Al-Maaida • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ ٱلَّذِينَ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْكُفْرِ مِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا بِأَفْوَٰهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ ٱلَّذِينَ هَادُوا۟ ۛ سَمَّٰعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّٰعُونَ لِقَوْمٍ ءَاخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ مِنۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهِۦ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَٱحْذَرُوا۟ ۚ وَمَن يُرِدِ ٱللَّهُ فِتْنَتَهُۥ فَلَن تَمْلِكَ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَمْ يُرِدِ ٱللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌۭ ۖ وَلَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ﴾
“O APOSTLE! Be not grieved by those who vie with one another in denying the truth: such as those who say with their mouths, "We believe," the while their hearts do not believe; and such of the Jewish faith as eagerly listen to any falsehood, eagerly listen to other people without having come to thee [for enlightenment]. They distort the meaning of the [revealed] words, taking them out of their context, saying [to themselves], "If such-and-such [teaching] is vouchsafed unto you, accept it; but if it is not vouchsafed unto you, be on your guard!" [Be not grieved by them-] for if God wills anyone to be tempted to evil, thou canst in no wise prevail with God in his behalf. It is they whose hearts God is not willing to cleanse. Theirs shall be ignominy in this world, and awesome suffering in the life to come-”
آیت 41 یٰٓاَ یُّہَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ج۔ آپ ﷺ ان لوگوں کی سرگرمیوں اور بھاگ دوڑ سے غمگین اور رنجیدۂ خاطر نہ ہوں۔وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا ج سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لا لَمْ یَاْتُوْکَ ط یعنی ایک تو یہ لوگ اپنے شیاطین کی جھوٹی باتیں بڑی توجہ سے سنتے ہیں ‘ جیسے سورة البقرۃ آیت 14 میں فرمایا : وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ لا قالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُ وْنَ پھر یہ لوگ ان کی طرف سے جاسوس بن کر مسلمانوں کے ہاں آتے ہیں کہ یہاں سے سن کر ان کو رپورٹ دے سکیں کہ آج محمد ﷺ نے یہ کہا ‘ آج آپ ﷺ کی مجلس میں فلاں معاملہ ہوا۔ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ کا ترجمہ دونوں طرح سے ہوسکتا ہے : دوسری قوم کے لوگوں کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں یا سنتے ہیں دوسری قوم کے لوگوں کے لیے یعنی انہیں رپورٹ کرنے کے لیے ان کے جاسوس کی حیثیت سے۔ ان کے جو لیڈر اور شیاطین ہیں ‘ وہ آپ ﷺ کے پاس خود نہیں آتے اور یہ جو بین بین کے لوگ ہیں یہ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں اور ان کے ذریعے سے جاسوسی کا یہ سارا معاملہ چل رہا ہے۔یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ ج یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا ط اہل کتاب کے سرداروں کو اگر کسی مقدمے کا فیصلہ مطلوب ہوتا تو اپنے لوگوں کو رسول ‘ اللہ ﷺ کے پاس بھیجتے اور پہلے سے انہیں بتا دیتے کہ اگر فیصلہ اس طرح ہو تو تم قبول کرلینا ‘ ورنہ رد کردینا۔ واضح رہے کہ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست اور پورے طور پر ایک ہمہ گیر اسلامی حکومت دراصل فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی اور یہ صورت حال اس سے پہلے کی تھی۔ ورنہ کسی ریاست میں دوہرا عدالتی نظام نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ لوگ جب چاہتے اپنے فیصلوں کے لیے حضور ﷺ کے پاس آجاتے اور جب چاہتے کسی اور کے پاس چلے جاتے تھے۔ گویا بیک وقت دو متوازی نظام چل رہے تھے۔ اسی لیے تو وہ لوگ یہ کہنے کی جسارت کرتے تھے کہ یہ فیصلہ ہوا تو قبول کرلینا ‘ ورنہ نہیں۔وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط اور جس کو اللہ ہی نے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو تو تم اس کے لیے اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔