Ash-Shura • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَجَزَٰٓؤُا۟ سَيِّئَةٍۢ سَيِّئَةٌۭ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴾
“But [remember that an attempt at] requiting evil may, too, become an evil: hence, whoever pardons [his foe] and makes peace, his reward rests with God - for, verily, He does not love evildoers.”
آیت 40 { وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا } ”اور کسی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے“ یہاں تقابل کے لیے سورة حٰمٓ السجدۃ کا یہ حکم ایک مرتبہ پھر ملاحظہ ہو : { وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ } آیت 34 ”اور دیکھو ! اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے ‘ لہٰذا تم مدافعت کرو اس طریقے سے جو بہترین ہو“۔ اب بظاہر تو ان دونوں احکام میں تضاد contrast نظر آتا ہے ‘ لیکن قرآن کے ایسے مقامات کا مطالعہ اگر حضور ﷺ کی تحریک کے مختلف ادوار کے زمینی حقائق کی روشنی میں کیا جائے اور اس حوالے سے مکی اور مدنی ادوار کے حالات کے فرق کو مد نظر رکھا جائے تو تمام اشکالات خود بخود دور ہوجاتے ہیں۔ مکہ میں رہتے ہوئے اگر { کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ } النساء : 77 کی حکمت عملی اپنانے کی ہدایت تھی تو یہ اس وقت کا تقاضا تھا۔ اور اگر مدینہ میں آکر { وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ } کا حکم جاری ہوا ہے تو یہ اس مرحلے کی ضرورت ہے۔ چناچہ اپنے سیاق وسباق کے اعتبار سے آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب دشمن کے ساتھ تمہارا دوبدو مقابلہ شروع ہوجائے تو جس قدر زیادتی تم پر مخالف فریق کرے اس قدر زیادتی ان پر تم بھی کرسکتے ہو۔ اگر وہ اشہر ِحرم ُ کی حرمت کو بٹہ ّلگاتے ہیں تو تم بھی اس ماہ کے تقدس کے احترام میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مت بیٹھے رہو۔ { فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ } ”پس جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ یہ معاف کرنا اگر اس اعتبار سے ہو کہ اس میں متعلقہ شخص کی اصلاح کا امکان ہو تو اسی میں بہتری ہے۔ { اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ } ”یقینا اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔“ ظالموں کے لیے البتہ کوئی معافی نہیں ‘ ان سے تو بہر حال بدلہ ہی لیا جائے گا۔ اس حکمت عملی کے بارے میں ہم سورة البقرۃ میں بھی پڑھ چکے ہیں : { وَلَـکُمْ فِی الْْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِ } آیت 179 ”اور اے ہوشمندو ! قصاص میں ہی تمہارے لیے زندگی ہے۔“