🕋 تفسير سورة الفتح
(Al-Fath) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا
📘 آیت 1 { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ”یقینا ہم نے آپ ﷺ کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔“
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
📘 آیت 10 { اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ } ”اے نبی ﷺ ! یقینا وہ لوگ جو آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔“ { یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ } ”ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے۔“ اس بیعت کے اندر گویا تین ہاتھ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ‘ بیعت کرنے والے شخص کا ہاتھ اور اللہ کا ہاتھ۔ { فَمَنْ نَّـکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ } ”تو اب جو کوئی اس کو توڑے گا تو اس کے توڑنے کا وبال اپنے اوپر ہی لے گا۔“ { وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا } ”اور جو کوئی پورا کرے گا اس معاہدے کو جو وہ اللہ سے کر رہا ہے تو وہ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔“ اس آیت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے سورة التوبہ کی اس آیت کو ایک مرتبہ پھر سے دہرا لیں : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَـیَـقْتُلُوْنَ وَیُـقْتَلُوْنَقف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖط } آیت 111 ”یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں ‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں ‘ یہ وعدہ اللہ کے ذمے ہے سچا تورات ‘ انجیل اور قرآن میں۔ اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو وفا کرنے والا کون ہے ؟ پس خوشیاں منائو اس بیع پر جس کا سودا تم نے اس کے ساتھ کیا ہے“۔ اب ان دونوں آیات کے باہمی ربط وتعلق کو اس طرح سمجھیں کہ سورة التوبہ کی اس آیت میں ایک ”بیع“ سودے کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس بیع کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ سورة التوبہ کی مذکورہ بالا آیت میں بھی ب ی ع مادہ سے باب مفاعلہ بَایَعْتُمْ بِہٖ آیا ہے اور یہاں آیت زیر مطالعہ میں بھی اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ۔ لفظ بیعت دراصل بیع سے ہی مشتق ہے۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ دو فریق جب خریدو فروخت بیع کا کوئی معاملہ کرتے تو سودا پکا ہوجانے پر آپس میں مصافحہ کرتے تھے۔ یہ مصافحہ دراصل ”بیع“ طے ہوجانے کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے مصافحے کو ”بیعت“ کا نام دے دیا گیا۔ سورة التوبہ کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ اور بندے کے مابین ہونے والی بیع و شراء میں بندے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اس سودے کی بیعت براہ راست اللہ کے ہاتھ پر نہیں کرسکتا۔ اس لیے اسے یہ ”بیعت“ اللہ کے کسی نمائندے یعنی کسی انسان کے ہاتھ پر ہی کرنی پڑے گی اور اس طرح عملی طور پر اس سودے یا بیع میں تین فریق شامل ہوں گے ‘ یعنی اللہ ‘ سودا کرنے والا شخص اور وہ شخص جس کے ہاتھ پر اس سودے کی بیعت ہوگی۔ آج بالفرض اگر میں اپنا مال و جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں تو میرے اور اللہ کے درمیان چونکہ غیب کا پردہ حائل ہے اس لیے مجھے یہ معلوم کرنے کے لیے کوئی ”انسان“ ہی ڈھونڈنا پڑے گا کہ میں اپنی جان کب اور کیسے قربان کروں ؟ اور اپنا مال کس طریقے سے کہاں خرچ کروں ؟ صحابہ کرام رض کو یہ ”انسان“ اللہ کے رسول ﷺ کی شکل میں میسر تھا ‘ انہوں نے اپنے مال و جان کے سودے کی ”بیعت“ حضور ﷺ کے ہاتھ پر کررکھی تھی۔ چناچہ جب حضور ﷺ انہیں بتاتے تھے کہ اب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزار میں پہنچ جائو اور اب اپنے اموال حاضر کردو تو صحابہ رض خوشی خوشی آپ ﷺ کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے۔ بلکہ وہ تو منتظر رہتے تھے کہ کب حضور ﷺ انہیں حکم دیں اور کب انہیں اللہ کی امانت کو لوٹانے کی سعادت نصیب ہو۔ صحابہ رض کے قلوب و اذہان کی اس کیفیت کی تصویر سورة الاحزاب کی اس آیت میں دکھائی گئی ہے : { مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُز } آیت 23 ”اور اہل ایمان میں کچھ جواں مرد لوگ وہ ہیں جنہوں نے سچا کر دکھایا وہ وعدہ جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا ‘ ان میں وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کرچکے ہیں اور ان میں کچھ وہ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں“۔ گویا اللہ کے ساتھ مذکورہ سودے بیع وشراء کے بعد وہ جواں مرد اپنی جانیں اور اپنے مال اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے مسلسل بےتاب و بےقرار رہتے تھے۔ کسی شاعر نے اس خوبصورت مضمون کو تغزل کے رنگ میں یوں ادا کیا ہے : ؎وبالِ دوشِ ہے سر جسم ِناتواں پہ مگر لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لیے !کہ اے محبوب ! ہم تو اپنے جسم ناتواں پر اپنے سر کے اس ”بوجھ“ کو صرف اس لیے اٹھائے پھر رہے ہیں کہ تو جب چاہے اور جہاں چاہے بس اسی وقت وہیں پر ہم تیری راہ میں اسے قربان کردیں۔ اب تو ہم زندہ ہی اس ”انتظار“ میں ہیں کہ کب تیرا اشارہ ہو اور کب ہم اپنے سر کو کٹوا کر تیری امانت کے اس بوجھ سے سبکدوش ہوں۔ اب رسول اللہ ﷺ کے بعد قیامت تک کے زمانے کے لیے بھی اس لائحہ عمل کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے حضور ﷺ کے بعد اس نوعیت کی بیعت جس کسی کے ہاتھ پر بھی ہوگی وہ حضور ﷺ کا کوئی امتی ہی ہوگا۔ لہٰذا اس کی اطاعت مستقل بالذات اطاعت نہیں ہوگی بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہوگی۔ چناچہ اب اس نوعیت کی بیعت کسی ایسے داعی کے ہاتھ پر ہی ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ کے نام پر کھڑا ہو اور لوگوں کو قرآن اور دین کے نام پر پورے خلوص سے دعوت دے۔ پھر وہ اس دعوت پر لبیک کہنے والے افراد کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ایک جمعیت کی شکل میں منظم کرنے کی کوشش بھی کرے۔ ظاہر ہے ”جمعیت“ کے بغیر اقامت دین کے لیے موثر اور منظم جدوجہد ممکن نہیں۔ جہاں تک جماعت سازی کے طریق کار کا تعلق ہے آج اس کے لیے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ بعض تنظی میں فارم کے ذریعے رکنیت سازی کرتی ہیں ‘ بعض دستخطی مہم چلا کر ممبرز بناتی ہیں۔ کئی جماعتیں اپنے امیر کا انتخاب استصوابِ رائے کے ذریعے سے کرتی ہیں ‘ پھر کہیں دو سال کے لیے امیر منتخب ہوتا ہے اور کہیں چار سال کے لیے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب طریقے جائز اور مباح ہیں ‘ لیکن جماعت سازی کا منصوص ‘ مسنون اور ماثور طریقہ بیعت کا طریقہ ہی ہے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر جب صحابہ کرام رض خندق کھودنے میں مصروف تھے تو وہ سب مل کر بلند آواز میں یہ شعر پڑھتے تھے : نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا 1کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کر رکھی ہے اور اب یہ جہاد جاری رہے گا جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ جماعت سازی کے لیے بیعت کا طریقہ نص ِقرآنی اور نص حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں مختلف مواقع پر صحابہ رض سے بیعت لی۔ حضور ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا سلسلہ بھی بیعت کی بنیاد پر چلا۔ خلیفہ کے انتخاب کے لیے جب طے شدہ طریقہ کار کے مطابق مشاورت ہوجاتی اور ایک فیصلہ کرلیا جاتا تو اس فیصلے پر باقاعدہ اعتماد کا اظہار لوگ بیعت کے ذریعے سے ہی کرتے تھے۔ پھر آگے چل کر جب خلافت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تب بھی حضرت حسین رض اور حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے اپنی اپنی جمعیتوں کی تشکیل بیعت کی بنیاد پر ہی کی تھی۔ حتیٰ کہ دور ملوکیت میں بھی مسلمان بادشاہ عوام سے اعتماد کا ووٹ بھی بیعت کے ذریعے سے ہی لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پچھلی صدی میں مسلمانوں کے اندر جتنی جہادی تحریکیں اٹھیں ان کی رکنیت سازی بھی بیعت کی بنیاد پر کی گئی۔ مثلاً سید احمد بریلوی رح کی سکھوں کے خلاف ‘ مہدی سوڈانی کی انگریزوں کے خلاف اور سنوسیوں کی اطالویوں کے خلاف جہادی تحریکوں کو بیعت کی بنیاد پر ہی منظم کیا گیا۔ صوفیاء کے ہاں بھی اپنے مریدین کے تزکیہ نفس کے لیے ”بیعت ارشاد“ کا سلسلہ رائج ہے۔ بہر حال اقامت دین کی جدوجہد کے لیے تنظیم سازی اور جمعیت ناگزیر ہے ‘ کیونکہ اکیلا چنا تو بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ البتہ کسی داعی کی دعوت پر لبیک کہنے سے پہلے اس کی شخصیت ‘ اس کے معمولات و معاملات ‘ معیارِ تقویٰ ‘ دین و دنیا کے بارے میں اس کے علم و شعور ‘ اقامت دین کے لیے اس کی جدوجہد کے طریق کار وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح سے تحقیق کر لیجیے۔ پھر جب کسی شخصیت کے بارے میں دل مطمئن ہوجائے کہ واقعی وہ اقامت دین کی جدوجہد کے بارے میں مخلص ہے اور باقی ضروری شرائط پر بھی پورا اترتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کا ساتھ دیجیے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کے اندر رہتے ہوئے اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کیجیے کیونکہ ”سمع و اطاعت“ کے بغیر نہ تو کوئی جمعیت قائم ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے بغیر کوئی تنظیم اپنے ہدف کے حصول کے لیے موثر جدوجہد کرسکتی ہے۔
سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
📘 دوسرے رکوع کی یہ آیات صلح حدیبیہ کے بعد حضور ﷺ کے واپسی کے سفر کے دوران نازل ہوئیں ‘ بالکل اسی طرح جس طرح غزوئہ تبوک سے واپسی پر سورة التوبہ کی کچھ آیات نازل ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے تحت بعد میں نازل ہونے والی ان آیات کو پہلے سے جاری سلسلہ کلام کو منقطع کر کے یہاں پر رکھا گیا ہے۔ آیات کے تسلسل میں تقدیم و تاخیر کا بالکل یہی انداز اس سے پہلے ہم سورة التوبہ کے آغاز میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ چناچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ پہلے رکوع کا مضمون یہاں پر منقطع ہو رہا ہے اور اس مضمون کا تسلسل اب تیسرے رکوع کے مضمون کے ساتھ جا کر ملے گا۔آیت 11 { سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ } ”عنقریب آپ ﷺ سے کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے رہ جانے والے تھے دیہاتیوں میں سے“ گویا رسول اللہ ﷺ کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ کے مدینہ پہنچتے ہی اردگرد کے قبائل سے بادیہ نشین آپ ﷺ کے پاس آ آکر عذر پیش کریں گے کہ : { شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا } ”ہمیں مشغول رکھا ہمارے اموال اور اہل و عیال کی دیکھ بھال نے ‘ چناچہ آپ ہمارے لیے استغفار کیجیے۔“ حضور ﷺ نے تمام مسلمانوں پر عمرے کے لیے نکلنا لازم قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن آپ ﷺ نے اعلانِ عام کروایا تھا کہ جو کوئی عمرے کے لیے جاسکتا ہے ضرور چلے۔ بہر حال جو لوگ استطاعت کے باوجود آپ ﷺ کے ساتھ نہیں گئے تھے یہ ان کی منافقت کا ذکر ہے کہ وہ آپ ﷺ کے سامنے اپنی نام نہاد مصروفیات کے بہانے بنائیں گے۔ { یَـقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ } ”یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔“ { قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ لَـکُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ بِکُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ نَفْعًا } ”آپ ﷺ ان سے کہیے کہ کون ہے جو کچھ اختیار رکھتا ہو تمہارے بارے میں اللہ کی طرف سے کچھ بھی اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے یا تمہیں نفع پہنچانے کا ارادہ کرے ؟“ اللہ تعالیٰ کا تمہارے بارے میں نفع یا نقصان کا جو بھی ارادہ ہو وہ تمہاری کسی تدبیر سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اپنے گھروں میں رہ کر تم لوگ اللہ کی تقدیر کو نہیں بدل سکتے تھے۔ تمہارے گھروں میں اگر کوئی خیر آنا تھی تو وہ تمہاری عدم موجودگی میں بھی آسکتی تھی اور اگر کوئی شر تمہارے مقدر میں لکھا تھا تو وہ تمہاری موجودگی میں بھی آسکتا تھا۔ لہٰذا ہمارے ساتھ نہ جانے کے جواز میں تمہارے سب دلائل بےمعنی اور فضول ہیں۔ { بَلْ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا } ”بلکہ جو کچھ تم کرتے رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“ اب وہ بات بتائی جا رہی ہے جو اصل میں ان کے دلوں میں تھی۔
بَلْ ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَنْقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنْتُمْ قَوْمًا بُورًا
📘 آیت 12 { بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓی اَہْلِیْہِمْ اَبَدًا } ”بلکہ تم لوگوں نے یہ گمان کیا کہ اب رسول اور اہل ِایمان اپنے گھر والوں کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے“ تمہارا خیال تھا کہ ان لوگوں کا دماغ چل گیا ہے جو خود چل کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور یہ کہ قریش ِ مکہ انہیں جیتے جی کبھی واپس نہیں آنے دیں گے۔ { وَّزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ } ”اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے بہت برا گمان کیا۔“ { وَکُنْتُمْ قَوْمًام بُوْرًا } ”اور تم ہو ہی تباہ ہونے والے لوگ۔“ اس سے پہلے سورة محمد میں منافقین کے جس طرز عمل کا ذکر ہوا تھا وہ 2 ہجری کا دور تھا جبکہ ابھی قتال کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔ اس دور میں وہ لوگ ”اقدام“ سے متعلق حضور ﷺ کی حکمت عملی کے مقابلے میں صلح جوئی اور امن پسندی کی باتیں کرتے تھے۔ اب ان آیات میں ان کی 6 ہجری کے زمانے کی سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔
وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا
📘 آیت 13 { وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِنَّـآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا } ”اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ رکھے تو ہم نے ان کافروں کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔“
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
📘 آیت 14{ وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔“ { یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ } ”وہ بخشے گا جس کو چاہے گا اور عذاب دے گا جس کو چاہے گا۔“ { وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ”اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِنْ قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
📘 آیت 15 { سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ } ”اے مسلمانو ! عنقریب یہی پیچھے رہنے والے کہیں گے ‘ جب تم لوگغنیمتیں حاصل کرنے کے لیے جائو گے ‘ کہ ہمیں بھی اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں۔“ اس آیت میں فتح خیبر کی طرف اشارہ ہے۔ خیبر یہودیوں کا بہت بڑا گڑھ تھا۔ مسلمانوں سے بد عہدی کی بنا پر جن دو یہودی قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیر کو مدینہ سے نکالا گیا تھا وہ بھی خیبر میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ اس علاقے میں انہوں نے بڑے بڑے قلعے بنا کر عسکری اعتبار سے خود کو بہت مضبوط کرلیا تھا۔ یہ لوگ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے تھے۔ چناچہ صلح حدیبیہ کے بعد جب قریش کی طرف سے جنگ وغیرہ کا کوئی خطرہ نہ رہا تو اگلے ہی سال یعنی 7 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے ان کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت کے ساتھ خیبر پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔ یہاں ان آیات کے ذریعے مسلمانوں کو پیشگی 6 ہجری میں مطلع کیا جا رہا ہے کہ جب اگلے سال تم لوگ خیبر کی طرف پیش قدمی کرو گے تو اس کی فتح کو یقینی سمجھتے ہوئے اور وہاں سے بہت بڑے اموالِ غنیمت کی توقع کرتے ہوئے یہ منافقین بھی اس مہم پر تمہارے ساتھ جانے کے لیے تم سے اجازت مانگیں گے۔ { یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلٰمَ اللّٰہِ } ”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کردیں !“ گویا یہ لوگ اللہ کے اس حکم کو خلافِ واقعہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خیبر کی مہم پر حضور ﷺ کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ ﷺ کے ساتھ گئے تھے اور بیعت ِرضوان میں شریک ہوئے تھے ‘ جیسا کہ آگے آیات 18 ‘ 19 میں بصراحت ارشاد ہوا ہے۔ { قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ } ”آپ ﷺ کہیے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جائو گے ‘ یہ بات اللہ پہلے ہی فرما چکا ہے۔“ ان الفاظ کا اشارہ اسی سورت کی آیات 18 ‘ 19 کی طرف ہے ‘ جو اس سے پہلے نازل ہوچکی تھیں۔ { فَسَیَـقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا } ”اس پر وہ کہیں گے : بلکہ آپ لوگ ہم سے حسد کر رہے ہیں۔“ اس پر وہ آپ لوگوں پر الزام دھریں گے کہ آپ لوگ حسد کی بنا پر ہمیں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے کہ ہم بھی کہیں تمہیں حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت میں حصہ دار نہ بن جائیں۔ { بَلْ کَانُوْا لَا یَفْقَہُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا } ”بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ فہم ہی نہیں رکھتے مگر بہت کم۔“
قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِنْ تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
📘 آیت 16{ قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ } ”ان بدوئوں میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ عنقریب تمہیں بلایا جائے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ مقابلے کے لیے جو بہت طاقتور ہوگی ‘ یا تو تم ان سے قتال کرو گے یا وہ اطاعت قبول کرلیں گے۔“ ان الفاظ میں جنگوں کے اس طویل سلسلے کی طرف اشارہ ہے جو چند سال بعد سلطنت ِروما اور سلطنت ایران کے خلاف شروع ہونے والا تھا۔ گویا یہ انقلابِ محمدی ﷺ کی بین الاقوامی سطح پر پیش قدمی کے بارے میں پیشین گوئی ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کا پورا علاقہ تمہارے زیر تسلط آجانے کے بعد عنقریب تمہارا ٹکرائو سلطنت روما اور سلطنت ِایران کی ایسی افواج سے ہوگا جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور وہ اپنے زمانے کے جدید ترین سامانِ حرب سے لیس ہیں۔ چناچہ اے نبی ﷺ ! آپ ان اعراب سے کہیں کہ توسیع و تصدیر انقلاب کے اس مرحلے میں تم لوگوں کو بھی اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ { فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِکُمُ اللّٰہُ اَجْرًا حَسَنًا } ”تو اس وقت اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں بہت اچھا اجر دے گا۔“ اگر تم لوگ ان معرکوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا دم بھرتے ہوئے اس کے رسول ﷺ کے مشن کے علمبردار بنو گے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا بہت اچھا صلہ پالو گے۔ { وَاِنْ تَتَوَلَّوْا کَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } ”لیکن اگر تم نے اس موقع پر بھی پیٹھ دکھا دی جیسے کہ تم نے پہلے پیٹھ دکھائی تھی تو وہ تمہیں بہت درد ناک عذاب دے گا۔“ یہاں پر یہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجئے کہ { تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ } کے الفاظ میں کسی قوم کے ساتھ مقابلے میں تین ممکنہ صورتوں کا ذکر ہے۔ ”تُقَاتِلُوْنَہُمْ“ میں مخالف فریق کے ساتھ مقابلے اور جنگ کی طرف اشارہ ہے جبکہ ”یُسْلِمُوْنَ“ میں ان کے اسلام لانے یا اطاعت قبول کرنے کی دونوں صورتیں شامل ہیں۔ چناچہ عرب سے باہر مسلمانوں کا جہاں کہیں بھی کوئی معرکہ ہوتا تھا اس میں ان کی طرف سے مخالف فریق کے سامنے یہی تین نکات پیش کیے جاتے تھے۔
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَنْ يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا
📘 آیت 17{ لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ} ”ہاں کسی اندھے پر کوئی تنگی نہیں اور نہ ہی کسی لنگڑے پر اور نہ ہی کسی مریض پر کوئی تنگی ہے۔“ اگر جسمانی لحاظ سے کوئی معذور شخص جہاد میں حصہ نہیں لیتا تو اس کی معذوری کے پیش نظر اس پر اس حوالے سے کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔ { وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } ”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ داخل کرے گا اس کو ان باغات مین جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔“ { وَمَنْ یَّـتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًا } ”اور جو کوئی پیٹھ پھیر لے تو اسے وہ ایک دردناک عذاب سے دوچار کرے گا۔“
۞ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
📘 اب آئندہ آیات میں اسی مضمون کا تسلسل ہے جو پہلے رکوع میں { اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَط } آیت 10 کے الفاظ سے شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حکمت الٰہی کے پیش نظر اس مضمون کا سلسلہ درمیان سے منقطع کرکے بعد میں نازل ہونے والی آیات کو وہاں جگہ دے دی گئی اور اب آیت 18 سے دوبارہ وہی مضمون شروع ہو رہا ہے۔آیت 18 { لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ } ”اللہ راضی ہوگیا اہل ایمان سے جب کہ وہ آپ ﷺ سے بیعت کر رہے تھے ‘ درخت کے نیچے ‘ تو اللہ کے علم میں تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا“ یعنی بیعت کے وقت تو ان کے دلوں میں فقط ذوق شہادت اور جوشِ جہاد تھا۔ صلح کی بات چیت تو ان کی بیعت کے بعد شروع ہوئی تھی۔ { فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا } ”تو اللہ نے ان پر سکینت نازل کردی اور انہیں بدلے میں ایک قریبی فتح بخشی۔“ یہ اشارہ ہے فتح خیبر کی طرف جو حدیبیہ سے واپسی کے بعد جلد ہی ظہور میں آگئی۔ ان الفاظ میں اس امر کی صراحت ہے کہ یہ انعام ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے۔ چناچہ جب رسول اللہ ﷺ صفر 7 ھ میں خیبر پر چڑھائی کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے صرف انہی اصحاب کو ساتھ لیا۔
وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
📘 آیت 19 { وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } ”اور بہت سے اموالِ غنیمت جو وہ حاصل کریں گے۔ اور اللہ زبردست ‘ حکمت والا ہے۔“
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا
📘 آیت 2 { لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ } ”تاکہ اللہ بخش دے آپ کی کوئی کوتاہیاں جو پیچھے ہوئیں اور جو بعد میں ہوئیں“ رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے لفظ ”ذنب“ کی وضاحت کے لیے سورة محمد ﷺ کی آیت 19 کی تشریح ملاحظہ ہو۔ یہاں بھی ذَنْبِکَ آپ کی کوتاہیوں سے مراد وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں جو غلبہ اسلام کی اس جدوجہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمان کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کردی ہے اور آپ ﷺ کے لیے فتح و نصرت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ { وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } ”اور تاکہ اللہ اپنی نعمت کا اتمام فرما دے آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی راہنمائی کرے سیدھے راستے کی طرف۔“ بظاہر اس فقرے سے بھی لفظ ”ذنب“ کی طرح اشکال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو پہلے ہی سیدھی راہ پر تھے بلکہ { وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ } الشوریٰ کا مصداق تھے ‘ اور آپ ﷺ کے تمام اہل ایمان ساتھی بھی پچھلے اٹھارہ برسوں سے سربکف ہو کر اسی راہ ہدایت پر گامزن تھے تو پھر یہاں { وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } کے فرمان کا کیا مفہوم ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کی بہت سی آراء ہیں ‘ جن کی تفصیل بیان کرنا یہاں ممکن نہیں۔ بہر حال میرے نزدیک اس کی توجیہہ وہی ہے جو میں قبل ازیں سورة محمد کی آیت 19 کے ضمن میں لفظ ”ذنب“ کی وضاحت کے حوالے سے بیان کرچکا ہوں کہ اے نبی ﷺ ! آپ اپنے اہل ایمان ساتھیوں کے ساتھ اقامت ِدین کے لیے جو مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں ‘ اس حوالے سے اگر اہل ایمان میں سے کسی سے اب تک کسی قسم کی کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ اس فتح مبین کی برکت سے ایسی تمام کوتاہیوں کی تلافی فرما دے گا۔ اس کے بعد اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے آپ لوگوں کی یہ جدوجہد تیر کی طرح سیدھی اپنے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھے گی اور ”اظہارِ دین حق“ کا عملی مظاہرہ اب بہت جلد دنیا کی نظروں کے سامنے آجائے گا۔ گویا اس مقام پر آپ ﷺ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے۔ جہاں تک آیت زیر مطالعہ میں ”اتمامِ نعمت“ کے وعدے کا تعلق ہے تو اس سے مراد دراصل دین کا اتمام ہی ہے جس کے بارے میں یہ خوشخبری ہم سورة المائدۃ کی آیت 3 میں پڑھ آئے ہیں : { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاط } ”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے ‘ اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمادیا ہے ‘ اور تمہارے لیے میں نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا ہے“۔ البتہ اس اہم مضمون کے درست ادراک کے لیے ضروری ہے کہ دین کے اتمام کی دونوں صورتیں پیش نظر رہیں۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن میں تمام احکامِ دین بیان کردیے گئے اور شریعت مکمل ہوگئی۔ لیکن دین اسلام چونکہ ایک ضابطہ حیات ہے اس لیے عملی طور پر اس کی تکمیل تب ہی ممکن تھی جب اس کے تحت باقاعدہ ایک حکومت قائم ہوتی اور معاشرے کے اندر اس کے تمام قوانین کی تنفیذ کا مظاہرہ اور نمونہ عملی طور پر سامنے آتا۔ اسی کیفیت کا نام دراصل ”اظہارِ دین“ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں تین مقامات التوبۃ : 33 ‘ الفتح : 28 ‘ اور الصف : 9 پر { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } کے الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے ”مقصد“ کے طور پر بیان ہوا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں یہاں خصوصی طور پر اسی ”نعمت“ کے اتمام کی طرف اشارہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ کے ساتھیوں کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے ہم نے آپ ﷺ کو یہ ”فتح مبین“ عطا کردی ہے۔ اب آپ ﷺ کی جدوجہد تیزی کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھے گی اور جزیرہ نمائے عرب میں بہت جلد ”اظہارِ دین حق“ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے آجائے گا۔
وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا
📘 آیت 20 { وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہٰذِہٖ } ”اے مسلمانو ! اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے بہت سے اموالِ غنیمت کا جنہیں تم حاصل کرو گے ‘ پس یہ فتح تو اس نے تمہیں فوری طور پر عطاکر دی ہے“ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ‘ جس کا ذکر سورت کے آغاز میں بایں الفاظ ہوا : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ”یقینا ہم نے آپ ﷺ کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔“ { وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ } ”اور اس نے روک لیا لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے۔“ ظاہر ہے اگر جنگ ہوتی اور قریش بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے تو کچھ نہ کچھ نقصان مسلمانوں کا بھی ضرور ہوتا۔ { وَلِتَـکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَہْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } ”تاکہ یہ اہل ِایمان کے لیے ایک نشانی بن جائے اور وہ تمہاری راہنمائی فرمائے سیدھے راستے کی طرف۔“ تاکہ اس کے بعد اقامت دین کے لیے تمہاری اجتماعی جدوجہد کامیابی کے مراحل جلد از جلد طے کرے اور اللہ تعالیٰ اسے تیر کی طرح سیدھا اس کے آخری ہدف اور منزل مقصود تک پہنچا دے۔
وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا
📘 آیت 21 { وَّاُخْرٰی لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰہُ بِہَا } ”اور کچھ فتوحات اور بھی ہیں جن پر ابھی تمہیں قدرت حاصل نہیں ہوئی ‘ اللہ ان کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔“ یعنی اس کے فوراً بعد تمہیں خیبر کی فتح حاصل ہوگی اور اس کے بعد مکہ بھی فتح ہوجائے گا۔ ان کے علاوہ سرزمین عرب سے باہر بھی بہت سی فتوحات اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے گھیر رکھی ہیں۔ ان فتوحات کے بارے میں دوسرے رکوع آیت 16 میں بھی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ تیسرے رکوع کی یہ آیات دوسرے رکوع کی آیات سے پہلے نازل ہوئی ہیں۔ { وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا } ”اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔“
وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
📘 آیت 22 { وَلَوْ قٰــتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا } ”اور اگر یہ کافر قریش ِمکہ ّتم سے جنگ کرتے تو لازماً پیٹھ پھیر جاتے اور پھر نہ پاتے وہ اپنے لیے کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار۔“
سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
📘 آیت 23 { سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ”یہ اللہ کا وہ دستور ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔“ یعنی یہ اللہ کا قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی مدد کرتا ہے۔ چناچہ اگر قریش مکہ اس موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ جنگ کرتے تو اللہ اپنی سنت کے مطابق آپ لوگوں کی مدد کرتا اور ایسی صورت میں انہیں پیٹھ دکھانا پڑتی اور شکست ان کا مقدر بنتی۔ { وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا } ”اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی۔“
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
📘 آیت 24 { وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ } ”اور وہی ہے جس نے روک دیے ان کے ہاتھ تمہاری طرف بڑھنے سے اور تمہارے ہاتھ ان کی طرف بڑھنے سے مکہ کی وادی میں“ { مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ } ”اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر فتح دے دی تھی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریش ِمکہ ّکے حوصلے پست کردیے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے لیے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور انہوں نے اپنی تمام تر طاقت کے باوجود مسلمانوں کو اپنے برابر کا فریق تسلیم کرتے ہوئے ان سے صلح کرلی۔ اس صلح میں اگلے سال مسلمانوں کے عمرہ کرنے اور اس دوران مکہ شہر کو تین دن کے لیے مکمل طور پر خالی کردینے جیسی شرائط بھی شامل تھیں۔ دیکھا جائے تو قریش مکہ کے لیے مسلمانوں کو اپنا ہم ‘ پلہ ّسمجھتے ہوئے صلح کرنا اور پھر ایسی شرائط تسلیم کرلینا موت کا سامنا کرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ بہر حال اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندرونی طور پر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ وہ یہ سب کچھ قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اس کے مقابلے میں وہ مسلمانوں سے صرف ایک یہ بات منوا سکے کہ اس سال عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں تاکہ وقتی طور پر ان کی ”ناک“ مکمل طور پر کٹنے سے بچ جائے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا } ”اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَنْ يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُؤْمِنَاتٌ لَمْ تَعْلَمُوهُمْ أَنْ تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
📘 آیت 25 { ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ } ”وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں روکے رکھا مسجد ِحرام تک جانے سے اور قربانی کے جانور بھی روکے گئے اپنی جگہ پہنچنے سے۔“ یہ ان جرائم کا تذکرہ ہے جن کا ارتکاب قریش مکہ نے اس پورے واقعے کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو احرام کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کے طواف سے روکا بلکہ ان کے قربانی کے جانوروں کو بھی قربان گاہوں تک نہ پہنچنے دیا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور اس ممکنہ جنگ کو ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں جو حکمت کارفرما تھی اب اس کا ذکر ہو رہا ہے : { وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَطَئُوْہُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ } ”اور اگر نہ ہوتے مکہ میں موجود ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے ‘ اندیشہ تھا کہ تم لوگ انہیں بھی کچل دیتے تو ان کے بارے میں تم پر الزام آتا بیخبر ی میں تو جنگ نہ روکی جاتی۔“ عین موقع پر جنگ کو روکنے میں دراصل یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اس وقت تک مکہ میں بہت سے ایسے اہل ِ ایمان افراد موجود تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے تھے۔ اس میں ضعفاء بھی تھے ‘ مریض بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان لوگوں کا ذکر سورة النساء کے چودھویں رکوع میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی معذوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کر دے گا اور ہجرت نہ کرسکنے کی بنا پر ان سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ چناچہ ایسے لوگوں کی شہر میں موجودگی کی صورت میں جب جنگ کی چکی ّچلتی تو یہ بےگناہ لوگ بھی اس میں پس جاتے اور الٹا مسلمانوں پر ان سے متعلق الزام بھی آتا کہ انہوں نے اپنے ہی اہل ایمان ساتھیوں کو قتل کردیا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ممکنہ جنگ کو روک دیا اور مسلمانوں کو بغیر لڑے صلح کی شکل میں فتح دے دی۔ { لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ } ”جنگ اس لیے روکی گئی تاکہ اللہ داخل کرے اپنی رحمت میں جس کو چاہے۔“ { لَوْ تَزَیَّلُوْا لَـعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } ”اگر وہ اہل ِایمان علیحدہ ہوچکے ہوتے تو ان اہل ّمکہ میں سے جو کافر تھے ان کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیتے۔“ اگر وہ کمزور اور معذور اہل ایمان اس وقت تک مکہ سے نکل چکے ہوتے تو ہم یہ جنگ ہونے دیتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کو ان کے جرائم کی بدترین سزا دلواتے۔
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
📘 آیت 26 { اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ } ”جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت بٹھالی ‘ جاہلیت کی حمیت“ قریش مکہ نے اس موقع پر جس حمیت کا مظاہرہ کیا وہ سراسر حمیت جاہلی تھی۔ ان کے دلوں میں قوم پرستی ‘ آباء پرستی اور روایت پرستی کا تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی تعصب کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو عمرہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو اپنے باپ دادا کے دین سے ِپھر کر ”بےدین“ ہوچکے تھے۔ { فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ } ”تو اللہ نے سکینت نازل کردی اپنے رسول ﷺ پر اور اہل ایمان پر“ { وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا } ”اور اس نے لازم کردیا ان پر تقویٰ کی بات کو اور وہ اس کے زیادہ حق دار بھی ہیں اور اس کے اہل بھی ہیں۔“ { وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا } ”اور اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔“
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
📘 آیت 27 { لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّئْ یَا بِالْحَقِّ } ”اللہ نے اپنے رسول کو بالکل سچا خواب دکھایا حق کے ساتھ۔“ یہ اس خواب کا ذکر ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا قصد فرمایا تھا اور مسلمانوں کو ساتھ چلنے کے لیے ترغیب دی تھی۔ حضور ﷺ نے خواب میں خود کو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے اپنے اس خواب کا تذکرہ صحابہ رض سے سرعام کیا تھا۔ چونکہ رسول کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اس لیے جب صلح حدیبیہ کے نتیجے میں عمرہ اگلے سال پر ملتوی ہوگیا تو ایسی صورت میں حضور ﷺ کے خواب کے بارے میں وضاحت ضروری تھی۔ مبادا کسی کے ذہن میں یہ شبہ جنم لیتا کہ ‘ نعوذ باللہ ‘ حضور ﷺ کا خواب سچا نہیں تھا۔ اس ضمن میں جب حضور ﷺ سے سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو کہا تھا ہم عمرہ کریں گے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ضرور اسی سال کریں گے۔ آیت زیر مطالعہ میں پیشگی خبر دی جا رہی ہے کہ تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے خواب کے عین مطابق عمرہ ادا کرو گے۔ چناچہ اگلے ہی سال 7 ہجری کو آپ ﷺ نے مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ کیا۔ تاریخ میں یہ عمرہ ”عمرۃ القضاء“ کے نام سے مشہور ہے۔ { لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ } ” اے مسلمانو ! تم لازماً داخل ہو گے مسجد الحرام میں ‘ ان شاء اللہ ‘ پورے امن کے ساتھ“ { مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَلا لَا تَخَافُوْنَ } ”اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو ترشواتے ہوئے ‘ اُس وقت تمہیں کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔“ اگلے سال یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ اگلے سال جب مسلمان عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ میں داخل ہوئے تو پورا شہر خالی تھا۔ قریش اپنے گھروں کو چھوڑ کر تین دن کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ اس دوران مسلمان مکہ میں مقیم رہے اور انہوں نے پورے اطمینان سے عمرہ ادا کیا۔ { فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا } ”تو اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے ‘ تو اس کے علاوہ اس نے تمہارے لیے ایک قریب کی فتح بھی رکھی ہے۔“ اس سے فتح خیبر مراد ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آیت 15 کے ضمن میں بھی ہوچکا ہے۔ یعنی اگلے سال جب تم لوگ قضا عمرہ ادا کرنے کے لیے جائو گے تو اس سے پہلے تم یہودیوں کے گڑھ خیبر کو فتح کر کے اس کے غنائم سمیٹ چکے ہو گے۔ اب وہ عظیم آیت آرہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة التوبہ میں آیت 33 بھی پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ الفاظ سورة الصف 28 ویں پارے کی آیت 9 میں بھی آئیں گے۔ سورة التوبہ اور سورة الصف میں یہ آیت جوں کی توں آئی ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت میں اس کا آخری حصہ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا مختلف ہے۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
📘 آیت 28{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } ”وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر“ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی ﷺ کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوع انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے : ؎ نوعِ انساں را پیام آخریں حامل اُو رحمۃ ٌللعالمین ! اقبالؔمزید برآں ان کو سچا اور کامل دین بھی عطا فرمایا ہے ‘ جو عادلانہ نظام زندگی کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } ”تاکہ وہ غالب کر دے اسے ُ کل کے کل نظام زندگی پر۔“ گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت 2 اور آیت 20 میں جس سیدھے راستے صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا کا ذکر ہے وہ راستہ ”اظہارِ دین حق“ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورة الشوریٰ کی آیت 13 میں اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَکے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو ! پھر سورة الشوریٰ کی آیت 21 میں جھوٹے معبودوں کے ابطال کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ”الدِّیْن“ نظامِ زندگی کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کے یہ الفاظ : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُط } ”کیا ان کے لیے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟“ یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے ‘ تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے ؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ”اظہارِدین حق“ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول ﷺ کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ اس ”الدِّین“ کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } ”اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔“ عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ”گواہ“ کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ”مددگار“ ہوگا۔ سورة البقرۃ کی آیت 23 میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے ‘ جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا : { وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ بلا لو اس کام کے لیے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا۔ ”شَھِدَ یَشْھَدُ“ کے معنی کسی موقع یا وقوعہ پر حاضر ہونے کے ہیں۔ ”گواہی“ کے معنی اس لفظ میں اسی حاضری کے مفہوم کی وجہ سے آئے ہیں ‘ کیونکہ کسی واقعے کی صحیح گواہی کا اہل تو وہی شخص ہوسکتا ہے جو وہاں اس وقت موقع پر حاضر ہو۔ جبکہ اسی ”حاضری“ کی وجہ سے اس لفظ میں ”مددگار“ کے معنی بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے آپ کی مدد وہی شخص کرسکے گا جو آپ کے ساتھ موجود ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جو آپ کا بہت اچھا دوست ہو ‘ آپ کے ساتھ مخلص بھی ہو ‘ مگر جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو اس وقت آپ کے پاس موجود ہی نہ ہو تو وہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ چناچہ سیاق وسباق کے اعتبار سے یہاں لفظ شھید کے معنی مددگار کے ہیں۔
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
📘 آیت 29 { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } ”محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں ‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں“ آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ اگر پہلا فقرہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط پر مکمل کردیا جائے اور وَالَّذِیْنَ سے دوسرا فقرہ شروع کیا جائے تو آیت کا مفہوم وہی ہوگا جو اوپر ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔ لیکن اگر پہلے فقرے کو وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ تک پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی ایک وحدت اور ایک جماعت ہیں۔ اس طرح دوسرے فقرے میں بیان کی گئی دو خصوصیات اس جماعت کی خصوصیات قرار پائیں گی۔ یعنی اللہ کے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت شفیق و مہربان ہیں۔ اہل ایمان کی اس شان کا ذکر زیر مطالعہ آیت کے علاوہ سورة المائدۃ آیت 54 میں بھی ہوا ہے۔ وہاں مومنین صادقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا : { اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز } ”وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت بھاری ہوں گے“۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ! یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ آیت بیعت کے تذکرے کے بعد آئی ہے۔ اس ترتیب سے گویا یہ یاددہانی کرانا مقصود ہے کہ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ } کے الفاظ میں جس جماعت کا ذکر ہوا ہے وہ بیعت کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کی سیرت سے جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص آپ ﷺ پر ایمان لاتا ‘ آپ ﷺ اس سے بیعت لیتے تھے ‘ یہ ایمان کی بیعت تھی۔ لیکن سیرت کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہل مکہ میں سے آپ ﷺ نے کسی سے ایمان کی بیعت کبھی نہیں لی ‘ بلکہ اہل مکہ میں سے جو کوئی ایمان لانا چاہتا وہ کلمہ شہادت پڑھتا اور بس حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔ اس کے لیے کسی علامتی اقدام کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہاں اگر کوئی شخص باہر سے آتا تو اس سے آپ ﷺ ایمان کی بیعت لیتے تھے۔ اس کے علاوہ مکی دور میں آپ ﷺ نے دو بیعتوں کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا تھا۔ یعنی بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ۔ ان میں بیعت عقبہ ثانیہ وہ بیعت ہے جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک ”جماعت“ بنے تھے۔ اس بات کی گواہی اس بیعت کے الفاظ بھی دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک متفق علیہ روایت کے مطابق حضرت عبادہ بن صامت رض سے اس طرح نقل ہوئے ہیں : بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ، فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ، وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ، وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا ، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 1”ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل ‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے ‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں ‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے ‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بےخوف رہیں گے۔“ غور کیجئے ‘ اس بیعت کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کس قدر اہم اور سبق آموز ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول ﷺ سے کہ ہم آپ ﷺ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے۔ خواہ مشکل ہو ‘ خواہ آسانی ہو ‘ خواہ اس کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں ‘ خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے…یعنی ہم کبھی شکایت نہیں کریں گے کہ ہم آپ ﷺ کے پرانے ساتھی ہیں جبکہ آپ ﷺ ہمارے اوپر ایک نوواردکو امیر کیوں مقرر کر رہے ہیں ؟ بس یہ آپ ﷺ کا اختیار ہوگا کہ آپ ﷺ جس کو چاہیں امیر مقرر کریں ‘ آپ ﷺ جو فیصلہ چاہیں کریں… اور یہ کہ ہم آپ ﷺ کے مقرر کردہ امیر سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے…اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی بہت واضح ہے : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ 1”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“ اطاعت امیر کے حوالے سے یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جماعتی زندگی میں ”امیر“ صرف ایک نہیں ہوتابل کہ مختلف سطحوں پر اوپر نیچے بہت سے ”اُمراء“ ہوتے ہیں۔ جیسے فوج کا ایک سپہ سالار ہوتا ہے ‘ اس کے نیچے مختلف رجمنٹس ‘ بٹالینز ‘ کمپنیز اور پلاٹونز کے اپنے اپنے کمانڈرز ہوتے ہیں ‘ اسی طرح ایک تنظیم کا ایک مرکزی امیر ہوگا ‘ پھر صوبائی اُمراء ‘ ڈویثرنل امراء ‘ ضلعی امراء ہوں گے اور ان سب امراء کا سلسلہ وار سمع وطاعت کا نظام ہوگا۔ حضور ﷺ کی مذکورہ بیعت کی یہ آخری شق بھی بہت اہم ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔ یعنی مشورہ مانگا جائے گا تو بےلاگ مشورہ دیں گے ‘ اپنی رائے کو چھپا کر نہیں رکھیں گے۔ -۔ اس حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک مامور کی ذمہ داری صرف مشورہ دینے کی حد تک ہے۔ اس کے بعد امیر جو فیصلہ بھی کرے اسے دل و جان سے تسلیم کرنا اس پر لازم ہے ‘ جیسا کہ سورة محمد ﷺ کی آیت 21 کے الفاظ { فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُقف } سے واضح ہوتا ہے کہ جب فیصلہ ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت لازم ہے۔ بہر حال جب منہج ِانقلاب نبوی میں اقدام کا مرحلہ آنے کو تھا ‘ Passive Resistance تبدیل ہورہی تھی Active Resistance میں ‘ تو مسلمانوں میں ایک باقاعدہ جماعت کا نظم وجود میں آیا اور اس نظم کی بنیاد بیعت عقبہ ثانیہ بنی۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ } میں اسی جماعت اور اسی نظم کی طرف اشارہ ہے۔ { تَرٰٹہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًاز } ”تم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے ‘ سجدہ کرتے ہوئے ‘ وہ ہر آن اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں“ { سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ } ”ان کی پہچان ان کے چہروں پر ظاہر ہے سجدوں کے اثرات کی وجہ سے۔“ سجدوں کے نشان سے عام طور پر پیشانی کا گٹہ ّمراد لے لیا جاتا ہے جو بعض نمازیوں کے چہروں پر کثرت سجود کی وجہ سے پڑجاتا ہے۔ لیکن یہاں اس سے اصل مراد ایک نمازی اور متقی مومن کے چہرے کی وہ نورانیت اور خاص کیفیت ہے جو اس کے عمل و کردار کی غمازی کرتی محسوس ہوتی ہے۔ { ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ } ”یہ ہے ان کی مثال تورات میں۔“ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رض کی یہ تمثیل تورات میں بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات اور انجیل میں قطع و برید کر کے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رض کے بارے میں پیشین گوئیوں کو بالکل مسخ کردیا ہے ‘ تاہم آج بھی تورات اور انجیل دونوں میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق نبی آخرالزماں ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کتاب استثناء ‘ باب 33 ‘ آیت 2 ملاحظہ ہو : ”خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ‘ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔“ { وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَـہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ } ”اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی کو نپل ‘ پھر اس کو تقویت دی ‘ پھر وہ سخت ہوئی ‘ پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔“ { یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ } ”یہ کا شتکار کو بڑی بھلی لگتی ہے“ یہ ایک کھیتی کی مثال ہے۔ بیج کو جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اس سے ایک چھوٹی سی نرم و نازک کو نپل پھوٹتی ہے ‘ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے ‘ پھر اس کا تنا بنتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک مضبوط پودے کی صورت میں بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس طرح جب ایک کھیتی کے تمام پودے اپنے جوبن پر ہوں اور فصل خوب لہلہا رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر کاشتکار کا دل بھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ { لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ } ”تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔“ اس آخری جملے میں گویا واضح کردیا گیا کہ اس مثال یا تشبیہہ کے پردے میں جس کھیتی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل صحابہ کرام رض کی جماعت ہے اور اس کھیتی کا کاشتکار خود اللہ کا رسول ﷺ ہے۔ چشم تصور سے اس جماعت کے ماضی میں جھانکیں تو ہمیں چند سال پہلے کا وہ نقشہ نظر آئے گا جب سر زمین مکہ میں دعوت کے بیج سے ایک ایک کر کے اس کھیتی کی نرم و نازک کو نپلیں نمودار ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کو نپلوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بل پر کھڑی ہوسکتیں۔ جناب ابو طالب کے انتقال کے وقت مکہ میں بمشکل ڈیڑھ سو مسلمان تھے۔ خود حضور ﷺ کے قبیلے نے آپ ﷺ سے تعلق توڑ لیا تھا اور قبیلے کی حمایت کے بغیر مکہ میں رہنا بھی بظاہر آپ ﷺ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر آپ ﷺ اپنی دعوت اور تحریک کے متبادل مرکز کی تلاش میں طائف تشریف لے گئے تھے۔ لیکن وہاں سے بہت تکلیف دہ حالت میں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا تھا۔ طائف سے واپسی تک صورت حال اس حد تک گھمبیر ہوچکی تھی کہ آپ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے ایک مشرک مطعم بن عدی کی امان لیناپڑی تھی۔ ایک صورت حال وہ تھی جو ُ کل سرزمین مکہ میں اہل ایمان کو برداشت کرنا پڑی تھی اور ایک منظر یہ تھا جس کا نظارہ آج حدیبیہ کا میدان کر رہا تھا ‘ جہاں چودہ سو یا اٹھارہ سو مجاہدین کی سربکف جمعیت سر کٹانے کے لیے بےتاب و بےقرار تھی۔ ان کا نظم و ضبط ‘ ان کا جذبہ ایثار ‘ بیعت علی الموت کے لیے ان کا جوش و خروش ‘ پھر جنگ کے ٹل جانے اور جانوں کے بچ جانے پر ان کا ملال اور بظاہر دب کر صلح کرنے پر ان کا رنج۔ غرض ان کی ہر ادا نرالی اور ان کا ہر انداز انوکھا تھا۔ یہ تھی وہ کھیتی جو آج حدیبیہ کے میدان میں لہلہاتی ہوئی دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔ اس کھیتی کے جوبن کی اس نرالی شان کو آج ملائکہ مقربین بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوں گے اور اس کے ”نگہبان“ کے اندازِ نگہبانی کی تحسین کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کے ترانے الاپتے ہوں گے۔ ”لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ“ کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اس کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو قرآن حکیم اس کے ایمان کی نفی کر رہا ہے۔ صحابہ رض سے بغض ہو اور دعویٰ ایمان کا ہو تو اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں۔ { وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا } ”اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ مغفرت اور اجر عظیم کا۔“ تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ رض ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرچکے تھے ‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کردیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے ‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہوجائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا ہے ‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلادیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کرلینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ”بین الخوف و الرجاء“ کی کیفیت میں رہے۔
وَيَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا
📘 آیت 3 { وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا } ”اور اللہ آپ کی مدد کرے گا ‘ بہت زبردست مدد۔“ اب آپ ﷺ کی جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مدد شامل ہوگی جسے کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
📘 آیت 4 { ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ } ”وہی ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت نازل کردی تاکہ وہ اضافہ کرلیں اپنے ایمان میں مزید ایمان کا۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت اور طمانیت ہی تھی جس کے باعث صحابہ کرام رض اپنی جانیں قربان کردینے کے فیصلے پر پورے سکون قلب کے ساتھ جازم رہے۔ پھر اسی سکینت کے سہارے صحابہ کرام رض اس کڑے امتحان سے بھی سر خرو ہو کر نکلے جو اس خاص موقع پر انہیں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے حوالے سے درپیش تھا۔ اس موقع پر اصل صورت حال یہ تھی کہ صحابہ رض میں سے کوئی ایک فرد بھی صلح کے حق میں نہیں تھا ‘ لیکن اس کے باوجود اس دوران ان کے نظم و ضبط کا یہ عالم رہا کہ بغیر کسی ایک استثناء کے پوری جماعت نے حضور ﷺ کے حکم پر سر تسلیم خم کردیا۔ بادی النظر میں یہ کہنا ذرا عجیب لگتا ہے کہ ”صحابہ رض میں سے کوئی بھی صلح کے حق میں نہیں تھا“ لیکن تاریخی حقائق بہر حال ایسی ہی صورت حال کی گواہی دیتے ہیں۔ چناچہ سیرت کی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح نامہ پر دستخط ہوجانے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانو ! اب اٹھو ‘ احرام کھول دو اور یہیں پر قربانیاں کر دو ‘ تو آپ ﷺ کے کہنے پر کوئی ایک مسلمان بھی نہ اٹھا۔ آپ ﷺ نے اپنا یہ حکم پھر دہرایا تو پھر بھی کوئی نہ اٹھا۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ لوگو اٹھو ! احرام کھول دو اور قربانی کے جانور ذبح کر دو ‘ تو آپ ﷺ کے تیسری مرتبہ فرمانے پر بھی کوئی تعمیل کے لیے نہ اٹھا۔ بلاشبہ صحابہ رض کا یہ ”توقف“ اضطراری کیفیت کے باعث تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے لیے امتحان کی کوئی صورت ہے ‘ اس کے بعد شاید کوئی نیا حکم آجائے گا اور صورت حال بدل جائے گی۔ دراصل یہ صورت حال صحابہ رض کی سمجھ سے باہر تھی کہ جو احرام انہوں نے حضور ﷺ کی اقتدا میں عمرے کے لیے باندھے ہیں وہ عمرہ ادا کیے بغیر میدانِ حدیبیہ میں ہی کھول دیے جائیں۔ بہر حال حضور ﷺ کے تیسری مرتبہ حکم دینے پر بھی جب کوئی احرام کھولنے کے لیے نہ اٹھا تو آپ ﷺ دل گرفتہ ہو کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رض آپ ﷺ کے ساتھ تھیں۔ جب آپ ﷺ نے تمام صورت حال انہیں بتائی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ ﷺ اپنی زبان مبارک سے کچھ نہ فرمائیں ‘ بس آپ ﷺ اپنا احرام کھول دیں اور قربانی کا جانور ذبح کردیں۔ چناچہ آپ ﷺ کے احرام کھولنے اور جانور ذبح کرنے پر سب مسلمانوں نے احرام کھول دیے اور اپنے اپنے جانور ذبح کردیے۔ صحابہ رض کے مذکورہ رد عمل سے یہ حقیقت بہرحال عیاں ہوتی ہے کہ اس موقع پر وہ سب کے سب ”صلح“ کو خوش آمدید کہنے کے بجائے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے زیادہ ُ پر عزم تھے۔ { وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا } ”اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر تو اللہ ہی کے ہیں۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔“
لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِنْدَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا
📘 آیت 5 { لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ } ”تاکہ وہ داخل کرے اہل ِایمان مردوں اور عورتوں کو ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی ‘ جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے ‘ اور دور کر دے ان سے ان کی برائیوں کو۔“ { وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًا } ”اور یہی ہے اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی۔“
وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
📘 آیت 6 { وَّیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْئِ } ”اور تاکہ اللہ سزا دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں بہت ُ برے گمان رکھنے والے ہیں۔“ یہ الفاظ سورة الاحزاب کی آخری آیت کے الفاظ سے گہری مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں۔ سورة الاحزاب 5 ہجری میں نازل ہوئی تھی جبکہ سورة الفتح 6 ہجری میں۔ { عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ } ”انہی پر مسلط ہے برائی کا دائرہ۔“ یعنی برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ہیں۔ { وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا } ”اور اللہ ان پر غضبناک ہوا ہے اور اس نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ اور وہ بہت بری جگہ ہے لوٹنے کی۔“
وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
📘 آیت 7{ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } ”اور آسمانوں اور زمین کے لشکر ُ کل کے کل اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ اور اللہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔“ آیت 4 کے آخر پر بھی ہو بہو یہی الفاظ آئے ہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ آیت 4 کا اختتام ”علیمًا حکیمًا“ پر ہوتا ہے ‘ جبکہ یہ آیت ”عزیزًا حکیمًا“ پر ختم ہو رہی ہے۔
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
📘 آیت 8 { اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا ‘ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر۔“ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں استغاثہ کے گواہ prosecution witness کے طور پر پیش ہو کر گواہی دیں گے کہ اے اللہ ! تیرا دین جو مجھ تک پہنچا تھا میں نے وہ اپنی امت کے لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ لوگ اس کے بارے میں خود جوابدہ ہیں۔ اس عدالت اور اس میں ہونے والی گواہیوں کا نقشہ سورة النساء میں اس طرح کھینچا گیا ہے : { فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًا۔ } ”تو اس دن کیا صورت حال ہوگی جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور اے نبی ﷺ ! آپ کو لائیں گے ان پر گواہ بنا کر !“
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
📘 آیت 9 { لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ } ”تاکہ اے مسلمانو ! تم ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسول پر اور رسول کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو۔“ { وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا } ”اور تاکہ تم اللہ کی تسبیح کرو صبح وشام۔“ اس آیت کے پہلے حصے میں ایمان کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کا ذکر ہے ‘ اس کے بعد دوسرے فقرے وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ میں ہُ کی دونوں ضمیریں ”رسول ﷺ“ کے لیے ہیں ‘ اور اس کے بعد وَتُسَبِّحُوْہُ میں ہُ کی ضمیر اللہ کے لیے ہے۔