slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الرحمن

(Ar-Rahman) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الرَّحْمَٰنُ

📘 آیت 1 { اَلرَّحْمٰنُ۔ } ”رحمن نے“

وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ

📘 آیت 10 { وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ۔ } ”اور زمین کو اس نے بچھا دیا مخلوق کے لیے۔“ ظاہر ہے مخلوق میں انسان بھی شامل ہیں اور جنات بھی۔ نوٹ کیجیے کہ پہلے آسمان ‘ سورج اور چاند کا ذکر ہوا ہے اور اب زمین کا۔ گویا ترتیب تدریجاً اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہے۔

فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ

📘 آیت 1 1 { فِیْہَا فَاکِہَۃٌ لا وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ۔ } ”اس میں میوے ہیں اور کھجوریں ہیں ‘ جن پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔“

وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ

📘 آیت 12 { وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّیْحَانُ۔ } ”اور ُ بھس والا اناج بھی ہے اور خوشبودار پھول بھی۔“ بعض مترجمین ”الرَّیْحَان“ سے مختلف النوع غذائیں بھی مراد لیتے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 13 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں گروہ اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“ عام طور پر اٰلَآئِ کا ترجمہ ”نعمتیں“ کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس لفظ میں نعمتوں کے ساتھ ساتھ قدرتوں کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ اس سورت میں بھی اس لفظ سے کہیں اللہ کی نعمتیں مراد ہیں اور کہیں اس کی قدرتیں۔ تُکَذِّبٰنِ تثنیہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت میں جنوں اور انسانوں سے مسلسل ایک ساتھ خطاب ہو رہا ہے۔ آگے چل کر آیت 33 میں یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے خطاب سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ 1

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ

📘 آیت 14 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ۔ } ”اس نے پیدا کیا انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے۔“ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے حوالے سے سورة الحجر کے تیسرے رکوع میں تین مرتبہ { صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 4 } کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد ایسا گارا ہے جس میں سڑاند پیدا ہوچکی ہو ‘ یعنی سنا ہوا گارا۔ ایسا گارا خشک ہونے پر سخت ہوجاتا ہے اور ٹھوکر لگنے سے کھنکنے لگتا ہے۔ یہاں پر صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِسے ایسا ہی سوکھا ہوا گارا مراد ہے ‘ یعنی ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتا ہوا گارا۔

وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ

📘 آیت 15 { وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ } ”اور جنات کو اس نے پیدا کیا آگ کی لپٹ سے۔“ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍسے آگ کی لویا لپٹ مراد ہے۔ اس کا اطلاق آگ کے شعلے کے اس حصے پر ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن انتہائی گرم ہوتا ہے۔ شعلے کے اندر سب سے زیادہ درجہ حرارت اسی نظر نہ آنے والے حصے میں ہوتا ہے۔ سورة الحجر کی آیت 27 میں آگ کی اس لپٹ کو نَارِ السَّمُوْمِ کا نام دیا گیا ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 16 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ

📘 آیت 17{ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ۔ } ”وہ ربّ ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا۔“ یہاں پر رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ اور رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ تثنیہ کے اس صیغہ کی مناسبت سے آیا ہے جو پوری سورت میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں { رَبُّ الْمَشْرِقِِ وَ الْمَغْرِبِ } المُزَّمل : 9 اور { رَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ } المعارج : 40 کی تراکیب بھی آئی ہیں۔ بہرحال واحد ‘ تثنیہ اور جمع کے یہ تینوں صیغے اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ واحد کے صیغے میں مشرق اور مغرب تو معروف عام ہیں۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے تصور کو یوں سمجھیں کہ ایک وقت میں سورج جہاں سے طلوع ہو رہا ہے گلوب کی دوسری طرف وہیں پر وہ غروب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح جس نقطے پر سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے دوسری طرف اسی جگہ سے طلوع ہوتابھی دکھائی دیتا ہے۔ گویا سورج طلوع ہونے کا ہر نقطہ مقام غروب بھی ہے اور اسی طرح ہر مقام غروب گویا مقام طلوع بھی ہے۔ اس لحاظ سے گویا مشرق بھی دو ہیں اور مغرب بھی دو۔ پھر کسی ایک مقام سے بظاہر نظر آنے والے مشرق و مغرب کے درمیان زمین پر ہر ہر نقطہ گلوب میں کسی کے لیے مقام طلوع ہے اور کسی کے لیے مقام غروب۔ اس طرح گویا بہت سے مشرق ہیں اور بہت سے مغرب۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 18 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ

📘 آیت 19 { مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔ } ”اس نے چلا دیے دو دریا جو آپس میں ملے ہوئے بھی ہیں۔“

عَلَّمَ الْقُرْآنَ

📘 آیت 2 { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ } ”قرآن سکھایا۔“ رحمن ‘ اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے۔ اس کا مادہ ”رحم“ ہے اور یہ فَعلان کے وزن پر ہے۔ اس وزن پر جو الفاظ آتے ہیں ان کے مفہوم میں بہت زیادہ مبالغہ پایاجاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے دو مرتبہ الاعراف : 150 اور طٰہ : 86 غَضْبان کا لفظ آیا ہے ‘ یعنی غصے سے بہت زیادہ بھرا ہوا۔ اسی طرح اَنَا عَطْشَان کا مطلب ہے کہ میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں اور اَنَا جَوْعَان : بھوک سے میری جان نکلی جا رہی ہے۔ چناچہ لغوی اعتبار سے رحمن کے مفہوم میں ایک طوفانی شان پائی جاتی ہے لفظ ”طوفان“ بھی اسی وزن پر ہے ‘ اس لیے اس لفظ کے مفہوم میں بھی مبالغہ پایاجاتا ہے۔ اس مفہوم کو ہم اپنی زبان میں اس طرح ادا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ رحمن وہ ذات ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہے۔ اس کی رحمت تمام مخلوقات کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ کسی مخلوق کا کوئی فرد بھی اس کی رحمت سے مستغنی نہیں۔ خاص طور پر بنی نوع انسانی تو دنیا میں بھی اس کی رحمت کی محتاج ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص صرف اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت میں نہیں جاسکے گا جب تک کہ رحمت خداوندی اس کی دستگیری نہ کرے۔ اس پر صحابہ رض نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وَلَا اَنَا ‘ اِلاَّ اَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَرَحْمَۃٍ 1 ”ہاں میں بھی نہیں ‘ اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے“۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں رحمن چوٹی کا نام ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں میں چوٹی کا نام رحمن ہے ‘ اسی طرح اللہ نے انسان کو جو علم سکھایا ہے اس میں چوٹی کا علم قرآن ہے۔ اکتسابی علم acquired knowledge میں تو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق انسان رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو الہامی علم revealed knowledge عطا ہوا ہے اس میں چوٹی کا علم قرآن ہے ‘ جو ہر قسم کے تمام علوم کا نقطہ عروج ہے۔

بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ

📘 آیت 20 { بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۔ } ”لیکن ان کے مابین ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔“ دونوں دریا باہم مل کر چلتے ہیں لیکن ایک دوسرے میں گھستے نہیں ‘ اپنی اپنی حد میں رہتے ہیں۔ جیسے ٹھنڈے پانی کے سمندروں میں گرم پانی کی روئیں بہتی ہیں اور کھاری سمندروں میں میٹھے پانی کی روئیں بہتی ہیں۔ اسی طرح کئی دریا باہم ملتے ہیں لیکن دور تک الگ الگ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں دریائے کابل کا پانی جب دریائے سندھ میں ملتا ہے تو بہت دور تک دونوں پانی اپنے رنگ کی وجہ سے الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اٹک کے پل پر کھڑے ہو کر دونوں پانیوں کا الگ الگ رہتے ہوئے ایک ساتھ چلنے کا یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی منظر مظفر آباد کے قریب ”دومیل“ کے مقام پر نظر آتا ہے جہاں دریائے نیلم دریائے جہلم میں ملتا ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 21 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ

📘 آیت 22 { یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۔ } ”ان دونوں سے نکلتے ہیں موتی بھی اور مونگے بھی۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 23 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

📘 آیت 24{ وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْْبَحْرِکَالْاَعْلَامِ۔ } ”اور اسی کے ہیں یہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی مانند اونچے اٹھے ہوئے ہیں۔“ یعنی اسی کی قدرت کا نمونہ ہیں اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پچھلے زمانے کے جہاز اگرچہ دور جدید کے جہازوں کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے تھے ‘ لیکن جب ان کے بادبان کھلتے تھے تو وہ بھی اونچائی میں پہاڑوں جیسے نظر آتے تھے۔ اور آج کل کے جہاز تو واقعتا پہاڑوں سے مشابہ ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 25{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کو جھٹلائو گے ؟“ یہاں ایک دفعہ پھر نوٹ کرلیں کہ سورت کے آغاز سے لے کر اب تک جو آیات ہم نے پڑھی ہیں ان میں پہلے قرآن کی عظمت کا ذکر آیا ہے اور اس کے بعد اللہ کی صناعی اور اس کی قدرتوں کا بیان ہے۔ ابتدائی آیات میں انسان کی قوت بیان کے تذکرے کے ساتھ قرآن کی عظمت کا ذکر کر کے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اس کی اس صلاحیت کا بہترین مصرف یہی ہے کہ وہ قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس کی مزید وضاحت نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان میں ملتی ہے : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ کہ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔ بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں کو بہترین طور پر صرف کرے۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں اسی جذبے کو ترغیب و تحریک دی گئی ہے :اگر یک قطرہ خوں داری ‘ اگر مشت ِپرے داری بیا من با تو آموزم طریق شاہبازی را !کہ اے ننھی چڑیا ! اگر تیرے پاس چند َپر ہیں اور ایک قطرئہ خون بھی ہے تو میرے پاس آئو ‘ میں تجھے شاہین کی سی اڑان کا طریقہ سکھا دوں ! جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ یہ موضوعات قرآن کی عظمت اور اللہ کی صناعی کابیان ہم سورة الواقعہ میں بھی پڑھیں گے ‘ لیکن وہاں ان کی ترتیب سورة الرحمن کے مضامین کی ترتیب کے بالعکس ہے۔ یعنی قرآن کی عظمت کا بیان جو سورة الرحمن کے آغاز میں ہے سورة الواقعہ میں بالکل آخر پر ہے۔ پھر سورة الرحمن میں اللہ کی خلاقی و صناعی کا ذکر عظمت قرآن کے بعد ہے جبکہ سورة الواقعہ میں یہ موضوع عظمت قرآن کے ذکر سے پہلے بیان ہوا ہے۔ یعنی دونوں سورتوں میں ایک جیسے موضوعات بیان ہوئے ہیں لیکن معکوس ترتیب سے۔ اس ترتیب کو قبل ازیں mirror image کا نام دیا گیا ہے۔

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ

📘 آیت 26{ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ } ”جو کوئی بھی اس زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔“

وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

📘 آیت 27{ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ۔ } ”اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی اور بہت عظمت والا ہے۔“ اللہ کے چہرے کا تصور ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اس لحاظ سے اگرچہ یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے لیکن اس کا عمومی مفہوم بالکل واضح ہے کہ باقی رہنے والی صرف ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے ‘ جس کے علاوہ ہرچیز فنا ہونے والی ہے۔ اس کائنات کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور ان میں کوئی ایک مخلوق بھی ایسی نہیں جو اپنے بل پر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہو۔ ہرچیز اور ہر مخلوق کا وجود اللہ تعالیٰ کی منشاء ومرضی کا مرہونِ منت ہے۔ جب تک وہ چاہتا ہے کسی چیز کا وجود برقرار رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اسے فنا کردیتا ہے۔ جیسا کہ سورة القصص کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے : { کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗط لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ } ”ہرچیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے۔ فرمان روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 28{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟

يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ

📘 آیت 29{ یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط } ”اسی سے مانگتا ہے جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے اللہ ہی کے در کی سوالی ہے۔ ہر کسی کو وجود بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ ہر زندہ وجود کی زندگی بھی اسی کی دین ہے ‘ کسی مخلوق میں اگر کوئی صلاحیت ہے تو وہ بھی اسی کی بخشی ہوئی ہے اور تمام مخلوقات کے ایک ایک فرد کی ضرورتوں کا خبرگیر ونگہبان بھی وہی ہے۔ اس حوالے سے سورة محمد کی آیت 38 کے یہ الفاظ بہت واضح ہیں : { وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُج } کہ اللہ غنی اور بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ یعنی تمہارا وجود ‘ تمہاری زندگی ‘ تمہاری صلاحیتیں ‘ غرض تمہارا سب کچھ اسی کا عطا کردہ ہے۔ تم اپنے تمام تر وسائل سے بس وہی کچھ کرسکتے ہو جس کی وہ اجازت دیتا ہے اور صرف اسی قدر جان سکتے ہو جس قدر وہ چاہتا ہے۔ اس کی مخلوق کے تمام افراد پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے : { وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلاَّ بِمَا شَآئَج } البقرۃ : 255 کہ وہ سب کے سب اس کے احاطہ علم میں مقید و محصور ہیں اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ‘ مگر اسی قدر جس قدر وہ چاہتا ہے۔ { کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ۔ } ”ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔“ ہر دن اس کی ایک نئی شان کا ظہور ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر امر کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورة السجدۃ میں بایں الفاظ آیا ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ } ”وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ امر چڑھتا ہے اس کی طرف ‘ یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے ایک دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار برس ہے“۔ یعنی کائنات اور مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فارغ ہو کر نہیں بیٹھ گیا ‘ بلکہ اس کائنات کے نظام اور ارض و سماء میں پھیلی ہوئی مخلوقات سے متعلق تمام امور کو وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی تدبیر سے چلا رہا ہے۔ اس تدبیر کی منصوبہ بندی کے لیے اس کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ چناچہ اس کے ہاں ایک ایک دن کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ‘ اہم فیصلے کیے جاتے ہیں ‘ احکام جاری ہوتے ہیں ‘ ان احکام کی تعمیل و تنفیذ عمل میں لائی جاتی ہے اور پھر جائزہ رپورٹیں اسے پیش کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر دن کے لیے اس کی نئی شان ہے اور نئی مصروفیات !

خَلَقَ الْإِنْسَانَ

📘 آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ”اسی نے انسان کو بنایا۔“ اس سلسلے کا تیسرا اہم نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج climax انسان ہے۔ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے عالم ِامر اور عالم خلق تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة النحل ‘ آیت 40 کی تشریح دونوں کو جمع فرما دیا ہے۔ اسی لیے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا : { خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } ص : 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 30{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کو جھٹلائو گے ؟“

سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ

📘 آیت 31{ سَنَفْرُغُ لَـکُمْ اَیُّـہَ الثَّقَلٰنِ۔ } ”ہم جلد ہی فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے ‘ اے دو بھاری قافلو !“ اس آیت میں اشارۃً اور آگے آیت 33 میں باقاعدہ نام لے کر تثنیہ تُکَذِّبٰن کے صیغے کی وضاحت کردی گئی کہ اے جن وانس کے قافلوں کے افراد ! ہم تم سے مخاطب ہیں۔ یاد رکھو ! تم دونوں گروہ اپنے اعمال کے لیے ہمارے سامنے جواب دہ ہو۔ یاد رکھو ! ہم اس کائنات کو ”مہلت“ کے اصول پر چلا رہے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے کائنات کی ایک عمر { اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی } مقرر کر رکھی ہے ‘ اسی اصول کے تحت ہر قوم کو بھی ہم ایک وقت معین تک مہلت دیتے ہیں : { لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌج } الاعراف : 34 اور ہر فرد کو بھی۔ چناچہ ہماری عطا کردہ مہلت سے تم یہ مت سمجھو کہ تمہارا احتساب نہیں ہوگا ‘ بلکہ ہم عنقریب تم سب لوگوں کو اپنے حضور حاضر کرنے والے ہیں ‘ جہاں تمہیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 32{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا ۚ لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ

📘 آیت 33{ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط } ”اے گروہ جن و انس ! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل بھاگوتو نکل بھاگو۔“ { لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۔ } ”تم نکل نہیں سکو گے مگر اللہ کی سند کے ساتھ۔“ یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے۔ جب تک کائنات cosmos کی وسعتوں کے بارے میں انسان کا علم مزید ترقی نہیں کرجاتا ‘ اس آیت کا مفہوم شاید ہم پوری طرح سمجھ نہ پائیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک انسان زمین کی ”حدود“ سے نکل کر نظام شمسی کے کسی ایک سیارے تک بھی رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ اس کی اس رفتار سے تو یہی لگتا ہے کہ نظام شمسی کی وسعتوں تک بھی اس کی رسائی کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ جہاں تک اس معاملے میں جنوں کی ”استطاعت“ کا تعلق ہے اس کے بارے میں قبل ازیں سورة الحجر کی آیت 17 کے ضمن میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ وہ نظام شمسی کی حدود کے اندر آسانی سے گھوم پھر سکتے ہیں ‘ لیکن نظام شمسی کی حدود کو پھلانگنے کی استطاعت وہ بھی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی وسعتوں کا عالم یہ ہے کہ ان وسعتوں کے اندر خو دنظامِ شمسی کی حیثیت ایک نقطے کی سی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں گروہ جن و انس کی اس بےبسی اور بےبضاعتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کی طرف آیت زیر مطالعہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں جب آسمانوں اور زمین کا ذکر آتا ہے تو اس سے پوری کائنات مراد ہوتی ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ یہاں پوری کائنات کے کناروں سے نکل بھاگنے کے معنی معدوم ہونے کے ہیں۔ جیسا کہ قیامت کے دن عذاب کے مستحق لوگ خواہش کریں گے : { یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُط وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا۔ } النسائ ”اس دن تمنا کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی کہ کاش ان کے سمیت زمین برابرکردی جائے۔ اور وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپا نہیں سکیں گے“۔ لیکن ہمارا یہ وجود چونکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر یہ معدوم بھی نہیں ہوسکتا۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم میرے خیال میں یہ ہے کہ تم لوگ اگر معدوم بھی ہونا چاہو تو اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ایسا نہیں کرسکو گے۔ واللہ اعلم !

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 34{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ

📘 آیت 35{ یُرْسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍلا وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِ۔ } ”تم پر پھینکے جائیں گے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے اور دھواں ‘ تو تم لوگ بدلہ نہیں لے سکو گے۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 36{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ

📘 آیت 37{ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ۔ } ”پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور ہوجائے گا گلابی ‘ تیل کی تلچھٹ جیسا۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 38{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ

📘 آیت 39{ فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ۔ } ”تو اس روز پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی ‘ نہ کسی جن سے اور نہ انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں۔“ اگرچہ سوال و جواب بھی ہوں گے اور ایک ایک عمل کا حساب بھی ہوگا ‘ لیکن چونکہ ہر انسان اپنے اندرونی احوال کو خوب سمجھتا ہے : { بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ } القیامۃ اس لیے میدانِ حشر میں ہر شخص کا چہرہ ہی گویا اس کے انجام کی خبر دے رہا ہوگا۔ اس کیفیت کا نقشہ قرآن میں جابجا دکھایا گیا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے ‘ جبکہ کچھ چہروں پر مردنی چھارہی ہوگی۔ اس کیفیت کی عملی مثال ہمارے ہاں اسکولوں کے سالانہ نتائج کے اعلان کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہے۔ چونکہ ہر طالب علم کو امتحان کے دوران اپنی کارکردگی کے بارے میں پہلے سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس لیے نتائج کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی ہر ایک کا نتیجہ اس کے چہرے پر سے پڑھا جاسکتا ہے۔

عَلَّمَهُ الْبَيَانَ

📘 آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ”اس کو بیان سکھایا۔“ یعنی اسے بولنا سکھایا ‘ اسے گویائی کی صلاحیت بخشی۔ آیات زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتوں میں سے جو چوٹی کی صلاحیت ہے وہ قوت بیان گویائی ہے۔ آج میڈیکل سائنس کی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انسان کی قوت گویائی کا تعلق اس کے دماغ کی خصوصی بناوٹ سے ہے۔ سائنس کی زبان میں تو انسان بھی حیوان ہی ہے ‘ لیکن اس کے بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے حیوانِ ناطق بولنے والا حیوان کہا گیا ہے۔ دماغ تو ظاہر ہے انسان سمیت تمام جانوروں میں موجود ہے ‘ لیکن ہر جانور کے دماغ کی بناوٹ اور صلاحیت مختلف ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا دماغ تمام حیوانات کے دماغوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں ایسی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں جو کسی اور جانور کے دماغ میں نہیں ہیں۔ بہرحال استعداد کے حوالے سے حیوانی دماغ کی بناوٹ نچلی سطح سے ترقی کر کے گوریلوں اور چیمپنزیز champenzies کے دماغ کی سطح تک پہنچتی ہے ‘ اور پھر اس ترقی کی معراج انسان کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ کے مختلف حصے ہیں ‘ مثلاً سماعت سے متعلقہ حصہ ‘ بصارت سے متعلقہ حصہ وغیرہ۔ حواس آنکھ ‘ کان وغیرہ سے حاصل ہونے والی معلومات پہلے دماغ کے متعلقہ حصے میں جاتی ہیں اور پھر وہاں سے gray matter کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہیں۔ لیکن انسانی دماغ کا سب سے اہم اور بڑا حصہ speech centre ہے ‘ اور پھر اس میں بھی کلام کے فہم اور ابلاغ سے متعلق دو الگ الگ حصے ہیں ‘ یعنی ایک حصے میں دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت ہے جبکہ دوسرا حصہ دوسروں تک بات پہنچانے سے متعلق ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے ‘ لیکن قوت گویائی کے علاوہ انسان کی باقی تقریباً تمام صلاحیتیں کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی درجے میں دوسرے حیوانات کو بھی ملی ہیں ‘ بلکہ بعض حیوانات کی بعض صلاحیتیں تو انسان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ بعض جانوروں کی بصارت ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ تیز ہے ‘ کئی جانور اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جبکہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہیں۔ گھوڑے کی قوت سماعت انسان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ چناچہ ذرا سی آہٹ پر گھوڑے کے کان antenna کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جبکہ ُ گھڑ سوار نے ابھی کچھ دیکھا ہوتا ہے نہ سنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ُ کتوں ّکے دماغ میں سونگھنے کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے سونگھنے کی حس انسان کے مقابلے میں سو گنا سے بھی زیادہ تیز ہے۔ بہرحال باقی صلاحیتیں تو دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں ‘ لیکن بیان اور گویائی کی صلاحیت صرف اور صرف انسان کا طرئہ امتیاز ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ان آیات کو دوبارہ پڑھئے۔ ان چار آیات سے تین جملے بنتے ہیں۔ پہلی آیت { اَلرَّحْمٰنُ۔ } جملہ نہیں ہے ‘ یہ مبتدأ ہے اور { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ } اس کی خبر ہے۔ چناچہ پہلی اور دوسری آیت کے ملنے سے مکمل جملہ بنتا ہے۔ یعنی ”رحمن نے قرآن سکھایا“۔ اس کے بعد آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ”اس نے انسان کو پیدا کیا“ بھی مکمل جملہ ہے اور آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ”اسے بیان کی صلاحیت عطا کی“ بھی مکمل جملہ ہے۔___ اب ان آیات پر اس پہلو سے غور کیجیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے اعلیٰ نام کے حوالے سے سب سے اعلیٰ علم قرآن کا ذکر کیا۔ پھر اپنی چوٹی کی مخلوق اور اس مخلوق کی چوٹی کی صلاحیت بیان کا ذکر کیا۔ اس زاویے سے غور کیا جائے تو یہ تین جملے ریاضی کے کسی سوال کی طرح ”جواب“ کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ جس طرح ریاضی کے ”نسبت و تناسب“ کے سوالات میں تین رقموں values کی مدد سے چوتھی رقم معلوم کی جاتی ہے ‘ اسی طرح ان تین جملوں پر غور کرنے سے اس عبارت کے اصل مدعا تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ”رحمن نے قرآن سکھایا۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کی صلاحیت عطا فرمائی“۔ کس لیے ؟۔ -۔ جواب بالکل واضح ہے : ”قرآن کے بیان کے لیے !“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ ترین مخلوق کو ”بیان“ کی انمول صلاحیت سے اس لیے تو نہیں نوازا کہ وہ اسے لہو و لعب میں ضائع کرتا پھرے ‘ یا دلائل کے انبار لگانے والا وکیل یا شعلہ بیان مقرر بن کر اسے حصول دولت و شہرت کا ذریعہ بنا لے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ توپ اس لیے تو نہیں بنائی جاتی کہ اس سے مکھیاں ماری جائیں۔ چناچہ انسان کی اس بہترین صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوگا کہ وہ اسے بہترین علم کے سیکھنے سکھانے کا ذریعہ بنائے۔ یعنی اپنی قوت بیان کو قرآن کی تعلیم اور نشرواشاعت کے لیے وقف کر دے۔ ان آیات کے اس مفہوم کو حضور ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ 1 یہاں خَیْرُکُمْ کا صیغہ تفضیل کل superlative degree کے مفہوم میں آیا ہے کہ تم سب میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس حدیث کے حوالے سے ضمنی طور پر یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس کے راوی حضرت عثمان بن عفان رض کے نام اور حدیث کے لفظ ”قرآن“ کے قافیے بھی زیر مطالعہ آیات کے قافیوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔ یعنی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس حدیث کی ان آیات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ سورة الرحمن کی ان ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر سورة القمر کی ترجیعی آیت { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ …} کے مفہوم اور اس کے پرشکوہ اسلوب کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ان آیات کی ترتیب پر بھی غور کیا جائے کہ سورة القمر کی مذکورہ آیت کو باربار دہرانے کے فوراً بعد سورة الرحمن کی یہ آیات آئی ہیں تو ان آیات کا مذکورہ مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے۔ بہرحال ان آیات کے بین السطور یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا حق ادا کرنا لازم ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 40{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ

📘 آیت 41{ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ۔ } ”پہچان لیے جائیں گے مجرم اپنے چہروں سے ‘ پھر ان کو پکڑ اجائے گا پیشانی کے بالوں سے اور پائوں سے۔“ اس دن مجرمین کے اترے ہوئے چہرے ہی ان کی پہچان ہوں گے۔ چناچہ فرشتے انہیں ٹانگوں اور پیشانی کے بالوں سے پکڑ پکڑ کر جہنم کی طرف اچھالتے جائیں گے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 42{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ

📘 آیت 43{ ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ } ”اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ جہنم جسے مجرمین جھٹلایا کرتے تھے۔“

يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ

📘 آیت 44{ یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۔ } ”اب وہ چکر لگاتے رہیں گے اس آگ کے اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان۔“ آگ کی تپش سے گھبرا کر پانی کی طرف لپکیں گے اور جب کھولتے ہوئے پانی کا مزہ چکھیں گے تو پھر واپس بھاگیں گے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ !

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 45{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“ یہ اہل جہنم کا تذکرہ تھا ‘ اب اس کے بعد آئندہ آیات میں اہل جنت کا بیان ہوگا۔ البتہ سورة الواقعہ میں پہلے اہل جنت کا ذکر ہے اور اس کے بعد اہل جہنم کا۔ یعنی جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ ان دونوں سورتوں کے مضامین باہم عکسی ترتیب میں ہیں۔

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ

📘 آیت 46{ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔ } ”اور جو کوئی اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔“ اہل جنت کی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں اپنے رب کے حضور پیشی سے لرزاں و ترساں رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جادئہ مستقیم پر قائم رکھنے والی واحد چیز یہی اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کا خوف ہے۔ دو جنتوں کے بارے میں مفسرین نے مختلف آراء نقل کی ہیں ‘ تاہم دو جنتوں کی توجیہہ جو میری سمجھ میں آئی ہے اور مجھے اپنی اس رائے پر اطمینان اور انشراح ہے کہ یہ انسانوں اور جنوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا بیان ہے۔ چونکہ اس سورت میں خطاب بھی مسلسل ان دونوں سے ہے اور جہنم کی وعید بھی دونوں گروہوں کو دی گئی ہے ‘ اس لیے جنت کی نوید بھی دونوں کے لیے ہونی چاہیے تھی۔ اب چونکہ انسانوں اور جنوں کا مادئہ تخلیق اور ان کی فطرتیں الگ الگ ہونے کی وجہ سے ان کی ضرورتیں ‘ پسند و ناپسند ‘ رنج و غم کے معیار ‘ راحت و سکون کے پیمانے اور کیف و سرور کے انداز ‘ سب کچھ ہی ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہیں ‘ اس لیے ظاہر ہے جنت میں بھی ان کے لیے الگ الگ ماحول کی ضرورت تھی۔ چناچہ میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ یہاں ان دونوں گروہوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں جن دو جنتوں کا ذکر ہوا ہے وہ نچلے درجے کی جنتیں ہیں ‘ جبکہ آگے چل کر آیت 62 میں جن دو جنتوں کا ذکر ہوا ہے وہ اونچے درجے کی جنتیں ہیں۔ گویا اس سورت میں کل چار جنتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ہر گروہ کے لیے دو جنتیں ہوں گی ‘ ان میں سے ایک جنت نچلے درجے میں ہوگی اور دوسری نسبتاً برتر درجے میں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 47{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

ذَوَاتَا أَفْنَانٍ

📘 آیت 48{ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ۔ } ”دونوں بہت سی شاخوں والی ہوں گی۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 49{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ

📘 آیت 5{ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۔ } ”سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔“ سورج اور چاند کی گردش ایک قطعی اور مربوط نظام کا حصہ ہے۔ ان کی گردش سے ہی دن رات بنتے ہیں اور دنوں ‘ مہینوں اور سالوں کا حساب ممکن ہوتا ہے۔

فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ

📘 آیت 50{ فِیْہِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِ۔ } ”ان دونوں میں دو چشمے بہہ رہے ہوں گے۔“ یعنی ہر جنت میں ایک چشمہ رواں ہوگا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 51{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ

📘 آیت 52{ فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوْجٰنِ۔ } ”ان دونوں میں ہر قسم کے میوے ہوں گے جوڑوں کی شکل میں۔“ یعنی ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 53{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ

📘 آیت 54{ مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی فُرُشٍم بَطَآئِنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ط } ”وہ وہاں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے بچھونوں پر جن کے استر گاڑھے ریشم کے ہوں گے۔“ یہاں پر جنت کے بچھونوں کے اندرونی کپڑے اَستر کا ذکر ہوا ہے کہ وہ گاڑھے یعنی موٹے ریشم کے بنے ہوں گے لیکن ان کے بیرونی غلافوں کا ذکر نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بیرونی غلافوں کی کیفیت ہمارے احاطہ خیال میں آ ہی نہیں سکتی۔ { وَجَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ۔ } ”اور دونوں جنتوں کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔“ یعنی وہ اہل جنت میں سے ہر ایک کی پہنچ میں ہوں گے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 55{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ

📘 آیت 56{ فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ لا } ”ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔“ عورت کی جھکی ہوئی نگاہیں شرم و حیا کی علامت ہیں اور شرم و حیا نسوانیت کا خاص زیور بھی ہے اور اس کے اخلاق کا سب سے بڑا محافظ بھی۔ جنتی عورتوں کی جھکی ہوئی نظروں کا ذکر گویا ان کے حسن ظاہری و باطنی کا بیان ہے۔ { لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ۔ } ”ان کو چھوا نہیں ہوگا ان سے پہلے نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔“ جنتی جنوں کی بیویاں ظاہر ہے انہی کی جنس سے ہوں گی جنہیں پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا ‘ جبکہ انسانوں کی بیویاں انسان ہوں گی اور انہیں بھی پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا ہوگا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 57{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ

📘 آیت 58{ کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۔ } ”وہ ایسی ہوں گی گویا لعل اور مونگے ہوں۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 59{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ

📘 آیت 6{ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ۔ } ”اور ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔“ نَجْم کے معروف معنی ستارے کے ہیں ‘ لیکن عربی میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا۔ مثلاً جھاڑیاں اور خربوزے اور تربوز کی بیلیں وغیرہ۔ جس طرح لاتعداد ستارے آسمان پر بکھرے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح بیشمار جھاڑیاں اور بیل بوٹے زمین پر پھیلے دکھائی دیتے ہیں۔ چناچہ پچھلی آیت میں سورج اور چاند کے ذکر کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہاں النَّجْم سے ستارے مراد ہوں گے ‘ لیکن اگلے لفظ الشَّجَرکے حوالے سے جھاڑیاں یا بیلیں کا ترجمہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

📘 آیت 60{ ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۔ } ”کیا بھلائی کا بدلہ بھلائی کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتا ہے ؟“ نیک لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے لیے جو قربانیاں دیں ‘ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرنے کے حوالے سے انہوں نے جو مشقتیں اٹھائیں ‘ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کا بدلہ تو دینا ہے۔ لہٰذا جنت کی مذکورہ نعمتوں کی صورت میں انہیں بدلہ دے کر اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں اور کوششوں کی قدر افزائی فرمائے گا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 61{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ

📘 آیت 62{ وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ۔ } ”اور ان سے پرے دو جنتیں اور بھی ہیں۔“ مفسرین نے ان دو جنتوں کی مختلف توجیہات کی ہیں ‘ لیکن جیسا کہ قبل ازیں آیت 46 کی تشریح میں ذکر ہوچکا ہے ‘ میرے نزدیک ان میں سے دو جنتیں جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ نچلے درجے میں ہیں اور دو جنتیں ان دونوں گروہوں کے لیے الگ الگ اونچے درجے میں ہیں۔ اہل جنت کے ان درجات کی وضاحت اگلی سورت یعنی سورة الواقعہ میں ملے گی یاد رہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ سورة الواقعہ میں اہل جہنم اَصْحٰبُ الشِّمَال کے مقابلے میں اہل جنت کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں ایک گروہ تو اَصْحٰبُ الْیَمِیْن دائیں جانب والوں کا ہے۔ ان کے لیے الگ جنت کا ذکر ہے جو نسبتاً نچلے درجے کی جنت ہوگی۔ جبکہ دوسرا گروہ مقربین بارگاہ کا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ } ”اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہ تو بہت مقرب ہوں گے“۔ یہ وہی خوش نصیب لوگ ہیں جن کا ذکر سورة التوبہ میں بایں الفاظ آیا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ } ”اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکوکاری کے ساتھ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ‘ اور اس نے ان کے لیے وہ باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی ‘ ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔“ سورة الواقعہ میں ان مقربین بارگاہ کے لیے بہت خصوصی انداز میں جنت کا ذکر ہوا ہے۔ ظاہر ہے ان لوگوں کے لیے بہت اونچے درجے کی جنت ہوگی۔ چناچہ میری رائے میں سورة الرحمن کی آیت 46 میں جن دو جنتوں جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ کا ذکر ہوا ہے وہ اصحاب الیمین کے لیے ہیں ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں جنوں اور انسانوں میں سے مقربین بارگاہ کی جنتوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 63{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

مُدْهَامَّتَانِ

📘 آیت 64{ مُدْہَآمَّتٰنِ۔ } ”دونوں گہرے سبز رنگ کی ہوں گی۔“ ان دو نوں جنتوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہوگا۔ یعنی بہت گھنی اور سرسبز و شاداب۔ اس رنگ کے ذکر کی توجیہہ آگے آیت 68 کے ضمن میں بیان کی گئی ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 65{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ

📘 آیت 66{ فِیْہِمَا عَیْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ۔ } ”ان میں دو چشمے ہوں گے ابلتے ہوئے۔“ یعنی ہر جنت میں ایک ایک ایسا چشمہ ہوگا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 67{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ

📘 آیت 68{ فِیْہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ۔ } ”ان دونوں میں میوے ‘ کھجور اور انار ہوں گے۔“ ان جنتوں کی کیفیت کے بیان میں ایک طرف گویا عجمی پسند کی جھلک نظر آتی ہے تو دوسری طرف عربی ذوق کی عکاسی۔ عجمی علاقوں کے درختوں اور باغات کے جوبن کا کمال یہ ہے کہ ان کے سبز پتوں کا رنگ گہرا ہوتے ہوتے سیاہی مائل ہوجائے۔ ایسے درختوں اور پودوں کا سایہ بھی مثالی ہوتا ہے اور ان کے پھلوں کی پیداوار اور کو الٹی بھی بہترین ہوتی ہے۔ دوسری طرف سرزمین عرب خصوصاً نزولِ قرآن کے علاقے حجاز کے ذوق کے مطابق ایک مثالی باغ کا نقشہ بھی دکھایا گیا ہے۔ یعنی پہاڑی ڈھلوان سے ابلتا ہوا چشمہ ‘ چشمے کے نشیب میں کھجور اور انار کے درختوں کا جھنڈ اور ان درختوں کے جھرمٹ میں انگور کی لہلہاتی بیلیں !

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 69{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ

📘 آیت 7{ وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ۔ } ”اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کی۔“ یہاں میزان سے مراد کائناتی نظام کے اندر پایا جانے والا مربوط اور خوبصورت توازن cosmic balance ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات قائم ہے۔ یہ توازن تمام اجرامِ سماویہ کے اندر موجود کشش ثقل gravitational force کی وجہ سے قائم ہے۔ تمام اجرامِ فلکی اس کشش کی وجہ سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ہر ُ کرے ّکا دوسرے کرے سے فاصلہ ‘ اس کی کشش کی طاقت کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ اگر کہیں یہ فاصلہ ایک طرف سے معمولی سا کم ہوجائے اور دوسری طرف سے معمولی سا بڑھ جائے تو یہ سارا نظام تلپٹ ہوجائے اور تمام کرے آپس میں ٹکرا جائیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تمام چیزوں میں ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔

فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ

📘 آیت 70{ فِیْہِنَّ خَیْرٰتٌ حِسَانٌ۔ } ”ان میں ہوں گی نہایت نیک سیرت اور خوبصورت عورتیں۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 71{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ

📘 آیت 72{ حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْْخِیَامِ۔ } ”یعنی حوریں ‘ جو قیام پذیر ہوں گی خیموں میں۔“ یہاں پر ”خیموں“ کا ذکر خصوصی طور پر عرب کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب میں شہروں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور زیادہ تر لوگ خیموں میں رہتے تھے۔ اس لیے یہاں پر گھر یا محل کے بجائے خیمے کا ذکر آیا ہے۔ یہاں { مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ } کے الفاظ میں { وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ } الاحزاب : 33 کے حکم کی عملی جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ دراصل عورت کا وہ روپ ہے جس روپ میں اسلام اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام عورت کو ”چراغ خانہ“ بن کر رہنے کی ترغیب دیتا ہے اور اسے ”شمع محفل“ بننے سے منع کرتا ہے۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ ان آیات میں جن دو جنتوں کا ذکر ہو رہا ہے ان میں ”حوریں“ ہوں گی جبکہ قبل ازیں جن جنتوں کا ذکر ہوا تھا ان میں حوروں کا نہیں بلکہ ”جنتی عورتوں“ کا تذکرہ تھا : { فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِلا } ”ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی“۔ اسی طرح سورة الواقعہ میں اصحاب الیمین کی جنت میں خوبصورت عورتوں { اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَآئً۔ } کا ذکر ہے جبکہ ”مقربین“ کے لیے جنت کے حوالے سے ”حُوْرٌ عِیْن“ آیت 27 کا تذکرہ ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 73{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ

📘 آیت 74{ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ۔ } ”نہیں چھوا ہوگا ان سے پہلے انہیں نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔“ یہاں خصوصی طور پر جن اور انسان کے ذکر سے بھی میری اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جنوں کی جنت کی حوروں کو ان کے خاوندوں سے پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا اور انسانوں کی جنت کی حوروں کو قبل ازاں کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 75{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ

📘 آیت 76{ مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ۔ } ”وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے سبز مسندوں اور بہت نفیس بچھونوں پر۔“

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 آیت 77{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

📘 آیت 78{ تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ۔ } ”بہت بابرکت نام ہے تیرے رب کا جو بہت عظمت والا ‘ بہت اکرام والا ہے۔“

أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ

📘 آیت 8{ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْْمِیْزَانِ۔ } ”تاکہ تم میزان میں زیادتی مت کرو۔“ اس کائناتی توازن کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں رہتے ہوئے تم بھی عدل و انصاف پر قائم رہو۔

وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ

📘 آیت 9 { وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ۔ } ”اور قائم رکھو وزن کو انصاف کے ساتھ اور میزان میں کوئی کمی نہ کرو۔“ کسی بھی نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اس نظام کے اندر عدل قائم رکھنا یعنی اس کی ہرچیز کو اس کی اصل جگہ پر رکھنا ضروری ہے ‘ کیونکہ کسی بھی قسم کی کمی بیشی نظام میں خرابی اور عدم توازن کا باعث بنتی ہے۔ اسی لیے زیادتی سے بھی منع کردیا گیا لَا تَطْغَوْا اور کمی کرنے سے بھی روک دیا گیا لَا تُخْسِرُوا۔ خالق کائنات نے اس کائنات کا پورا نظام توازن اور عدل و قسط پر قائم کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اپنے دائرئہ اختیار میں اسی طرح توازن اور عدل وقسط کو ملحوظ رکھے۔ اس میزان میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے ‘ ورنہ سارے نظام معاش و معیشت میں فساد پھیل جائے گا۔ یہاں کوئی بڑا ظلم تو درکنار ‘ ترازو میں ڈنڈی مار کر اگر کوئی شخص خریدار کے حصے کی تھوڑی سی چیز بھی مار لیتا ہے تو میزانِ عالم میں خلل برپا کردیتا ہے۔