللہ کی نا فرمانیاں جیسی کچھ انہوں نے کی تھیں تم بھی کرو گے۔ لیکن جان لو کہ اللہ کا قانون اٹل ہے ‘ بدلے گا نہیں۔ تمہاری خواہشات سے ‘ تمہاری آرزوؤں سے اور تمہاری تمناؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے اہل کتاب کی خواہشات سے کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ :مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا یُّجْزَ بِہٖلا اگرچہ اللہ کے ہاں اس قانون میں نرمی کا ایک پہلو موجود ہے ‘ لیکن اپنی جگہ یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ بعض اوقات بدی کی جگہ پر نیکی اس کے منفی اثرات کو دھو دیتی ہے ‘ لیکن اس آیت کی رو سے برائی کا حساب تو ہو کر رہنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان سے جس بدی کا ارتکاب ہوتا ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے ‘ اس کا احتساب ہو کر رہے گا۔ اگر کسی کی نیکی نے اس کی بدی کو چھپا بھی لیا ‘ کسی نے غلطی کی اور پھر صدق دل سے توبہ کرلی تو اس کے سبب اس کی بدی کے اثرات جاتے رہے ‘ لیکن معاملہ account for ضرور ہوگا۔ توبہ کو دیکھا جائے گا ‘ کہ آیا توبہ واقعتا سچی تھی ؟ توبہ کرنے والا اپنے کیے پر نادم ہوا تھا ؟ واقعی اس نے عادت بد کو چھوڑ دیا تھا ؟ یا صرف زبان سے اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِکی گردان ہو رہی تھی اور ساتھ نافرمانی اور حرام خوری بھی جوں کی توں چل رہی تھی۔ تو احتساب کے کٹہرے میں ہر شخص اور ہر معاملے کو لایا جائے گا اور کھرا کھوٹا دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ پھر جو مجرم پایا گیا ‘ اسے اس کے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔