An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَقْرَبُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنتُمْ سُكَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا۟ مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا۟ ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾
“O YOU who have attained to faith! Do not attempt to pray while you are in a state of drunkenness, [but wait] until you know what you are saying; nor yet [while you are] in a state requiring total ablution, until you have bathed - except if you are travelling [and are unable to do so]. But if you are ill, or are travelling, or have just satisfied a want of nature, or have cohabited with a woman, and can find no water - then take resort to pure dust, passing [therewith] lightly over your face and your hands. Behold, God is indeed an absolver of sins, much-forgiving.”
آیت 43 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ سورۃ البقرۃ آیت 219 میں شراب اور جوئے کے بارے میں محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا تھا کہ اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ط ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے۔ اب اگلے قدم کے طور پر شراب کے اندر جو خباثت ‘ شناعت اور برائی کا پہلو ہے اسے ایک مرتبہ اور اجاگر کیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو۔ جب تک نشہ اتر نہ جائے اور تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اس وقت تک نماز نہ پڑھا کرو۔ چونکہ شراب کی حرمت کا حکم ابھی نہیں آیا تھا لہٰذا بعض اوقات لوگ نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے۔ ایسے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں کہ کسی نے نشے میں نماز پڑھائی اور لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ کے بجائے اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَپڑھ دیا۔ اس پر خاص طور پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ کے الفاظ قابل غور ہیں کہ جب تک کہ تم شعور کے ساتھ سمجھ نہ رہے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ! اس میں ایک اشارہ ادھر بھی ہوگیا کہ بےسمجھے نماز مت پڑھا کرو ! یعنی ایک تو مدہوشی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آ رہا اور غلط سلط پڑھ رہے ہیں تو اس سے روکا جا رہا ہے ‘ اور ایک سمجھتے ہی نہیں کہ نماز میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم کہہ کیا رہے ہو۔ اب جنہیں قرآن مجید کے معنی نہیں آتے ‘ نماز کے معنی نہیں آتے ‘ انہیں کیا پتا کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہے ہیں ! وَلاَ جُنُبًا الاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْاط الاّ یہ کہ راستے سے گزرتے ہوئے۔اگر تم نے اپنی بیویوں سے مباشرت کی ہو یا احتلام وغیرہ کی شکل ہوگئی ہو تب بھی تم نماز کے قریب مت جاؤ جب تک کہ غسل نہ کرلو۔ اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ“ کے بارے میں بہت سے قول ہیں۔ بعض فقہاء اور مفسرین نے اس کا یہ مفہوم سمجھا ہے کہ حالت جنابت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے ‘ اِلا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو ‘ جبکہ بعض نے اس سے مراد سفر لیا ہے۔وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْآٰی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ آدمی کو تیز بخار ہے یا کوئی اور تکلیف ہے جس میں غسل کرنا مضر ثابت ہوسکتا ہے تو تیمم کی اجازت ہے۔ اسی طرح کوئی شخص سفر میں ہے اور اسے پانی دستیاب نہیں ہے تو وہ تیمم کرلے۔اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا یعنی وہ تمام صورتیں جن میں غسل یا وضو واجب ہے ‘ ان میں اگر بیماری غسل سے مانع ہو ‘ حالت سفر میں نہانا ممکن نہ ہو ‘ قضائے حاجت یا عورتوں سے مباشرت کے بعد پانی دستیاب نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرلیا جائے۔ فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا حضرت عائشہ رض سے لیلۃ القدر کی جو دعا مروی ہے اس میں یہی لفظ آیا ہے : اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ ‘ تو معاف فرمانے والا ہے ‘ معافی کو پسند کرتا ہے ‘ پس تو مجھے معاف فرما دے !“سورۃ النساء کی ان تینتالیس آیات میں وہی سورة البقرۃ کا انداز ہے کہ شریعت کے احکام مختلف گوشوں میں ‘ مختلف پہلوؤں سے بیان ہوئے۔ عبادات کے ضمن میں تیمم کا ذکر آگیا ‘ وراثت کا قانون پوری تفصیل سے بیان ہوگیا اور معاشرے میں جنسی بےراہ روی کی روک تھام کے لیے احکام آگئے ‘ تاکہ ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں آئے جہاں ایک مستحکم خاندانی نظام ہو۔ اب یہاں ایک مختصر سا خطاب اہل کتاب کے بارے میں آ رہا ہے۔