Al-Maaida • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًۭا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَعْفُوا۟ عَن كَثِيرٍۢ ۚ قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌۭ وَكِتَٰبٌۭ مُّبِينٌۭ ﴾
“O followers of the Bible! Now there has come unto you Our Apostle, to make clear unto you much of what you have been concealing [from yourselves) of the Bible, and to pardon much. Now there has come unto you from God a light, and a clear divine writ,”
آیت 15 یٰٓاَ ہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۔ یہاں نور سے مراد نبی اکرم ﷺ کی شخصیت بھی ہوسکتی ہے۔ سورة النساء آیت 174 میں جو فرمایا گیا : وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا اور نازل کردیا ہے ہم نے تمہاری طرف ایک روشن نور وہاں نور سے مراد قرآن ہے ‘ اس لیے کہ حضور ﷺ کے لیے فعل اَنْزَلْنَادرست نہیں۔ لیکن یہاں زیادہ احتمال یہی ہے کہ نور سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ ہے ‘ یعنی آپ ﷺ کی روح پر نور ‘ کیونکہ آپ ﷺ کی روح اور روحانیت آپ ﷺ کے پورے وجود پر غالب تھی ‘ چھائی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کو نور مجسم بھی کہا جاسکتا ہے۔ گویا آپ ﷺ کو استعارۃً نور کہا گیا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نور بھی قرآن پاک ہی کو کہا گیا ہو اور و اس میں واؤ تفسیری ہو۔ اس صورت میں مفہوم یوں ہوگا : آگیا ہے تمہارے پاس نور یعنی کتاب مبین۔