slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 17 من سورة سُورَةُ الشُّورَىٰ

Ash-Shura • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ ٱللَّهُ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ وَٱلْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ ٱلسَّاعَةَ قَرِيبٌۭ ﴾

“[for] it is God [Himself] who has bestowed revelation from on high, setting forth the truth, and [thus given man] a balance [wherewith to weigh right and wrong]. And for all thou knowest, the Last Hour may well be near!”

📝 التفسير:

آیت 17 { اََللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ } ”اللہ ہی ہے جس نے اتاری ہے کتاب بھی اور میزان بھی حق کے ساتھ۔“ قرآن میں صرف دو ہی مقامات ایسے ہیں جہاں کتاب اور میزان کے الفاظ ایک ساتھ اکٹھے آئے ہیں۔ ایک تو آیت زیر مطالعہ اور دوسری سورة الحدید کی یہ آیت : { لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج…} آیت 25 ”ہم نے بھیجے اپنے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ اور ہم نے نازل کی ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ قائم رہیں لوگ عدل پر“۔ میزان دراصل دین حق کے عملی نظام کا نام ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ”کتاب“ ہر ایک کا حق مقرر کرتی ہے اور ”میزان“ ناپ تول کر کے یہ حق حقدار کو دیتی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں دین بھی دیا ہے اور نظام بھی۔ اگر نظام نہ ہوتا تو دین کے مطابق فیصلے کیسے ہوتے اور پھر ان فیصلوں پر عمل درآمد کیونکر ہوتا ؟ { وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیْبٌ } ”اور تمہیں کیا معلوم کہ قیامت قریب ہی ہو !“ ”السَّاعۃ“ سے مراد قیامت کی گھڑی ہے ‘ اگرچہ انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو ہر شخص کی موت ہی گویا اس کی قیامت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے : مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُـہٗ 1 ”جس کو موت آگئی پس اس کی قیامت تو قائم ہوگئی“۔ مقامِ غور ہے کہ اس حوالے سے ہمیں کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہم میں سے ہر ایک کی ”قیامت“ اس کے سر پر کھڑی ہے اور دوسری طرف اللہ کی ”میزان“ کو نصب کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے جو ہم سب کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ اب اگر ہم نے ابھی اور اسی وقت اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اس کے لیے فوری طور پر ہم اپنا تن من دھن لگا دینے کے لیے میدانِ عمل میں نہ اترے تو نہ معلوم ہم میں سے کس کس کی مہلت ِعمل کچھ کیے بغیر ہی ختم ہوجائے۔ آج ہم میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ اسے کل کا سورج بھی دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں ! اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مزید وقت ضائع کیے بغیر اس ِجدوجہد ّمیں جت جائیں۔ اس فیصلے کے لیے تاخیر اور تاجیل میں وقت ضائع کرنا سب سے بڑی حماقت ہے :