slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الزخرف

(Az-Zukhruf) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم

📘 آیت 1 { حٰمٓ } ”ح ‘ م۔“

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

📘 آیت 10{ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّجَعَلَ لَکُمْ فِیْہَا سُبُلًا لَّعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْن } ”جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنا دیا اور پھر اس میں تمہارے لیے راستے بنا دیے تاکہ تم منزل تک پہنچ سکو۔“ تاکہ تم ان قدرتی راستوں کی مدد سے اپنی منزلوں تک پہنچ سکو۔ مزید یہ کہ اللہ کی ان نعمتوں پر غور کر کے ہدایت کی منزل مقصود پانے میں کامیاب ہو جائو۔

وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ

📘 آیت 11{ وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً م بِقَدَرٍ } ”اور وہ جس نے اتارا آسمان سے پانی ایک اندازے کے مطابق۔“ { فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا } ”تو اس سے ہم نے ُ مردہ زمین کو اٹھا کھڑا کیا۔“ اللہ تعالیٰ نے بارش کے پانی سے بنجر زمین میں زندگی کے آثار پھیلا دیے ‘ اسے حیات تازہ بخش دی۔ { کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ } ”اسی طرح ایک روز تمہیں بھی نکال لیا جائے گا۔“ تمہیں بھی روز محشر اسی طرح زندہ کر کے تمہاری قبروں سے نکال کھڑا کیا جائے گا۔

وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ

📘 آیت 12 { وَالَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا } ”اور وہ کہ جس نے بنائے ہیں تمام مخلوقات کے جوڑے“ { وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَ } ”اور تمہارے لیے بنائی ہیں کشتیاں بھی اور چوپائے بھی جن پر تم سواری کرتے ہو۔“

لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ

📘 آیت 13 { لِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُہُوْرِہٖ } ”تاکہ تم جم کر بیٹھو ان کی پیٹھوں پر“ { ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ } ”پھر اپنے رب کے انعام کا ذکر کرو جب کہ تم ان کے اوپر جم کر بیٹھ جائو“ { وَتَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ } ”اور تم کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ان سواریوں کو ہمارے بس میں کردیا ہے ‘ اور ہم تو انہیں قابو میں لانے والے نہیں تھے۔“

وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ

📘 آیت 14{ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ } ”اور یقینا ہم اپنے ربّ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ

📘 آیت 15{ وَجَعَلُوْا لَـہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا } ”اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کا ایک ُ جزوٹھہرایا۔“ یعنی اس کے بعض بندوں کو اس کی اولاد قرار دے دیا۔ انسان کی اولاد دراصل اس کا جزو ہی ہوتا ہے۔ باپ کے جسم سے ایک سیل spermatozone نکل کر ماں کے جسم کے سیل ovum سے ملتا ہے اور ان دو cells کے ملاپ سے بچے کی تخلیق ہوتی ہے۔ -۔ - cells ماں اور باپ کے اپنے اپنے جسموں کے جزوہی ہوتے ہیں۔ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَـکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ } ”یقینا انسان بہت کھلا نا شکرا ہے۔“

أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِينَ

📘 آیت 16 { اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّاَصْفٰٹکُمْ بِالْبَنِیْنَ } ”کیا اس نے بنا لی ہیں اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں اور تمہیں پسند کرلیا ہے بیٹوں کے ساتھ !“ یہ مضمون بہت تکرار کے ساتھ قرآن میں آیا ہے۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ

📘 آیت 17 { وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا } ”اور جب ان میں سے کسی کو اس کی بشارت دی جاتی ہے جس کی مثال وہ رحمان کے لیے بیان کرتا ہے“ وہ بڑی بےشرمی سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹیاں منسوب کرتے ہیں ‘ لیکن جب خود ان میں سے کسی کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے : { ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ } ”تو اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم کے گھونٹ پی رہا ہوتا ہے۔“

أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ

📘 آیت 18 { اَوَمَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ } ”کیا وہ جو پرورش پاتی ہے زیور میں اور بحث میں اپنا موقف واضح نہیں کرسکتی !“ بچیاں پیدائشی طور پر نازک ہوتی ہیں ‘ وہ بچپن سے ہی کھلونوں اور گڑیوں کے ساتھ کھیلتی ہیں اور زیورات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بحث و تکرار کے موقع پر اپنا مدعا بھی واضح انداز میں بیان نہیں کرسکتیں۔ اس کے برعکس لڑکے بچپن سے ہی نسبتاً مضبوط اور جفاکش ہوتے ہیں۔ وہ فطری طور پر ہتھیاروں کے کھلونوں سے کھیلنا اور مارشل گیمز میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں۔

وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ

📘 آیت 19 { وَجَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا } ”اور انہوں نے فرشتوں کو ‘ جو کہ رحمان کے مقرب ّبندے ہیں اس کی بیٹیاں قرار دے دیا ہے۔“ { اَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْئَلُوْنَ } ”کیا یہ لوگ موجود تھے ان کی تخلیق کے وقت ؟ ان کی یہ گواہی کہ فرشتے مونث ہیں لکھ لی جائے گی اور پھر ان سے باز پرس ہوگی۔“

وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ

📘 آیت 2 { وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ } ”قسم ہے اس کتاب کی جو بالکل واضح ہے۔“ یہاں پر چونکہ قرآن کی قسم کا ”جوابِ قسم“ یا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ اس لیے اس قسم کا مقسم علیہ بھی سورة یٰسٓ کی آیت میں وارد الفاظ { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ ہی کو مانا جائے گا۔ یہ نکتہ قبل ازیں سورة یٰسٓکی آیت 3 کے ضمن میں واضح کیا جا چکا ہے کہ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم چونکہ حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی کے طور پر کھائی گئی ہے ‘ اس لیے قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے وہاں اس قسم کا مقسم علیہ منطقی طور پر ان ہی الفاظ { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ کو ہونا چاہیے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ کتاب مبین گواہ ہے کہ اے محمد ﷺ آپ اللہ کے رسول ہیں !

وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ ۗ مَا لَهُمْ بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

📘 آیت 20 { وَقَالُوْا لَوْ شَآئَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ } ”اور وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی بندگی نہ کرتے۔“ { مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍق اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ } ”ان کے پاس اس کے لیے کوئی علمی سند نہیں ہے ‘ وہ تو محض اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں۔“

أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ

📘 آیت 21 { اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ کِتٰبًا مِّنْ قَبْلِہٖ فَہُمْ بِہٖ مُسْتَمْسِکُوْنَ } ”کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ؟“ کیا ان لوگوں کے پاس ہماری نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس سے یہ اپنی اس ملائکہ پرستی کے لیے دلیل پکڑتے ہوں ؟ یا ان کے معبودانِ باطل لات ‘ منات ‘ ُ عزیٰ ّاور ہبل میں سے کسی نے ان پر کوئی کتاب یا صحیفہ نازل کر رکھا ہے ؟ سورة ما قبل الشوریٰ کی آیت 21 میں بھی اس سے ملتا جلتا سوال کیا گیا ہے : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُط } ”کیا ان کے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟“

بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ

📘 آیت 22 { بَلْ قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّہْتَدُوْنَ } ”بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے آباء و اَجداد کو پایا ایک راستے پر اور اب ہم ان ہی کے نقش ِقدم پر ہدایت یافتہ ہیں۔“

وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ

📘 آیت 23 { وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍاِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ } ”اور اے نبی ﷺ ! اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کسی خبردار کرنے والے کو مگر اس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا“ { اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ } ”کہ ہم نے پایا ہے اپنے آباء و اَجداد کو ایک راستے پر اور اب ہم ان ہی کے نقش ِقدم کی اقتدا کر رہے ہیں۔“

۞ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ ۖ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ

📘 آیت 24 { قٰلَ اَوَلَوْ جِئْتُکُمْ بِاَہْدٰی مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْہِ اٰبَآئَ کُمْ } ”اس خبردار کرنے والے نے کہا کہ خواہ میں لایا ہوں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والی چیز اس کے مقابلے میں جس پر تم نے اپنے آباء و اَجداد کو پایا !“ ہر قوم کی طرف جو نبی بھیجا گیا اس نے اپنی قوم سے سوال کیا کہ خواہ میں تمہیں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ بتائوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے جب بھی تم انہی کے نقش قدم کی پیروی کرو گے اور اسی ڈگر پر چلتے جائو گے ؟ { قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ } ”انہوں نے کہا کہ ہم اس کے جس کے ساتھ آپ بھیجے گئے ہیں ‘ منکر ہیں۔“ یوں ہر قوم کے لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ سینہ تان کر اپنے نبی علیہ السلام کا انکار کرتے رہے۔

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

📘 آیت 25 { فَانْـتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ } ”تو ہم نے ان سے انتقام لیا ‘ تو دیکھ لو پھر کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا !“

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ

📘 آیت 26 { وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖٓ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ } ”اور یاد کرو جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا اپنے والد اور اپنی قوم سے کہ یقینا میں بیزار ہوں ان سے جنہیں تم پوجتے ہو۔“

إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ

📘 آیت 27 { اِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّہٗ سَیَہْدِیْنِ } ”سوائے اس ہستی کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے ‘ تو یقینا وہی مجھے راستہ دکھائے گا۔“

وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

📘 آیت 28 { وَجَعَلَہَا کَلِمَۃًم بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ } ”اور اس نے اسی بات کو باقی رکھا اپنے پیچھے اپنی اولاد میں بھی تاکہ وہ اللہ ہی کی جناب میں رجوع کیے رہیں۔“ یہی بات سورة البقرۃ میں یوں بیان ہوئی ہے : { وَوَصّٰی بِہَآ اِبْرٰہٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُط یٰـبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَـکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ } ”اور اسی کی وصیت کی تھی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب علیہ السلام نے بھی ‘ کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے ‘ پس تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان !“

بَلْ مَتَّعْتُ هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُبِينٌ

📘 آیت 29 { بَلْ مَتَّعْتُ ہٰٓؤُلَآئِ وَاٰبَـآئَ ہُمْ حَتّٰی جَآئَ ہُمُ الْحَقُّ وَرَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ۔ } ”لیکن میں نے ان لوگوں کو اور ان کے آباء و اَجداد کو کچھ سازو سامان دے دیا ‘ یہاں تک کہ ان کے پاس آگیا حق اور ایک واضح کردینے والا رسول۔“

إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

📘 آیت 3 { اِنَّا جَعَلْنٰـہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّـعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ } ”ہم نے اس کو بنا یا ہے قرآن عربی تاکہ تم سمجھ سکو۔“

وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ

📘 آیت 30 { وَلَمَّا جَآئَ ہُمُ الْحَقُّ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ وَّاِنَّا بِہٖ کٰفِرُوْنَ } ”اور جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔“

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ

📘 آیت 31 { وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ } ”اور کہنے لگے کہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم شخص پر ؟“ یہاں اصل مرکب اضافی ”رَجُلٍ عَظِیْمٍ“ ہے ‘ لیکن ان دو الفاظ کے درمیان ”مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ“ آجانے سے ”رجل“ کی صفت عظیم آخر پر چلی گئی ہے۔ قرآن کے اسلوب کے مطابق الفاظ کی یہ تقدیم و تاخیر مخصوص صوتی آہنگ کے باعث ہوتی ہے جس کی مثالیں قرآن میں جا بجا ملتی ہیں۔ مکہ اور طائف نزولِ قرآن کے زمانے میں پاکستان کے راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرح جڑواں شہر twin cities سمجھے جاتے تھے۔ دونوں شہروں کے لوگوں کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔ مکہ کے اکثر سرداروں کی طائف میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ ان میں ولید بن مغیرہ کا ذکر روایات میں خاص طور پر آتا ہے کہ طائف میں اس کے بہت سے باغات اور مکانات تھے۔ مذکورہ جملہ دراصل اس پس منظر میں کسا گیا تھا کہ ان دونوں شہروں کی بڑی شخصیات کو چھوڑ کر اللہ کو رسول بنانے اور اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے آخر قریش کا ایک یتیم ہی کیوں پسند آیا ہے !

أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ

📘 آیت 32 { اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ } ”کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کریں گے ؟“ نبوت اور وحی اللہ کی رحمت کا بہت بڑا مظہر ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہماری اس رحمت کا حقدار کون ہے اور ہم یہ فیصلہ اپنی مشیت و حکمت کے مطابق کرتے ہیں کہ اس بلند مرتبے پر کسے فائز ہونا ہے۔ چناچہ ہم نے خود اس منصب کے لیے محمد ﷺ کا انتخاب فرمایا ہے اور آپ کو رحمت ٌللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ ہمارے اس فیصلے پر اعتراض کرنے کا حق انہیں کس نے دیا ہے ؟ { نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } ”ہم نے ان کے درمیان ان کی معیشت کا سامان دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ہے“ { وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ } ”اور ان میں سے بعض کو بعض پر ہم نے درجات میں فوقیت دے دی ہے“ کسی کو کھاتے پیتے والدین کے گھر پیدا کر کے پیدائشی طور پر خوشحال بنا دیا ہے تو کسی کو اس حال میں رکھا ہے کہ اسے دن بھر مشقت کر کے بھی دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہوتا۔ { لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا } ”تاکہ بعض لوگ دوسروں کو خدمت گار بنا سکیں۔“ اگر وہ سب کو ایک جیسا بنا دیتا تو کوئی کسی کی ملازمت کیوں کرتا ؟ اور مختلف کام کرنے والے مزدور کہاں سے ملتے ؟ بہر حال اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی اسی درجہ بندی کی بدولت دنیا میں ہر قسم کا کام کرنے والے پیشہ ور لوگ دستیاب ہیں اور اسی وجہ سے یہ کارخانہ ٔ تمدن چل رہا ہے۔ { وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ } ”اور آپ کے رب کی رحمت کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔“ سورة یونس میں بالکل یہی الفاظ قرآن مجید کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں : { یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِج وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ } ”اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں کے امراض کی شفا اور اہل ایمان کے حق میں ہدایت اور بہت بڑی رحمت۔ اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دیجیے کہ یہ قرآن اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے نازل ہوا ہے۔ تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں۔ وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔“

وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ

📘 آیت 33 { وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً } ”اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمام لوگ ایک ہی امت بن جائیں گے“ یعنی اگر تمام لوگوں کے کافر اور منکر ہوجانے کا خدشہ نہ ہوتا : { لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّـکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُوْنَ } ”تو جو لوگ رحمن کا کفر کرتے ہم ان کے لیے بنا دیتے ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں بھی جن پر وہ چڑھتے۔“

وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ

📘 آیت 34 { وَلِبُیُوْتِہِمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَیْہَا یَتَّکِئُوْنَ } ”اور ان کے گھروں کے دروازے اور وہ تخت بھی چاندی کے ہوتے جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے۔“

وَزُخْرُفًا ۚ وَإِنْ كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ

📘 آیت 35 { وَزُخْرُفًا } ”اور سونے کی بھی بنا دیتے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی ان چیزوں کی سرے سے کوئی وقعت ہے ہی نہیں۔ اس حوالے سے یہ حدیث نبوی ﷺ قبل ازیں متعدد بار دہرائی جا چکی ہے کہ اگر دنیا ومافیہا کی وقعت اللہ کی نگاہ میں مچھر کے َپر کے برابر بھی ہوتی تو دنیا میں وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی دولت اور زیب وزینت کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں ‘ اس لیے وہ تو اپنے سرکش اور نافرمان انسانوں کو بھی طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے۔ { وَاِنْ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } ”اور یہ سب کچھ تو بس دنیا کی زندگی کا سازو سامان ہے۔“ کسی کا محل سونے کا ہو یا چاندی کا ‘ وہ اسے اپنے ساتھ قبر میں تو نہیں لے جاسکتا۔ دنیا کا سازو سامان جو کچھ بھی ہو ‘ جتنا کچھ بھی ہو یہیں اسی دنیا میں چھوڑ کر انسان آخرت کو سدھار جائے گا۔ { وَالْاٰخِرَۃُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ } ”اور آخرت کی کامیابی آپ کے رب کے نزدیک صرف اہل ِتقویٰ کے لیے ہے۔“

وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ

📘 آیت 36 { وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ} ”اور جو کوئی ُ منہ پھیر لے رحمان کے ذکر سے ‘ اس پر ہم ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں ‘ تو وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔“

وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ

📘 آیت 37 { وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّـہُمْ مُّہْتَدُوْنَ } ”اور وہ شیاطین ان کو روکتے ہیں سیدھے راستے سے ‘ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔“ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی منصوبہ بندی بڑی کامیاب ہے ‘ کاروبار خوب جم رہا ہے ‘ دولت تیزی سے بڑھ رہی ہے ‘ پہلے ایک فیکٹری تھی ‘ پھر دو ہوئیں اور اب تین ہوگئی ہیں۔ وہ اپنی انہیں کامیابیوں پر نازاں وفرحاں مسلسل دنیا سمیٹنے میں لگے رہتے ہیں۔

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ

📘 آیت 38{ حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ نَا قَالَ یٰـلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ } ”یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو اپنے ساتھی شیطان سے کہے گا کہ کاش میرے اور تمہارے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا ‘ ُ تو تو بہت ہی برا ساتھی ہے !“

وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ

📘 آیت 39 { وَلَنْ یَّنْفَعَکُمُ الْیَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّکُمْ فِی الْْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ } ”اور جب کہ تم ظلم کرتے رہے ہو تو آج کے دن یہ بات تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گی کہ تم سب عذاب میں شریک ہو۔“ اپنے ظلم کے نتیجے میں تم اور تمہارے شیطان ساتھی جہنم کا عذاب اکٹھے بھگتو گے ‘ مگر ان شیاطین کا عذاب میں تمہارے ساتھ شریک ہونا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اس سے تمہارے اپنے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ

📘 آیت 4 { وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ} ”اور یہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند وبالا ‘ بہت حکمت والی !“ یعنی اصل قرآن تو ”اُمّ الکتاب“ میں ہے۔ دنیا کو اس کی عربی زبان میں مصدقہ نقول فراہم کی گئی ہیں۔ اسی ”اُمّ الکتاب“ کو سورة الواقعہ کی آیت 78 میں کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ اور سورة البروج کی آخری آیت میں لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ بھی کہا گیا ہے۔

أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آیت 40{ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَہْدِی الْعُمْیَ وَمَنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”تو اے نبی ﷺ ! کیا آپ بہروں کو سنائیں گے یا آپ اندھوں کو راہ دکھائیں گے ‘ اور ان کو جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں !“

فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ

📘 آیت 41 { فَاِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْہُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ } ”تو اگر ہم آپ کو لے بھی جائیں ‘ تب بھی ان سے تو ہم انتقام لے کر ہی رہیں گے۔“ اگر ہم آپ کو اپنے پاس بلا لیں تب بھی انہیں تو ان کے جرائم کی سزا مل کر ہی رہے گی۔

أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ

📘 آیت 42 { اَوْ نُرِیَنَّکَ الَّذِیْ وَعَدْنٰہُمْ فَاِنَّا عَلَیْہِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ } ”یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم آپ ﷺ کو دکھا دیں وہ کچھ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ‘ ہمیں یقینا ان پر پوری قدرت حاصل ہے۔“ ہم چاہیں تو آپ ﷺ کی زندگی میں ہی ان پر فیصلہ کن عذاب لے آئیں اور چاہیں تو آپ ﷺ کے بعد ان پر گرفت کریں۔

فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 43 { فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ مضبوطی سے تھام لیجیے اس کو جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے ‘ یقینا آپ سیدھے راستے پر ہیں۔“ اسی فعل سے اسم الفاعل مُسْتَمْسِکُوْنَ اس سے قبل آیت 21 میں مشرکین کے حوالے سے آچکا ہے کہ کیا ان کے پاس اللہ کی دی ہوئی کوئی کتاب ہے جس کو وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ؟ پھر یہی لفظ نبی اکرم ﷺ کے خطبہحجۃ الوداع میں بھی آیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمْسَکْتُمْ بِھِمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ 1 ”میں آپ لوگوں کے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ‘ اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ‘ اور وہ ہیں : اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔“

وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ

📘 آیت 44 { وَاِنَّـہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ۔ } ”اور یہ قرآن آپ کے لیے بھی یاد دہانی ہے اور آپ کی قوم کے لیے بھی ‘ اور عنقریب آپ سب سے پوچھ گچھ ہوگی۔“ یہ قرآن گویا آپ کا وظیفہ ہے۔ آپ ﷺ اسے ہمیشہ پڑھتے رہیے اور آپ ﷺ کی قوم کی ہدایت و فلاح بھی اسی میں ہے۔

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ

📘 آیت 45{ وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَآ } ”اور آپ پوچھ لیجیے ان سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اپنے رسولوں میں سے“ یعنی عالم ِارواح میں تو آپ ﷺ کی ملاقات تمام انبیاء ورسل علیہ السلام سے رہی تھی۔ معراج کے موقع پر بھی بیت المقدس میں آپ ﷺ نے تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی امامت کرائی تھی۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ لیجیے۔ { اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یُّعْبَدُوْنَ۔ } ”کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی اور بھی ایسے معبود بنائے ہیں کہ جن کی پوجا کی جائے ؟“ آپ جس سے بھی پوچھیں گے ایسی کوئی گواہی آپ کو نہیں ملے گی اور نہ ہی کسی نبی کی تعلیمات سے ایسی کسی بات کا کہیں سراغ ملے گا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 46 { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَ ئِہٖ } ”اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف“ ان سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے تھے ‘ یعنی عصا اور ید ِبیضا۔ { فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”تو اس نے کہا کہ دیکھو میں تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں۔“

فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِآيَاتِنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَضْحَكُونَ

📘 آیت 47 { فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَآ اِذَا ہُمْ مِّنْہَا یَضْحَکُوْنَ۔ } ”تو جب وہ آیا ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر تو وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے۔“

وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا ۖ وَأَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

📘 آیت 48 { وَمَا نُرِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکْبَرُ مِنْ اُخْتِہَا } ”اور نہیں دکھاتے تھے ہم انہیں کوئی نشانی مگر وہ اپنی بہن اپنے جیسی پہلی نشانی سے زیادہ بڑی ہوتی تھی“ یعنی ہم ان کو ایک سے ایک بڑھ کر نشانیاں دکھاتے رہے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی مزید سات نشانیوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان میں ایک بہت بڑی نشانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جادوگروں سے مقابلہ تھا ‘ جس میں شکست کھا کر وہ ایمان لے آئے۔ مزید برآں مصر میں شدید قحط ‘ ہولناک طوفانِ باد و باراں ‘ ٹڈی دل کا خوفناک حملہ ‘ چچڑیوں اور کھٹملوں کی بہتات ‘ مینڈکوں کا امڈا ہو اسیلاب ‘ کنوئوں اور چشموں کے پانی کا خون میں تبدیل ہوجانا ‘ ایسی نشانیاں تھیں جن کا ظہور یکے بعد دیگرے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیشگی اعلان کے بعد ہوتا اور آنے والی آفت اس وقت تک نہ ٹلتی جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام اسے ٹالنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرتے۔ ان نشانیوں کا ذکر سورة الاعراف کے سولہویں رکوع میں ہوا ہے۔ { وَاَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ } ”اور ہم انہیں پکڑتے رہے اس عذاب کے ذریعے ‘ شاید کہ وہ باز آجائیں۔“ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اصول اور قانون ہے کہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے بڑے عذاب سے پہلے ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔ اس اصول کا ذکر سورة السجدۃ میں اس طرح ہوا ہے : { وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ } ”اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے ‘ شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں“۔ نوٹ کیجیے ان دونوں آیات کے اختتامی الفاظ ایک سے ہیں۔

وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ

📘 آیت 49 { وَقَالُوْا یٰٓاَیُّہَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ } ”اور ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے : اے جادوگر ! تم اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے۔“ سورة الاعراف میں یہ واقعات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ جب وہ لوگ ایک عذاب سے تنگ آجاتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کرتے اور وعدہ کرتے کہ اگر ہماری یہ تکلیف دور ہوگئی تو : { اِنَّنَا لَمُہْتَدُوْنَ } ”ہم ضرور ہدایت پر آجائیں گے۔“ سورة الاعراف میں ان کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : { لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَٓائِ یْلَ۔ } ”اگر تم نے ہم سے اس عذاب کو ہٹا دیا تو ہم لازماً تمہاری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی لازماً تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔“

أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ

📘 آیت 5 { اَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ } ”کیا ہم اس ذکر کا رخ تمہاری طرف سے اس لیے پھیر دیں کہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو !“ ہم نے اپنی یہ کتاب ہدایت ایک عظیم الشان نعمت کے طور پر تمہاری طرف نازل کی ‘ جو نصیحت و یاد دہانی پر مشتمل ہے ‘ مگر تم نے اس کی ناقدری کرتے ہوئے اس کی طرف سے روگردانی کی ہے۔ تو کیا ہم تمہارے اس رویے ّکی وجہ سے اپنی اس نعمت کو ہی اٹھا لیں ؟ نہیں ! ابھی ہم تم لوگوں کو مزید مہلت دینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ابھی یہ کتاب تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی رہے گی۔

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ

📘 آیت 50 { فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِذَا ہُمْ یَنْکُثُوْنَ } ”پھر جب ہم دور کردیتے تھے ان سے وہ عذاب تو اسی وقت وہ وعدے سے پھرجاتے تھے۔“

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ

📘 آیت 51 { وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ } ”اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا“ { قَالَ یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ } ”اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟“ نوٹ کیجیے ! یہ سیاسی شرک شرک کی بد ترین قسم ہے۔ حاکمیت صرف اللہ کی ہے ‘ اس کے علاوہ جو کوئی بھی حاکمیت کا مدعی ہو ‘ چاہے وہ ایک فرد ہو ‘ ایک قوم ہو یا پوری نسل انسانی ‘ وہ اللہ کے ساتھ برابری کا دعویدار ہے۔ اور فرعون نے خدائی کا دعویٰ اسی مدعیت کے ساتھ اور اسی مفہوم میں کیا تھا ‘ ورنہ وہ زمین و آسمان کے خالق ہونے کا دعویدار تو ہرگز نہیں تھا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ جس طرح تمام انسان پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اسی طرح پیدا ہوا ہے اور سب کی نظروں کے سامنے پلابڑھا ہے۔ چناچہ اس کے خدائی کے دعوے کی اصل حقیقت یہی تھی کہ وہ حاکمیت ِمطلق کا دعویدار تھا ‘ جو کہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔ Divine Rights of the Kings کا ذکر آپ کو اہل یورپ کی تاریخ میں بھی ملے گا۔ ان کے ہاں بھی قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آ رہا ہے کہ بادشاہوں کو خدائی اختیارات حاصل ہیں ‘ ان کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ final legistative authority ہیں۔ ان کی مرضی ہے وہ جو چاہیں قانون بنا دیں۔ جبکہ یہ سوچ اور یہ دعویٰ بد ترین شرک ہے ‘ جسے اہل یورپ نے دور حاضر میں جمہوریت کے نام سے عوام الناس میں تقسیم کردیا ہے۔ چناچہ جو گندگی کسی زمانے میں فرعون یا نمرود کے سر پر ٹنوں کے حساب سے لدی ہوتی تھی اسے انہوں نے تولوں اور ماشوں میں تقسیم کر کے اپنے ہر شہری کی جیب میں ڈال دیا ہے ‘ کہ یہ لو ووٹ کی اس پرچی کے بل پر اب تم میں سے ہر ایک حکومت میں حصہ دار ہے۔ اب تم اپنی اکثریت کے ذریعے جو قانون چاہو بنا لو۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں اس شیطانی فریب کو خوب بےنقاب کیا ہے۔ ابلیس کا ایک مشیر اقبالؔ کے الفاظ میں دوسرے مشیر سے کہتا ہے : ؎ خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر ؟rُتو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر !کہ اب دنیا میں سلطانی جمہور عوام کی حکمرانی کے نام پر جو شور و غوغا اٹھا ہے وہ ابلیسی نظام کے لیے ایک بہت بڑا فتنہ اور خطرہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہمارے سب ہتھکنڈوں کا توڑ ڈھونڈنے پر تلا بیٹھا ہے۔ اگر انسانوں کا بنایا ہوا عوامی حاکمیت کا یہ سکہ دنیا میں چل گیا تو ہمارا کاروبار تو ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس کی اس بات پر دوسرا مشیر کہتا ہے : ؎ہوں ‘ مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر !کہ میں اس ”فتنے“ کی اصلیت سے خوب باخبر ہوں ‘ بہر حال تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ جمہوریت بھی ملوکیت ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے : ؎ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر !اصل میں جب ہم نے دیکھا کہ انسان اپنے ”بنیادی حقوق“ کے بارے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوتا چلا جا رہا ہے تو ہم نے ”شاہی“ کو ”جمہوری“ لباس پہنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ لو بھئی اب تو تمہارا عام شخص بھی حاکم بن گیا ہے ‘ اب تو ہر شہری کو شاہی اختیار میں سے برابر کا حصہ مل گیا ہے۔ لہٰذا سلطانی ٔ جمہور کا یہ شوشہ ہماری ”ابلیسیت“ کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی تیار کردہ منصوبہ ہے۔ ملوکیت اور جمہوریت کی حقیقت کو اس مثال سے سمجھنا چاہیے کہ گندگی تو گندگی ہی ہے چاہے ٹنوں کے حساب سے کسی ایک شخص کے سر پر لاد دی جائے یا ایک کروڑ انسانوں میں تولہ تولہ ماشہ ماشہ تقسیم کردی جائے۔ چناچہ فرعون کو اسی ”خدائی“ کا دعویٰ تھا اور اس نے اپنی ”خدائی“ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اعلان کیا کہ لوگو ! دیکھو کیا مصر کی حکومت میرے قبضے میں نہیں ہے ؟ { وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ } ”اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟“ اس فقرے کا مفہوم ہمارے ہاں عام طور پر یوں سمجھ لیا جاتا ہے جیسے فرعون نے اپنے محل کے نیچے بہنے والے دریا کا ذکر کیا تھا ‘ جبکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ملک کے اندر آب پاشی کا پورا نظام جس پر تمہاری معیشت کا انحصار ہے ‘ میرے حکم کے تابع ہے۔ میں جسے چاہوں اور جس قدر چاہوں پانی مہیا کروں۔ جس کو چاہوں کم پانی دوں ‘ جس کو چاہوں زیادہ دوں اور جسے چاہوں پانی سے محروم کر دوں ‘ مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ { اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟“

أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ

📘 آیت 52 { اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ} ”کیا میں بہتر نہیں ہوں اس سے جو ایک بےعزت آدمی ہے ؟“ میں مصر کی حکومت اور اس کے معاشی وسائل کا بلاشرکت ِغیرے مالک ہوں۔ کیا یہ موسیٰ میرا مقابلہ کرسکتا ہے جو محض ہماری محکوم قوم کا ایک فرد ہے ! { وَّلَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ } ”اور صاف بات بھی نہیں کرسکتا !“ یہ خطابت پر بھی قادر نہیں ہے اور اپنا مدعا واضح طور پر بیان نہیں کرسکتا۔

فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ

📘 آیت 53 { فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ } ”تو کیوں نہیں اتارے گئے اس پر سونے کے کنگن ؟“ اگر یہ واقعی اللہ کا فرستادہ ہے تو اللہ نے اسے سونے کے کنگن کیوں نہ مہیا کیے کہ ایک بادشاہ کے مقابلے میں جا رہے ہو ‘ کم از کم یہ سونے کے کنگن ہی پہنتے جائو۔ { اَوْ جَآئَ مَعَہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ } ”یا اس کے ساتھ فرشتے چلے آ رہے ہوتے صفیں باندھے ہوئے !“

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ

📘 آیت 54 { فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ } ”تو اس طرح اس نے اپنی قوم کی مت مار دی اور انہوں نے اسی کا کہنا مانا۔“ یہاں پر لفظ اِسْتَخَفَّ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ لغوی اعتبار سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے ان کو بالکل ہی خفیف اور ہلکا سمجھا۔ مراد یہ ہے کہ اس نے ان کی عقل ہی گنوا دی ‘ ان کو بیوقوف بنا لیا۔ اسی طرح آج کے سیاسی شعبدہ باز demagogs اپنے عوام کو نت نئے طریقوں سے بیوقوف بناتے ہیں۔ کوئی ان کے سامنے روٹی کپڑا اور مکان کی ڈگڈگی بجاتا ہے تو کوئی اس مقصد کے لیے کسی دوسرے نعرے کا سہارا لیتا ہے۔ بقول اقبالؔ ابلیس کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ میں جب چاہوں ہر قسم کے انسانوں کو بیوقوف بنا سکتا ہوں : ؎کیا امامانِ سیاست ‘ کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ُ ہو !چنانچہ جب ابلیس یا ابلیس کا کوئی چیلہ عوام الناس کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ اندھوں کی طرح اپنے ”محبوب لیڈر“ کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ پھر نہ تو وہ سامنے کے حقائق کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی کسی علمی و عقلی دلیل کو لائق توجہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فرعون نے بھی اپنے اقتدار کے رعب و داب کی ڈگڈگی بجا کر اپنی قوم کو ایسا متاثر کیا کہ وہ آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے ہولیے۔ یہاں فَاَطَاعُوْہُ کے لفظ میں ان کے اسی رویے ّکی عکاسی کی گئی ہے۔{ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ } ”یقینا وہ لوگ خود بھی نافرمان ہی تھے۔“

فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 55 { فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ”تو جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ‘ پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔“

فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ

📘 آیت 56 { فَجَعَلْنٰہُمْ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ } ”چناچہ ہم نے انہیں بنا دیا ماضی کی داستان اور بعد والوں کے لیے ایک نشان عبرت۔“

۞ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ

📘 آیت 57 { وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ } ”اور جب قرآن میں ابن ِمریم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اس پر آپ کی قوم چلانے ّلگتی ہے۔“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر مشرکین ِمکہ ّکی چیخ و پکار ایک تو سورة الانبیاء کی اس آیت کے حوالے سے تھی : { اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَط اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ۔ } ”یقینا تم لوگ اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ‘ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ تمہیں اس میں پہنچ کر رہنا ہے“۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ کے سوا جتنے معبود لوگوں نے بنا رکھے ہیں اگر وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے تو پھر عیسیٰ علیہ السلام ٰ بھی تو ان ہی میں شامل ہوں گے ‘ کیونکہ انہیں بھی تو دنیا میں پوجا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے مقابلے میں اگر فرشتوں ‘ اللہ کے مقرب بندوں ‘ ِجنات ّاور ُ بتوں وغیرہ کی پرستش کی گئی ہے تو جہنم میں جھونکے جانے کا مصداق ملائکہ ‘ انبیاء اور اولیاء اللہ تو نہیں ٹھہرتے۔ ظاہر ہے جو باطل ہوگا وہی جہنم میں جھونکا جائے گا۔ البتہ مشرکین مکہ اسی دلیل کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر شدت کے ساتھ چیخنا چلانا شروع کردیتے تھے۔ دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر مشرکین مکہ کے مخصوص رد عمل کا باعث ان کا حضور ﷺ کے بارے میں یہ موقف بھی تھا کہ آپ ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کی تعریف و توصیف کے پردے میں نصرانیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ جس طرح ہم لات و ُ عزیٰ ّوغیرہ کی پوجا کرتے ہیں اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کو پوجتے ہیں۔ تو ایسا کیوں ہے کہ عیسائیوں کے معبود کی تو آپ ﷺ تعریف کرتے ہیں اور ہمارے معبودوں کی مذمت ؟ اس وجہ سے وہ لوگ حضور ﷺ پر عیسائیت کو قبول کرلینے اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ بلکہ جب مکہ میں مسلمانوں نے نماز پڑھنا شروع کی تو مشرکین ِمکہ ّنے حضور ﷺ اور مسلمانوں پر یہ الزام بھی لگادیا کہ یہ لوگ ”صابی“ ہوگئے ہیں۔ صابی لوگ عراق میں آباد تھے اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے پیروکاروں کی نسل میں سے تھے۔ اگرچہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل دین کو تو بگاڑ دیا تھا لیکن ”نماز“ کسی نہ کسی شکل میں ان کے ہاں موجود تھی۔ چناچہ نماز کی اس مشابہت کے باعث مشرکین مکہ نے حضور ﷺ پر صابی ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ بہر حال مذکورہ دو وجوہات کی بنا پر مشرکین مکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کے ذکر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔

وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ

📘 آیت 58 { وَقَالُوْٓا ئَ اٰلِہَتُنَا خَیْرٌ اَمْ ہُوَ } ”اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ؟“ { مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًاط بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ } ”یہ باتیں وہ آپ سے نہیں کرتے مگر صرف جھگڑنے کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔“

إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ

📘 آیت 59 { اِنْ ہُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ } ”وہ تو بس ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے خاص انعام فرمایا اور ہم نے اس کو ایک نشانی بنا دیا بنی اسرائیل کے لیے۔“ بنی اسرائیل کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں تھیں۔ آپ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے اور اپنی پیدائش کے فوراً بعد پنگھوڑے میں ہی آپ علیہ السلام نے باتیں کرنا شروع کردیں۔ اس کے علاوہ آپ کو خلق ِحیات اور احیائِ موتی ٰ سمیت اور بھی بہت سے معجزات عطا ہوئے تھے۔

وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِنْ نَبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 6 { وَکَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ } ”اور ہم نے کتنے ہی نبی بھیجے پہلوں میں بھی۔“

وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ

📘 آیت 60 { وَلَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنَا مِنْکُمْ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ } ”اور اگر ہم چاہیں تو تم میں سے فرشتے بنا دیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں۔“

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

📘 آیت 61 { وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ } ”اور یقینا وہ قیامت کی ایک علامت ہے“ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ورود اوّل میں بنی اسرائیل کے لیے نشانی یعنی مجسم معجزہ تھے ‘ جبکہ اپنے ورود ثانی میں آپ علیہ السلام کا نزول قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے ہوگا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول اور قرب قیامت کے زمانے کی کیفیت احادیث میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ { فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوْنِ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ } ”تو اس قیامت کے بارے میں تم ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔“

وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 آیت 62 { وَلَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیْطٰنُج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} ”اور دیکھو شیطان تمہیں روک نہ دے ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ یعنی ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اس صراط مستقیم کی پیروی سے روک دے جس کی طرف میں بلا رہا ہوں۔ یہ مت بھولو کہ شیطان اس صراط مستقیم پر گامزن ہونے والوں کا کھلا دشمن ہے اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے آزماتا ہے۔

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

📘 آیت 63 { وَلَمَّا جَآئَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ } ”اور جب آئے عیسیٰ علیہ السلام ٰ واضح نشانیاں لے کر تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں“ یہاں پر ”حکمت“ کا لفظ بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے کہ انجیل میں ”کتاب“ شریعت نہیں تھی ‘ صرف حکمت تھی ‘ جبکہ تورات ”کتاب“ پر مشتمل تھی۔ اس میں احکامِ شریعت تو تھے ‘ حکمت نہیں تھی۔ دراصل نزول تورات کے زمانے میں نسل ِانسانی کا اجتماعی شعور ابھی اس قابل نہیں ہوا تھا کہ انہیں حکمت کی تلقین کی جاتی۔ اس لیے اس میں صرف احکام commandments دے دیے گئے تھے کہ یہ کرو اور یہ مت کرو۔ یعنی صرف اوامرو نواہی dos and donts کا ذکر کیا گیا تھا۔ حکمت کے لیے بعد میں انجیل آئی۔ البتہ قرآن میں کتاب شریعت بھی ہے اور حکمت بھی ہے۔ یعنی آخری کتاب ہونے کے حوالے سے یہ ما سبق تمام کتابوں کی جامع ہے۔ { وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ } ”اور تاکہ میں واضح کردوں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو ‘ پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔“

إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

📘 آیت 64 { اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ} ”یقینا اللہ ہی ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ‘ پس تم اسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔“

فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ

📘 آیت 65 { فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْ } ”پھر ان میں سے کئی گروہ باہم اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں دو بڑے گروہوں کے درمیان شدید اختلافات پید اہو گئے۔ یہودی آپ علیہ السلام کی مخالفت میں اس حدتک چلے گئے کہ انہوں نے آپ علیہ السلام کو جادوگر ‘ مرتد اور ولد الزنا نقل کفر ‘ کفر نباشد قرار دے دیا۔ ان کے مقابلے میں عیسائیوں نے دوسری انتہا پر جا کر آپ علیہ السلام کو نعوذ باللہ اللہ کا بیٹا بنا دیا اور آپ علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ بھی گھڑ لیا کہ آپ علیہ السلام اپنے نام لیوائوں کی طرف سے خود سولی پر چڑھ گئے ہیں اور یوں آپ علیہ السلام کی یہ ”قربانی“ آپ علیہ السلام کے ہر ماننے والے کے گناہوں کا کفارہ بن گئی ہے۔ بہر حال یہ دونوں رویے ّانتہائی غلط ہیں۔ { فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ } ”پس تباہی اور بربادی ہے ان ظالموں کے لیے ایک دردناک دن کے عذاب سے۔“

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 66 { ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ } ”یہ لوگ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے قیامت کے کہ وہ آجائے ان پر اچانک اور انہیں خبر بھی نہ ہو !“

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 67 { اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ } ”بہت گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ‘ سوائے متقین کے۔“ دنیا کی تمام دوستیاں اس دن دشمنیوں میں بدل جائیں گی ‘ سوائے مومنین ِصادقین کی باہمی دوستیوں کے۔

يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ

📘 آیت 68 { یٰـعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ } ”اُن سے کہا جائے گا : اے میرے بندو ! آج تم پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم رنجیدہ ہوگے۔“

الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ

📘 آیت 69 { اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا مُسْلِمِیْنَ } ”یعنی وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور فرماں بردار تھے۔“

وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 7 { وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } ”اور نہیں آیا کوئی بھی نبی ان کے پاس مگر وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔“

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ

📘 آیت 70 { اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَ } ”داخل ہو جائو جنت میں تم بھی اور تمہاری بیویاں بھی ‘ تمہارا اعزازو اکرام کیا جائے گا۔“

يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 71 { یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّاَکْوَابٍ } ”گردش کرائے جائیں گے ان پر سونے کی طشتریاں اور پیالے۔“ { وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُج وَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ } ”اور وہاں ہوگا وہ سب کچھ جس کی طلب ہوگی انسان کے نفس کو اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں گی ‘ اور تم اب اس میں ہمیشہ ہمیش رہو گے۔“ جنت کے پھول ‘ باغیچے ‘ مناظر اور اہل جنت کی بیویاں غرض وہاں کی ہرچیز انتہائی حسین اور دلکش ہوگی۔

وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 72 { وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } ”اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُن اَعمال کی بنا پر جو تم کرتے تھے۔“ یعنی جنت میں تمہارا داخلہ اور اس کی تمام نعمتیں تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہیں جو تم دنیا میں کرتے رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی قدر دانی اور قدر افزائی کا ایک شاہانہ انداز ہے جو قرآن میں جا بجا ملتا ہے۔ دوسری طرف بندوں کے اس اعتراف کا ذکر بھی قرآن میں تکرار کے ساتھ آیا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں اہل جنت کا اعتراف سورة الاعراف میں بایں الفاظ نقل ہوا ہے : { وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰٹنَا لِہٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰٹنَا اللّٰہُج } آیت : 43 ”اور وہ کہیں گے ُ کل شکر اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ‘ اور ہم خود سے یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی نے ہمیں نہ پہنچا دیا ہوتا۔“

لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِنْهَا تَأْكُلُونَ

📘 آیت 73 { لَـکُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ کَثِیْرَۃٌ مِّنْہَا تَاْکُلُوْنَ } ”اس میں تمہارے لیے بکثرت پھل موجود ہیں جن میں سے تم کھاتے ہو۔“

إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

📘 آیت 74 { اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ } ”اس کے برعکس جو مجرم ہوں گے وہ جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔“

لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ

📘 آیت 75 { لَا یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَہُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ } ”وہ ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اسی میں پڑے رہیں گے بالکل ناامیدہو کر۔“ انہیں جہنم سے چھٹکارا پانے کا کوئی امکان نظر نہیں آئے گا۔

وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 76 { وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا ہُمُ الظّٰلِمِیْنَ } ”اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔“

وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ

📘 آیت 77 { وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ } ”اور وہ ندا کریں گے کہ اے مالک ! اب تو آپ کا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے۔“ مالک سے یہاں مراد جہنم کا داروغہ ہے۔ اہل جہنم اسے مخاطب کر کے فریاد کریں گے کہ اب ہم سے عذاب کی سختی مزید نہیں جھیلی جاتی۔ آپ اپنے رب سے کہیں کہ وہ ہمیں موت دے کر ہمارا قصہ تمام کر دے۔ { قَالَ اِنَّکُمْ مّٰکِثُوْنَ } ”وہ جواب دے گا کہ تمہیں تو اب ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔“

لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ

📘 آیت 78 { لَقَدْ جِئْنٰـکُمْ بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کٰرِہُوْنَ } ”ہم تو تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تمہاری اکثریت حق کو ناپسند کرتی ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعے تمہارے پاس سچا دین اور سچی تعلیمات پہنچا دی تھیں ‘ لیکن تم میں سے اکثر لوگ حق سے بیزار ہی رہے ‘ جس کا نتیجہ آج تمہارے سامنے ہے۔

أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ

📘 آیت 79 { اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ } ”کیا انہوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے ؟ تو ہم بھی ایک قطعی فیصلہ کیے لیتے ہیں۔“ حق و باطل کی اس کشمکش میں مشرکین ِمکہ ّنے اگر حق کو نہ ماننے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ہم بھی ان کے بارے میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔

فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 8 { فَاَہْلَکْنَآ اَشَدَّ مِنْہُمْ بَطْشًا } ”پھر ہم نے انہیں ہلاک کردیا جو ان سے بہت زیادہ بڑھ کر تھے قوت میں“ ہم نے ماضی میں بہت سی ایسی قوموں کو بھی نیست و نابود کردیا جو قریش ِمکہ ّسے کہیں بڑھ کر زور آور تھیں اور ان کی پکڑ بہت مضبوط تھی۔ تو یہ کس کھیت کی مولی ہیں ؟ { وَّمَضٰی مَثَلُ الْاَوَّلِیْنَ } ”اور پہلے لوگوں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔“ اقوامِ ماضی کے تفصیلی واقعات اور ان کے انجام کے بارے میں حقائق ان لوگوں کو بار بار بتائے جا چکے ہیں۔

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ

📘 آیت 80 { اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰٹہُمْ } ”کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی خفیہ باتوں اور راز دارانہ مشوروں کو سنتے نہیں ہیں !“ { بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ } ”کیوں نہیں ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے ایلچی ان کے پاس ہی لکھ رہے ہوتے ہیں۔“ ہماری خفیہ ایجنسی کے کارندے ہر وقت چوکنا رہتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ ساری رپورٹ تیار کرتے ہیں۔

قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ

📘 آیت 81 { قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَـدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلا اس کی عبادت کرنے والا میں ہوتا۔“ کہ جب میں خدائے رحمان کو اپنا معبود مانتا ہوں اور اس کی پرستش کرتا ہوں ‘ اگر واقعتا اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو اس کی پرستش کرنے میں مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ یہ نفی کا بہت تیکھا انداز ہے۔ اس اسلوب کو ”تعلیق بالمحال“ کہا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے ‘ اس لیے اس کی اولاد کو پوجنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ”تعلیق بالمحال“ کا یہی اسلوب اس حدیث میں بھی پایا جاتا ہے : لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا 1 ”اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ صدیق نبی ہوتا۔“ ایک دفعہ ٹورنٹو کینیڈا میں ایک قادیانی نے میرے ساتھ بحث کے دوران نبوت کے تسلسل کو ثابت کرنے کے لیے اسی حدیث کا حوالہ دیا تھا۔ اس حدیث میں حضور ﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم رض کا ذکر ہے ‘ جو حضرت ماریہ قبطیہ علیہ السلام کے بطن سے پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ان کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو وہ نبی ہوتے۔ اللہ کی مشیت کے مطابق ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا ‘ اس لیے نہ تو انہوں نے زندہ رہنا تھا اور نہ ہی نبوت کے سلسلے کو آگے چلنا تھا۔ بہر حال مذکورہ قادیانی نے اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی۔ میں نے اس کے جواب میں دلیل کے طور پر اسی آیت کا حوالہ دیا تھا : { قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ 4 } کہ یہاں جو حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ تو کیا حضور ﷺ کا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پوجنے کا کچھ بھی امکان تھا ؟ اس پر اس نے تسلیم کیا کہ آپ کی یہ دلیل واقعتا مضبوط ہے۔

سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ

📘 آیت 82{ سُبْحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ } ”پاک ہے آسمانوں اور زمین کا رب ‘ عرش کا مالک ‘ ان تمام چیزوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔“

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ

📘 آیت 83 { فَذَرْہُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ ان کو چھوڑ دیجئے ‘ یہ میں میخ نکالتے رہیں اور لہو و لعب میں پڑے رہیں“ { حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ } ”یہاں تک کہ یہ ملاقات کرلیں اپنے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔“

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 84 { وَہُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰــہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰــہٌط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ } ”اور وہی ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی اِلٰہ ہے۔ اور وہ بہت حکمت والا ‘ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔“ یعنی پوری کائنات میں ہر جگہ اسی کا اقتدار ہے۔ بائبل میں عیسائیوں کی جو Lords Prayer ہے اس کا مفہوم اس آیت کے بہت قریب ہیـ: Thy Kingdom comeThy will be done on Earth as it is in Heavensکہ اے اللہ ! تیری ہی سلطنت اور تیری حاکمیت قائم ہوجائے اور تیری مرضی جیسے آسمانوں پر پوری ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی پوری ہو۔ بہر حال الٰہ تو آسمانوں میں بھی وہی ہے اور زمین پر بھی وہی ہے۔ لیکن زمین پر انسانوں کو اس نے تھوڑی سی آزادی دے رکھی ہے کہ اگر کوئی انسان چاہے تو وہ نافرمانی اور ناشکری کی روش بھی اختیار کرسکتا ہے۔ بس زمین پر جو بھی فساد نظر آ رہا ہے وہ اس ”ذرا سی“ آزادی کا نتیجہ ہے۔ سورة الروم کی اس آیت میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے : { ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ } آیت 41 چناچہ بحر و بر میں اگر ہر جگہ فساد ہی فساد نظر آتا ہے تو وہ لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ہے ‘ ورنہ حکومت تو زمین پر بھی اللہ ہی کی ہے۔

وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 85 { وَتَبٰرَکَ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا } ”اور بہت بابرکت ہے وہ ذات جس کے اختیار میں ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور ان دونوں کے درمیان کی ساری چیزوں کی۔“ فرعون کا خدائی کا دعویٰ تو صرف مصر کی حکومت تک محدود تھا ‘ مگر اللہ کی حکومت واقعتا آسمانوں اور دنیا ومافیہا پر محیط ہے۔ { وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَاِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”اور اسی کے پاس ہے قیامت کا علم ‘ اور اسی کی طرف تم لوٹا دیے جائو گے۔“

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 86 { وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ } ”اور کوئی اختیار نہیں رکھتے کسی بھی شفاعت کا جن کو یہ پکار رہے ہیں اللہ کے سوا ‘ سوائے اس کے کہ جو حق کی گواہی دیں اور وہ جانتے ہوں۔“ ظاہر بات ہے وہاں تو کوئی غلط بات زبان سے نہیں نکال سکے گا ‘ لہٰذا وہاں پر گواہی صرف حق ہی کی ہوگی۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

📘 آیت 87 { وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ } ”اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے !“ یعنی اگر آپ ان سے پوچھیں کہ خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے۔ اس فقرے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر آپ ان سے ان کے معبودوں کے بارے میں پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو بھی وہ جواب میں کہیں گے کہ انہیں بھی اللہ نے ہی بنایا ہے۔ { فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ } ”تو پھر یہ کہاں سے پھیر دیے جاتے ہیں !“

وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 88 { وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ } ”اور قسم ہے نبی ﷺ کے اس قول کی کہ اے میرے رب ! یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لا رہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کا انداز ہے جو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہاں نقل ہوا ہے کہ اے میرے پروردگار ! میری یہ قوم ہٹ دھرمی اور ضد پر اترآئی ہے۔ نہ تو یہ لوگ میری باتوں کو سنتے ہیں اور نہ ہی بطور نبی کے میری تصدیق کرنے کو تیار ہیں۔

فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 89 { فَاصْفَحْ عَنْہُمْ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ ان سے در گزر کیجیے“ میرے خیال کے مطابق یہ سورة 4 نبوی ﷺ سے 8 نبوی ﷺ کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وقت تک چونکہ حضور ﷺ کی دعوت کو شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا ‘ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان کی طرف سے اپنا رخ پھیر لیں اور فی الحال انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ { وَقُلْ سَلٰمٌ} ”اور کہیے سلام ہے !“ اگر یہ لوگ آپ ﷺ سے الجھتے ہیں ‘ دعوت کے جواب میں آپ ﷺ سے استہزاء کرتے ہیں تو آپ ﷺ ان کو سلام کہہ کر نظر انداز کردیں۔ سورة الفرقان میں ہم نے ”عباد الرحمن“ کی جو صفات پڑھی ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے : { وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ ”اور جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں جاہل لوگ تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔“ { فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ } ”تو بہت جلد یہ لوگ جان جائیں گے۔“ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب حقیقت ان پر منکشف ہوجائے گی۔ بہت جلد حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت ہونے والا ہے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 9{ وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ } ”اور اگر آپ ﷺ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو وہ لازماً یہی کہیں گے کہ انہیں بنایا ہے اس ہستی نے جو العزیز اور العلیم ہے۔“