Ash-Shura • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ تَرَى ٱلظَّٰلِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا۟ وَهُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ۗ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فِى رَوْضَاتِ ٱلْجَنَّاتِ ۖ لَهُم مَّا يَشَآءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ ﴾
“[In that life to come,] thou wilt see the evildoers full of fear at [the thought of] what they have earned: for [now] it is bound to fall back upon them. And in the flowering meadows of the gardens [of paradise thou wilt see] those who have attained to faith and done righteous deeds: all that they might desire shall they have with their Sustainer: [and] this, this is the great bounty –”
آیت 22 { تَرَی الظّٰلِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا کَسَبُوْا } ”تم دیکھو گے ان ظالموں کو کہ وہ اپنے کرتوتوں کے سبب ڈر رہے ہوں گے“ قیامت کے دن کفار و مشرکین اپنے غلط عقائد اور برے اعمال کے سبب خوف زدہ ہوں گے۔ دراصل نیکی و بدی کے بارے میں انسان کا ضمیر بہت حساس ّہے : { بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ القیامۃ ”بلکہ انسان اپنے نفس پر خود گواہ ہے“۔ یہ آیت بہت واضح انداز میں ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی ضمیر اپنے اندر کی گہرائیوں میں جھانک کر بغیر کسی مصلحت اور تعصب کے غلط اور درست کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چناچہ قیامت کے دن تمام غلط کار انسان اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے حساب و کتاب سے پہلے ہی خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ { وَہُوَ وَاقِعٌم بِہِمْْط } ”اور وہ ان کے اوپر پڑنے والا ہوگا۔“ ان کے عقائد و افعال کا وبال ان کے سروں پر گرنے والا ہوگا۔ لیکن دوسری طرف اہل ِایمان کی کیفیت اس کے برعکس ہوگی : { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ } ”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ پر کاربند رہے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے۔“ { لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ } ”ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ یہی ان کے لیے بہت بڑی فضیلت ہوگی۔“