An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ حَدِيثًۭا ﴾
“God - save whom there is no deity - will surely gather you all together on the Day of Resurrection, [the coming of] which is beyond all doubt: and whose word could be truer than God's?”
آیت 87 اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ ط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ط وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا منافقین پر جو تین چیزیں بہت شاق تھیں ‘ اب ان میں سے تیسری چیز کا تذکرہ آ رہا ہے ‘ یعنی ہجرت۔ ایک تو وہ لوگ تھے جو بیمار تھے ‘ بوڑھے تھے ‘ سفر کے قابل نہیں تھے ‘ یا عورتیں اور بچے تھے ‘ ان کا معاملہ تو پہلے ذکر ہوچکا کہ ان کے لیے تمہیں قتال کرنا چاہیے تاکہ انہیں ظالموں کے چنگل سے چھڑاؤ۔ ایک وہ لوگ تھے جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان تو کرچکے تھے لیکن اپنے کافر قبیلوں اور اپنی بستیوں کے اندر آرام سے رہ رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے ‘ جبکہ ہجرت اب فرض کردی گئی تھی۔ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ہجرت فرض کیوں کردی گئی ؟ اس لیے کہ جب محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت اور تحریک اس مرحلے میں داخل ہوگئی کہ اب باطل کے خلاف اقدام کرنا ہے ‘ تو اب اہل ایمان کی جتنی بھی دستیاب طاقت تھی اسے ایک مرکز پر مجتمع کرنا ضروری تھا ‘ مکی دور میں جو پہلی ہجرت ہوئی تھی یعنی ہجرت حبشہ وہ اختیاری تھی۔ اس کی صرف اجازت تھی ‘ حکم نہیں تھا لیکن ہجرت مدینہ کا تو حکم تھا۔ لہٰذا اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس بنا پر منافق قرار پائے کہ وہ ہجرت نہیں کر رہے ہیں۔