slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 24 من سورة سُورَةُ الشُّورَىٰ

Ash-Shura • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًۭا ۖ فَإِن يَشَإِ ٱللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ ٱللَّهُ ٱلْبَٰطِلَ وَيُحِقُّ ٱلْحَقَّ بِكَلِمَٰتِهِۦٓ ۚ إِنَّهُۥ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ﴾

“DO THEY, perchance, say, “[Muhammad] has attri­buted his own lying inventions to God”? But then, had God so willed, He could have sealed thy heart [forever]: for God blots out all falsehood, and by His words proves the truth to be true. Verily, He has full knowledge of what is in the hearts [of men];”

📝 التفسير:

آیت 24 { اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا } ”کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ کے اوپر جھوٹ گھڑلیا ہے ؟“ یعنی یہ کہ محمد ﷺ نے قرآن خود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ { فَاِنْ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ } ”تو اگر اللہ چاہے تو آپ کے قلب پر مہر لگا دے۔“ یہ خطاب بظاہر محمد رسول اللہ ﷺ سے ہے لیکن اصل میں مخالفین کو سنانا مقصود ہے کہ یہ قرآن وحی کی صورت میں محمد ﷺ کے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ یہ خالص ایک وہبی صلاحیت ہے اور آپ ﷺ کو اس بارے میں ہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ کجا یہ کہ آپ ﷺ خود اس کو گھڑیں یا تصنیف کریں۔ چناچہ اگر اللہ چاہے تو یہ صلاحیت آپ ﷺ سے واپس لے کر آپ ﷺ کے قلب پر مہر کر دے اور آپ ﷺ پر وحی آنا بند ہوجائے۔ سورة بنی اسرائیل میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے : { وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلاً۔ } ”اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ہم چاہیں تو لے جائیں اس قرآن کو جو ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف ‘ پھر آپ نہ پائیں گے اپنے لیے اس پر ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار۔“ { وَیَمْحُ اللّٰہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقُّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ } ”اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کا حق ہونا ثابت کردیتا ہے اپنے کلمات سے۔“ یہ اللہ کی سنت اور اس کا اٹل قانون ہے ‘ لیکن اس کے ظہور میں اللہ کی مشیت کے مطابق وقت لگتا ہے۔ جیسے حضور ﷺ کی دعوت کے حوالے سے اللہ کی اس سنت کا ظہور پہلی دفعہ غزوئہ بدر کے میدان میں اس وقت عمل میں آیا جبکہ دعوت کو شروع ہوئے چودہ برس گزر چکے تھے۔ چناچہ غزوئہ بدر کے ذریعے حق و باطل کے مابین فرق کو واضح اور مبرہن کر کے نہ صرف یوم بدرکو یوم الفرقان الانفال : 41 قرار دیا گیا بلکہ اس غزوہ کا بنیادی مقصد بھی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہی بتایا گیا : { لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ } الانفال ”تاکہ سچا ثابت کر دے حق کو اور جھوٹاثابت کر دے باطل کو ‘ خواہ یہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔“ { اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ } ”یقینا وہ واقف ہے اس سے بھی جو کچھ سینوں کے اندر پوشیدہ ہے۔