Al-Maaida • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا۟ بِمَا قَالُوا۟ ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًۭا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَٰنًۭا وَكُفْرًۭا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٰوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُوا۟ نَارًۭا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًۭا ۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ ﴾
“And the Jews say, "God's hand is shackled!" It is their own hands that are shackled; and rejected [by God] are they because of this their assertion. Nay, but wide are His hands stretched out: He dispenses [bounty] as He wills. But all that has been bestowed from on high upon thee [O Prophet] by thy Sustainer is bound to make many of them yet more stubborn in their overweening arrogance and in their denial of the truth. And so We have cast enmity and hatred among the followers of the Bible, [to last] until Resurrection Day; every time they light the fires of war, God extinguishes them; and they labour hard to spread corruption on earth: and God does not -love the spreaders of corruption.”
آیت 64 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ ط۔ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی رحمت جو ہمارے لیے تھی وہ بند ہوگئی ہے ‘ نبوت کی رحمت ہمارے لیے مختص تھی اور اب یہ دست رحمت ہماری طرف سے بند ہوگیا ہے۔ یا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے جو منافقین کہا کرتے تھے کہ اللہ ہم سے قرض حسنہ مانگتا ہے تو گویا اللہ فقیر ہوگیا ہے نعوذ باللہ اور ہم اغنیاء ہیں۔ جواب میں فرمایا گیا :غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں یا بندھ جائیں ان کے ہاتھ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا 7 بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآءُ ط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ط یعنی ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت پر مبنی اس کلام کی مخالفت شروع کردی ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسے جیسے جو جو احسانات بھی آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر ہو رہے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو غنیمتیں دے رہا ہے ‘ دین کو رفتہ رفتہ جو غلبہ حاصل ہو رہا ہے ‘ اس کے حسد کے نتیجے میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد تو خاص طور پر عرب کے اندر بہت تیزی کے ساتھ صورتحال بدلنی شروع ہوگئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ یہ لوگ سمجھ جاتے کہ واقعی یہ اللہ کی طرف سے حق ہے اور یک سو ہو کر اس کا ساتھ دیتے ‘ ان کے اندر کی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ لا جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے یہودی اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے۔ خاص طور پر غزوۂ احزاب تو ان ہی کی سازشوں کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ مدینے کے یہودی قبائلِ عرب کے پاس جا جا کر ‘ اِدھر ادھر وفد بھیج کر لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ آؤ تم باہر سے حملہ کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ ان کی انہی سازشوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔