An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ۞ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا۟ ٱلْأَمَٰنَٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا۟ بِٱلْعَدْلِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ سَمِيعًۢا بَصِيرًۭا ﴾
“BEHOLD, God bids you to deliver all that you have been entrusted with unto those who are entitled thereto, and whenever you judge between people, to judge with justice. Verily, most excellent is what God exhorts you to do: verily, God is all-hearing, all-seeing!”
یہ دو آیات 58 ‘ 59 قرآن مجید کی نہایت اہم آیات ہیں ‘ جن میں اسلام کا سارا سیاسی ‘ قانونی اور دستوری نظام موجود ہے۔ فرمایا :آیت 58 اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَہْلِہَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بالْعَدْلِ ط پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جو بھی سیاسی نظام بناتے ہیں اس میں مناصب ہوتے ہیں ‘ جن کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور اختیارات بھی۔ لہٰذا ان مناصب کے انتخاب میں آپ کی رائے کی حیثیت امانت کی ہے۔ آپ اپنی رائے دیکھ بھال کردیں کہ کون اس کا اہل ہے۔ اگر آپ نے ذات برادری ‘ رشتہ داری وغیرہ کی بنا پر یا مفادات کے لالچ میں یا کسی کی دھونس کی وجہ سے کسی کے حق میں رائے دی تو یہ صریح خیانت ہے۔ حقِ رائے دہی ایک امانت ہے اور اس امانت کا استعمال صحیح صحیح ہونا چاہیے۔ عام معنی میں بھی امانت کی حفاظت ضروری ہے اور جو بھی امانت کسی نے رکھوائی ہے اسے واپس لوٹانا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں یہ بات اجتماعی زندگی کے اہم اصولوں کی حیثیت سے آرہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ گویا پہلی ہدایت سیاسی نظام سے متعلق ہے کہ امیر المؤمنین یا سربراہ ریاست کا انتخاب اہلیت کی بنیاد پر ہوگا ‘ جبکہ دوسری ہدایت عدلیہ Judiciary کے استحکام کے بارے میں ہے کہ وہاں بلا امتیاز ہر ایک کو عدل و انصاف میسرآئے۔ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا اگلی آیت میں تیسری ہدایت مقننہ Legislature کے بارے میں آرہی ہے کہ اسلامی ریاست کی دستوری بنیاد کیا ہوگی۔ جدید ریاست کے تین ستون انتظامیہ Executive ‘ عدلیہ Judiciary اور مقننہ Legislature گنے جاتے ہیں۔ پہلی آیت میں انتظامیہ اور عدلیہ کے ذکر کے بعد اب دوسری آیت میں مقننہ کا ذکر ہے کہ قانون سازی کے اصول کیا ہوں گے۔