slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 95 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ لَّا يَسْتَوِى ٱلْقَٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُو۟لِى ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَٰهِدِينَ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى ٱلْقَٰعِدِينَ دَرَجَةًۭ ۚ وَكُلًّۭا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَٰهِدِينَ عَلَى ٱلْقَٰعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًۭا ﴾

“SUCH of the believers as remain passive - other than the disabled - cannot be deemed equal to those who strive hard in God's cause with their possessions and their lives: God has exalted those who strive hard with their possessions and their lives far above those who remain passive. Although God has promised the ultimate good unto all [believers], yet has God exalted those who strive hard above those who remain passive by [promising them] a mighty reward -”

📝 التفسير:

آیت 95 لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ ط فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً ط دَرَجَۃً کی تنکیر تفخیم کے لیے ہے ‘ یعنی بہت بڑا درجہ۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلنے کی بات ہو رہی ہے کہ جو کسی معقول عذر کے بغیر قتال کے لیے نہیں نکلتاوہ اس کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا جو قتال کر رہا ہے۔ اگر کوئی اندھا ہے ‘ دیکھنے سے معذور ہے یا کوئی لنگڑا ہے ‘ چل نہیں سکتا ‘ ایسے معذور قسم کے لوگ اگر قتال کے لیے نہ نکلیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسے لوگ جن کو کوئی ایسا عذر نہیں ہے ‘ پھر بھی وہ بیٹھے رہیں ‘ یہاں انہی لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ درجے میں مجاہدین کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اور یہ بھی نوٹ کرلیجئے کہ یہ ایسے قتال کی بات ہو رہی ہے جس کی حیثیت اختیاری optional ہو ‘ لازمی قرار نہ دیا گیا ہو۔ جب اسلامی ریاست کی طرف سے قتال کے لیے نفیر عام ہوجائے تو معذورین کے سوا سب کے لیے نکلنا لازم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ قتال کے لیے پہلی دفعہ نفیر عام غزوۂ تبوک سن 9 ہجری میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے قتال کے بارے میں صرف ترغیب persuasion تھی کہ نکلو اللہ کی راہ میں ‘ حکم نہیں تھا۔ لہٰذا کوئی جواب طلبی بھی نہیں تھی۔ کوئی چلا گیا ‘ کوئی نہیں گیا ‘ کوئی گرفت نہیں تھی۔ لیکن غزوہ ‘ تبوک کے لیے نفیر عام ہوئی تھی ‘ باقاعدہ ایک حکم تھا ‘ لہٰذا جو لوگ نہیں نکلے ان سے وضاحت طلب کی گئی ‘ ان کا مؤاخذہ کیا گیا اور ان کو سزائیں بھی دی گئیں۔ تو یہاں چونکہ اختیاری قتال کی بات ہو رہی ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا رہا کہ ان کو پکڑو اور سزا دو ‘ بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے مجاہدین اللہ کی نظر میں بہت افضل ہیں۔ اس سے پہلے ایسے قتال کے لیے اسی سورة آیت 84 میں وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ کا حکم ہے ‘ یعنی مومنین کو قتال پر اکسائیے ‘ ترغیب دیجئے ‘ آمادہ کیجئے۔ لیکن یہاں واضح انداز میں بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے اور نہ کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ وَکُلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط۔چونکہ ابھی قتال فرض نہیں تھا ‘ نفیر عام نہیں تھی ‘ سب کا نکلنا لازم نہیں کیا گیا تھا ‘ اس لیے فرمایا گیا کہ تمام مؤمنین کو ان کے اعمال کے مطابق اچھا اجر دیا جائے گا۔ قتال کے لیے نہ نکلنے والوں نے اگر اتنی ہمت نہیں کی اور وہ کمتر مقام پر قانع ہوگئے ہیں تو ٹھیک ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں ان پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔