An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا۟ ٱلنِّسَآءَ كَرْهًۭا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا۟ بِبَعْضِ مَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّآ أَن يَأْتِينَ بِفَٰحِشَةٍۢ مُّبَيِّنَةٍۢ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًۭٔا وَيَجْعَلَ ٱللَّهُ فِيهِ خَيْرًۭا كَثِيرًۭا ﴾
“O YOU who have attained to faith! It is not lawful for you to [try to] become heirs to your wives [by holding onto them] against their will; and neither shall you keep them under constraint with a view to taking away anything of what you may have given them, unless it be that they have become guilty, in an obvious manner, of immoral conduct. And consort with your wives in a goodly manner; for if you dislike them, it may well be that you dislike something which God might yet make a source of abundant good.”
آیت 19 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْہًا ط۔ یہ بھی عرب جاہلیت کی ایک مکروہ رسم تھی جس میں عورتوں کے طبقے پر شدید ظلم ہوتا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ ایک شخص فوت ہوا ہے ‘ اس کی چار پانچ بیویاں ہیں ‘ تو اس کا بڑا بیٹا وارث بن گیا ہے۔ اب اس کی حقیقی ماں تو ایک ہی ہے ‘ باقی سوتیلی مائیں ہیں ‘ تو وہ ان کو وراثت میں لے لیتا تھا کہ یہ میرے قبضے میں رہیں گی ‘ بلکہ ان سے شادیاں بھی کرلیتے تھے یا بغیر نکاح اپنے گھروں میں ڈالے رکھتے تھے ‘ یا پھر یہ کہ اختیار اپنے ہاتھ میں رکھ کر ان کی شادیاں کہیں اور کرتے تھے تو مہر خود لے لیتے تھے۔ چناچہ فرمایا کہ اے اہل ایمان ‘ تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن بیٹھو ! جس عورت کا شوہر فوت ہوگیا وہ آزاد ہے۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کرلے۔ ّ ِ وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ نکاح کے وقت تو بڑے چاؤ تھے ‘ بڑے لاڈ اٹھائے جا رہے تھے اور کیا کیا دے دیا تھا ‘ اور اب وہ سب واپس ہتھیانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں ‘ انہیں تنگ کیا جا رہا ہے ‘ ذہنی طور پر تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ج اگر کسی سے صریح حرام کاری کا فعل سرزد ہوگیا ہو اور اس پر اسے کوئی سزا دی جائے جیسے کہ اوپر آچکا ہے فَاٰذُوْہُمَا اس کی تو اجازت ہے۔ اس کے بغیر کسی پر زیادتی کرنا جائز ‘ نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر نیت یہ ہو کہ میں اس سے اپنا مہر واپس لے لوں ‘ یہ انتہائی کمینگی ‘ ہے۔وَعَاشِرُوْہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ج۔ان کے ساتھ بھلے طریقے پر ‘ خوش اسلوبی سے ‘ نیکی اور راستی کے ساتھ گزر بسر کرو۔فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ۔اگر تمہیں کسی وجہ سے اپنی عورتیں ناپسند ہوگئی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کسی شے کو تم ناپسند کرو ‘ درآنحالیکہ اللہ نے اسی میں تمہارے لیے خیر کثیر رکھ دیا ہو۔ ایک عورت کسی ایک اعتبار سے آپ کے دل سے اتر گئی ہے ‘ طبیعت کا میلان نہیں رہا ہے ‘ لیکن پتا نہیں اس میں اور کون کون سی خوبیاں ہیں اور وہ کس کس اعتبار سے آپ کے لیے خیر کا ذریعہ بنتی ہے۔ تو اس معاملے کو اللہ کے حوالے کرو ‘ اور ان کے حقوق ادا کرتے ہوئے ‘ ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسرکرو۔ البتہ اگر معاملہ ایسا ہوگیا ہے کہ ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے تو طلاق کا راستہ کھلا ہے ‘ شریعت اسلامی نے اس میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ یہ مسیحیت کی طرح کا کوئی غیر معقول نظام نہیں ہے کہ طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔