Ad-Dukhaan • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَلَقَدِ ٱخْتَرْنَٰهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى ٱلْعَٰلَمِينَ ﴾
“and indeed, We chose them knowingly above all other people,”
آیت 32 { وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } ”اور ہم نے علم رکھنے کے باوجود اُن بنی اسرائیل کو اقوامِ عالم پر ترجیح دی تھی۔“ بنی اسرائیل کی تمام خرابیاں اور کوتاہیاں ہمارے علم میں تھیں۔ اس کے باوجود ہم نے دنیا کی تمام اقوام پر انہیں فضیلت دے کر برگزیدہ کیا تھا۔ بنی اسرائیل کی اس فضیلت کا ذکر قرآن حکیم میں بار بار آیا ہے۔ سورة البقرۃ میں یہ آیت دو مرتبہ 47 اور 122 آئی ہے : { یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ 4 } ”اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی جہان والوں پر۔“ قرآن کریم خصوصی طور پر سورة البقرۃ میں بنی اسرائیل کے بڑے بڑے جرائم بھی ِگنوائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا سواد اعظم مسلسل توحید سے چمٹا رہا تھا۔ اگرچہ گاہے بگاہے ان میں مشرکانہ نظریات و اوہام بھی پنپتے رہے لیکن ان کی اکثریت بہر حال توحید پر قائم رہی۔ مثلاً ایک زمانے میں ان کے درمیان ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتا تھا لیکن اس دور میں بھی مجموعی طور پر ان میں سے اکثر لوگ توحید پرست ہی رہے۔