Al-Qamar • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَكَذَّبُوا۟ وَٱتَّبَعُوٓا۟ أَهْوَآءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍۢ مُّسْتَقِرٌّۭ ﴾
“for they are bent on giving it the lie, being always wont to follow their own desires. Yet everything reveals its truth in the end.”
آیت 3 { وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ”اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی“ { وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۔ } ”اور اللہ کا ہر امر ایک وقت ِمعین کے لیے قرار پا چکا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی میں ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی کام اللہ کے طے شدہ وقت سے نہ تو پہلے انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے موخر ہوسکتا ہے۔ انسان کا کام ہے کہ وہ کوشش کرتا رہے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔ جیسے یہ طے شدہ امر ہے کہ اللہ کے دین کا غلبہ دنیا میں ہو کر رہے گا ‘ مگر اللہ کی مشیت میں اس کے لیے کون سا وقت مقرر ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اقامت دین کی جدوجہد کو فرضِ عین اور اپنی اخروی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہیں۔ سیرت ِنبوی ﷺ سے اس جدوجہد کے منہج کو سمجھیں ‘ اس کے آداب سیکھیں ‘ اس کی شرائط معلوم کریں اور پورے خلوص نیت کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں۔ اس محنت اور جدوجہد کے دوران ہمیں نتائج کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تو یہ محنت اللہ کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اگر ہماری اس محنت کے نتائج ہماری زندگیوں میں ظاہر نہیں ہوتے تو کوئی پروا نہیں ‘ ہم دین کو غالب کرنے کے مکلف نہیں ‘ ہم تو صرف اس کے لیے جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خلوص نیت سے اس راستے میں محنت کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ اس فلسفے کو اچھی طرح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے اقامت دین کی جدوجہد میں لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ جب ان کی جدوجہد کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے تو وہ عجلت اور بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے الٹے سیدھے طریقے اپناتے ہیں۔ ایسی ہی غلطیوں سے تحریکیں غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں اور اس وجہ سے دین الٹا بدنام ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کے دوران غور و فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ حضور ﷺ کے بعد اب نہ تو کوئی شخصیت معصوم عن الخطا ہے اور نہ ہی کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی مل سکتی ہے۔ ظاہر ہے اب یہ کام اجتہاد اور غور و فکر سے ہی چلنا ہے اور اجتہاد میں غلطی کا ہر وقت امکان رہتا ہے۔ چناچہ انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانوں سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکان کے پیش نظر فیصلوں پر نظر ثانی کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے اور اس کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار بھی رہنا چاہیے۔