An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ ٱللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى ٱلْكَلَٰلَةِ ۚ إِنِ ٱمْرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيْسَ لَهُۥ وَلَدٌۭ وَلَهُۥٓ أُخْتٌۭ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌۭ ۚ فَإِن كَانَتَا ٱثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا ٱلثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوٓا۟ إِخْوَةًۭ رِّجَالًۭا وَنِسَآءًۭ فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا۟ ۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۢ ﴾
“THEY WILL ASK thee to enlighten them. Say: "God enlightens you [thus] about the laws concerning [inheritance from] those who leave no heir in the direct line: If a man dies childless and has a sister, she shall inherit one-half of what he has left, just as he shall inherit from her if she dies childless. But if there are two sisters, both [together] shall have two-thirds of what he has left; and if there are brothers and sisters, then the male shall have the equal of two females' share." God makes [all this] clear unto you, lest you go astray; and God knows everything.”
اس آخری آیت میں پھر ایک استفتاء ہے۔ آیت 12 میں قانون وراثت کے ضمن میں ایک لفظ آیا تھا کلالہ ‘ یعنی وہ مرد یا عورت جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اگر اس کے بہن بھائی ہوں تو اس کی وراثت کا حکم یہ ہے۔ لیکن وہ حکم لوگوں پر واضح نہیں ہوسکا تھا۔ لہٰذا یہاں اس حکم کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ آیت 12 کے حکم کو صرف اخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص مان لینے کے بعد اس توضیحی حکم میں کلالہ کی وراثت کا ہر پہلو واضح ہوجاتا ہے۔آیت 176 یَسْتَفْتُوْنَکَط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْْکَلٰلَۃِ ط اِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٓٗ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَج ایسی صورت میں اس کی بہن ایسے ہی ہے جیسے ایک بیٹی ہو تو اسے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا۔وَہُوَ یَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ ط۔یعنی اگر کلالہ عورت تھی جس کی کوئی اولاد نہیں ‘ کوئی والدین نہیں تو اس کا وارث اس کا بھائی بن جائے گا ‘ اس کی پوری وراثت اس کے بھائی کو چلی جائے گی۔ فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ط یعنی بھائی کو بہن سے دو گنا ملے گا۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ آیت 12 میں جو حکم دیا گیا تھا وہ اخیافی بہن بھائیوں کے بارے میں تھا۔ یعنی ایسے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ علیحدہ علیحدہ ہوں۔ اس زمانے کے عرب معاشرے میں تعدّ دازواج کے عام رواج کی وجہ سے ایسے مسائل معمولات کا حصہ تھے۔ باقی عینی یا علاتی بہن بھائیوں جن کے ماں اور باپ ایک ہی ہوں یا مائیں الگ الگ ہوں اور باپ ایک ہی ہو کا وہی عام قانون ہوگا جو بیٹے اور بیٹی کا ہے۔ جس نسبت سے بیٹے اور بیٹی میں وراثت تقسیم ہوتی ہے ایسے ہی ان بہن بھائیوں میں ہوگی۔ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْاط واللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ۔تعارف قرآن کے دوران میں نے بتایا تھا کہ قرآن حکیم کی ایک تقسیم سات احزاب یا منزلوں کی ہے۔ اس اعتبار سے سورة النساء پر پہلی منزل ختم ہوگئی ہے۔ فالحمد للّٰہ علی ذٰلک !