🕋 تفسير سورة الواقعة
(Al-Waqia) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ
📘 آیت 1 { اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ } ”جب وہ ہونے والا واقعہ رونما ہوجائے گا۔“ اس آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ”جب وہ وقوع پذیرہونے والی وقوع پذیر ہوجائے گی“۔ یعنی جس قیامت کی خبر تم لوگوں کو دی جا رہی ہے جب وہ آجائے گی۔
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ
📘 آیت 10{ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ } ”اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔“
أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ
📘 آیت 1 1{ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ } ”وہی تو بہت مقرب ہوں گے۔“ یعنی تیسرا گروہ مقربین بارگاہ پر مشتمل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے قرب سے نوازنا چاہتا ہے اور اس کے لیے قرآن میں جابجا ترغیبی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ سورة المائدۃ میں تو امر کے صیغے میں فرمایا گیا : { وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ } آیت 35 کہ تم اس کا قرب تلاش کرو اور اس کے لیے اس کی راہ میں جہاد کرو۔ ظاہر ہے جو کوئی اللہ کی راہ میں جان و مال کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور اپنے مقربین میں شامل فرمائیں گے۔
فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
📘 آیت 12{ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۔ } ”یہ نعمتوں والے باغات میں ہوں گے۔“
ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ
📘 آیت 13{ ثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ۔ } ”یہ بڑی تعداد میں ہوں گے پہلوں میں سے۔“
وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ
📘 آیت 14{ وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ } ”اور تھوڑے ہوں گے پچھلوں میں سے۔“ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں اَوَّلِیْنسے پہلی امتیں اور آخَرِین سے یہ امت مراد ہے۔ لیکن اگر اس مفہوم کو درست سمجھا جائے تو اس سے الٹا یہ ثابت ہوگا کہ پہلی امتیں اس امت کے مقابلے میں بہتر اور افضل تھیں۔ اس لیے زیادہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرے کو ہر امت کے اولین اور آخرین سے متعلق سمجھا جائے۔ یعنی ہر امت کے اَوَّلِیْن ہر نبی کے ابتدائی پیروکاروں میں سے مقربین کی تعداد زیادہ ہوگی ‘ جبکہ ہر امت کے آخِرِیْنَ میں سے بہت کم لوگ اس درجے تک پہنچ پائیں گے۔ اور یہی معاملہ اس امت کا بھی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : اِنَّ خَیْرَکُمْ قَرْنِیْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ 1 1 صحیح البخاری ‘ کتاب المناقب ‘ باب فضائل اصحاب النبی ﷺ۔ و متعدد مقامات ‘ ح : 6428 ‘ 6695۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب فضائل الصحابۃ ‘ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ‘ ح : 2535۔ واللفظ لہ۔ یعنی اس امت کا بہترین زمانہ حضور ﷺ کا زمانہ تھا۔ اس دور کے لوگ کثیر تعداد میں مقربین بارگاہ کے درجے تک پہنچے ‘ کیونکہ جس قدر قربانیاں ان لوگوں نے دیں پچھلے زمانہ کے لوگوں نے نہیں دیں۔ تاہم یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ یعنی ہر دور میں لوگ صدیقین کے مقام تک بھی پہنچیں گے اور شہادتِ عظمیٰ کا درجہ بھی حاصل کریں گے ‘ لیکن ان کی تعداد بہت کم ہوگی ‘ جبکہ زیادہ تر مومنین ”صالحین“ کے درجے تک پہنچ پائیں گے۔ جیسا کہ سورة التوبہ کی اس آیت سے واضح ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ…} آیت 100 ”اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی احسان کے ساتھ…“ یعنی ”سابقون الاولون“ تو آگے نکل جانے والے ہوں گے جبکہ کچھ لوگ اسی راستے پر ان کے پیچھے آنے والے بھی ہوں گے۔ یہ عام مومنین صالحین ہوں گے جنہیں آیات زیر مطالعہ میں اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ اور اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِکے القاب سے نوازا گیا ہے۔ چناچہ ہر امت کے پہلے دور کے اہل ایمان میں سے نسبتاً زیادہ لوگ ”مقربین“ ہونے کی سعادت حاصل کریں گے جبکہ بعد کے ادوار میں بہت کم لوگ اس درجہ تک پہنچ پائیں گے۔ جیسے آج حضور ﷺ کی امت کی تعداد ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے لیکن ان میں مقربین آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے۔
عَلَىٰ سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ
📘 آیت 15 ‘ 16{ عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ - مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْہَا مُتَقٰبِلِیْنَ۔ } ”جڑائو تختوں پر ‘ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے آمنے سامنے۔“
مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ
📘 آیت 15 ‘ 16{ عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ - مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْہَا مُتَقٰبِلِیْنَ۔ } ”جڑائو تختوں پر ‘ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے آمنے سامنے۔“
يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ
📘 آیت 17{ یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۔ } ”ان پر گردش کر رہے ہوں گے وہ لڑکے جو سدا اسی طرح رہیں گے۔“ عام طور پر گھروں میں چھوٹی عمر کے لڑکوں کو ملازم رکھا جاتا ہے اور وہ آپ کے مزاج اور ذوق سے واقف ہوجاتے ہیں ‘ لیکن بڑے ہونے پر انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی گھر سے نکالنا پڑتا ہے۔ جبکہ جنت میں چھوٹے لڑکے غلمان جو اہل جنت کی خدمت پر مامور ہوں گے وہ ”بڑے“ نہیں ہوں گے بلکہ ہمیشہ لڑکپن کی عمر میں ہی رہیں گے۔
بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ
📘 آیت 18{ بِاَکْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ لا وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۔ } ”آب خورے ‘ صراحیاں اور شراب خالص کے جام لیے ہوئے۔“ اہل جنت کی محفلوں میں خوبصورت غلمان نہایت شفاف قسم کی شراب کے مینا و جام لیے ہر وقت محو گردش رہیں گے۔
لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ
📘 آیت 19{ لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۔ } ”اس سے نہ تو ان کے سروں میں کوئی گرانی ہوگی اور نہ ہی وہ بہکیں گے۔“ دنیا کی شراب پینے سے تو سر چکرانے لگتا ہے اور آدمی مدہوش ہوجاتا ہے ‘ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے ‘ لیکن جنت کی ”شرابِ طہور“ کو اس شراب پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں ایسی کسی خرابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ
📘 آیت 2 { لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ۔ } ”اور جان لو اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔“ یعنی وہ ہر صورت وقوع پذیر ہو کر رہے گی۔
وَفَاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ
📘 آیت 20{ وَفَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۔ } ”اور میوے جو وہ پسند کریں گے۔“
وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ
📘 آیت 21{ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ۔ } ”اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں گے۔“ خوب صورت ابدی لڑکے یہ سب نعمتیں اہل جنت کی خدمت میں پیش کر رہے ہوں گے۔
وَحُورٌ عِينٌ
📘 آیت 22{ وَحُوْرٌ عِیْنٌ۔ } ”اور حوریں ہوں گی بڑی بڑی آنکھوں والی۔“ نوٹ کیجیے یہاں اس جنت کی نعمتوں میں حوروں کا ذکر بھی ہوا ہے لیکن اگلی آیات میں اصحاب الیمین کی جنت کے تذکرے میں ”حُوْر“ کا لفظ نہیں آیا۔ یاد رہے کہ سورة الرحمن میں نچلے درجے کی جنت کا ذکر پہلے جبکہ حوروں والی جنت اونچے درجے کی جنت کا ذکر بعد میں آیا ہے۔ دونوں سورتوں کے مضامین کی اسی ترتیب کو میں نے ابتدا میں عکسی ترتیب mirror image کا نام دیا ہے۔
كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ
📘 آیت 23{ کَاَمْثَالِ اللُّــؤْلُـــؤِ الْمَکْنُوْنِ۔ } ”جیسے موتی ہوں چھپا کر رکھے گئے۔“
جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 آیت 24{ جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ } ”یہ بدلہ ہوگا ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے تھے۔“ یہ ان قربانیوں کا صلہ ہوگا جو انہوں نے اپنی دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے دی ہوں گی۔
لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا
📘 آیت 25{ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۔ } ”وہ نہیں سنیں گے اس میں کوئی لغو بات اور نہ ہی کوئی الزام۔“
إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا
📘 آیت 26{ اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۔ } ”مگر ان کے لیے ‘ ہر طرف سے سلام سلام ہی کی آوازیں ہوں گی۔“ یہ تو تھا مقربین اور ان کی جنت کا بیان ‘ اب آگے اصحاب الیمین اور ان کی جنت کا ذکر ہے۔
وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ
📘 آیت 27{ وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ مَآ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ۔ } ”اور اصحاب الیمین ! کیا کہنے ہیں اصحاب الیمین کے !“
فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ
📘 آیت 28{ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۔ } ”وہ ہوں گے بیری کے درختوں میں جن میں کانٹے نہیں ہوں گے۔“
وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ
📘 آیت 29{ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۔ } ”اور تہ بر تہ کیلے۔“
خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ
📘 آیت 3{ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۔ } ”وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی۔“ بہت سے ایسے لوگ جو دنیا میں بہت بلند مقام و مناصب کے مالک تھے ‘ قیامت انہیں ذلیل و رسوا کر دے گی۔ اس کے برعکس کئی فقراء و مساکین جن کا دنیا میں کوئی ُ پرسانِ حال نہیں تھا ‘ اس دن بہت بلند مقامات پر فائز نظر آئیں گے۔ اس دن حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابودردائ ‘ حضرت ابوذر غفاری اور دوسرے فقراء صحابہ کو ایسے اعلیٰ مراتب عطا ہوں گے جن کے بارے میں آج ہم لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
وَظِلٍّ مَمْدُودٍ
📘 آیت 30{ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۔ } ”اور پھیلے ہوئے سائے۔“
وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ
📘 آیت 31{ وَّمَآئٍ مَّسْکُوْبٍ۔ } ”اور بہتا ہوا پانی۔“
وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ
📘 آیت 32{ وَّفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ۔ } ”اور کثرت کے ساتھ میوے۔“
لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ
📘 آیت 33{ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۔ } ”نہ ٹوٹے ہوئے اور نہ ہی پہنچ سے باہر۔“ جنت کے پھل درختوں سے توڑ کر انہیں پیش نہیں کیے جائیں گے بلکہ جب وہ پھل حاصل کرنا چاہیں گے درخت خود ان کے سامنے جھک جائیں گے۔ تمام پھل بکثرت بےروک ٹوک ملیں گے۔ کوئی پھل ایسا نہیں ہوگا جو ان کی پہنچ سے باہر ہو یا اسے کھانا ممنوع قرار دیا گیا ہو۔
وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ
📘 آیت 34{ وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۔ } ”اور اونچے اونچے بچھونے۔“
إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً
📘 آیت 35{ اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَآئً۔ } ”ان کی بیویوں کو اٹھایا ہے ہم نے بڑی اچھی اٹھان پر۔“
فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا
📘 آیت 36{ فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا۔ } ”پس ہم نے بنایا ہے انہیں کنواریاں۔“
عُرُبًا أَتْرَابًا
📘 آیت 37{ عُرُبًا اَتْرَابًا۔ } ”پیار دینے دلانے والیاں ‘ ہم عمر۔“
لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ
📘 آیت 38{ لّاَِصْحٰبِ الْیَمِیْنِ۔ } ”یہ سب کچھ ہوگا اصحاب الیمین کے لیے۔“
ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ
📘 آیت 39{ ثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ۔ } ”جو پہلوں میں سے بھی بہت ہوں گے۔“
إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا
📘 آیت 4 { اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۔ } ”جب زمین ہلا ڈالی جائے گی جیسے کہ زلزلہ آتا ہے۔“
وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ
📘 آیت 40{ وَثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ } ”اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہوں گے۔“ اب اس کے بعد اہل جہنم کا تذکرہ ہے۔
وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ
📘 آیت 41{ وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ مَـآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ۔ } ”اور بائیں والے ! کیا ہی برا حال ہوگا بائیں والوں کا !“
فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ
📘 آیت 42{ فِیْ سَمُوْمٍ وَّحَمِیْمٍ۔ } ”وہ ہوں گے تیز لو اور کھولتے ہوئے پانی میں۔“
وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ
📘 آیت 43{ وَّظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ۔ } ”اور کالے دھوئیں کے سائے میں۔“
لَا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ
📘 آیت 44{ لَّا بَارِدٍ وَّلَا کَرِیْمٍ۔ } ”نہ وہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ ہی سکون بخش۔“
إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُتْرَفِينَ
📘 آیت 45{ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ۔ } ”یہ لوگ اس سے پہلے دنیا میں بڑے خوشحال تھے۔“ دنیا میں انہیں ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا۔ وہاں انہوں نے خوب مزے کیے۔
وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ
📘 آیت 46{ وَکَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ۔ } ”اور یہ اصرار کرتے تھے بہت بڑے گناہ پر۔“ بہت بڑے گناہ سے یہاں شرک مراد ہے ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة النساء میں حتمی فیصلہ دیا جا چکا ہے : { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُج } آیت 48 کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ کیے گئے شرک کو کبھی نہیں بخشے گا ‘ اس کے علاوہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔
وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ
📘 آیت 47{ وَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ لا اَئِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۔ } ”اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کیا ہم جب مرجائیں گے اور ہوجائیں مٹی اور ہڈیاں تو کیا پھر سے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟“
أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ
📘 آیت 48{ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۔ } ”اور کیا ہمارے آباء و اَجداد بھی جو پہلے گزر چکے ہیں ؟“
قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ
📘 آیت 49{ قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ یقینا پہلے بھی اور پچھلے بھی۔“
وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا
📘 آیت 5{ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۔ } ”اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے۔“
لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ
📘 آیت 50{ لَـمَجْمُوْعُوْنَ اِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۔ } ”لازماً جمع کیے جائیں گے ایک مقرر دن کے طے شدہ وقت پر۔“
ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ
📘 آیت 51{ ثُمَّ اِنَّـکُمْ اَیُّـہَا الضَّآلُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ۔ } ”پھر تم ‘ اے گمراہو اور جھٹلانے والو !“
لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ
📘 آیت 52{ لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۔ } ”ضرور کھائو گے زقوم کے درخت سے۔“ تم بھٹکے ہوئے تھے ‘ ہم نے تمہاری راہنمائی کے لیے اپنا رسول ﷺ بھیجا ‘ کتاب ہدایت بھیجی : { تَـبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۔ } قٓ یہ سب کچھ تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے تھا۔ لیکن اس کے باوجود تم نے ہمارے رسول ﷺ کو بھی جھٹلادیا ‘ ہماری کتاب کی بھی تکذیب کی اور گمراہ رہنے کو ہی ترجیح دی۔ تو اے بھٹکے ہوئے اور ہماری ہدایت کو جھٹلانے والے لوگو ! اب جہنم کے اندر تمہاری ضیافت زقوم کے درخت سے ہی کی جائے گی۔ 1 1 زقوم کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَـوْ اَنَّ قَطْرَۃً مِنَ الزَّقُّوْمِ قُطِرَتْ فِیْ دَارِ الدُّنْیَا لَاَفْسَدَتْ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَھُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُوْنُ طَعَامَہٗ سنن الترمذی ‘ ابواب صفۃ جھنم ‘ باب ما جاء فی صفۃ شراب اھل النار”اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کے لیے ان کی زندگی برباد کر دے ‘ تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کی غذا ہی یہی ہوگی !“ ”زقوم“ صحرائے عرب کا ایک درخت ہے ‘ جس کے بارے میں مولانا مودودی رح نے لکھا ہے :”زقوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے ‘ بو ناگوار ہوتی ہے اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں۔“ تفہیم القرآن ‘ جلد 4 ‘ ص 289اس کے بارے میں مفتی محمد شفیع رح رقم طراز ہیں :”بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سانپ بچھو وغیرہ دنیا میں بھی ہوتے ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن دوزخ کے سانپ بچھو یہاں کے سانپ بچھوئوں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے ‘ اسی طرح دوزخ کا زقوم بھی اپنی جنس کے لحاظ سے تو دنیا ہی کے زقوم کی طرح ہوگا ‘ لیکن یہاں کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور کھانے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا ‘ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم !“ معارف القرآن ‘ جلد 7 ‘ ص 241
فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ
📘 آیت 53{ فَمَالِئُوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۔ } ”پس اسی سے تم اپنے پیٹ بھرو گے۔“
فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ
📘 آیت 54{ فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ۔ } ”پھر پیو گے اس پر کھولتا ہوا پانی۔“
فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ
📘 آیت 55{ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِیْمِ۔ } ”اور ایسے پیو گے جیسے پیاس کا مارا اونٹ پیتا ہے۔“ جس طرح پیاس زدہ اونٹ جلدی جلدی اپنے پیٹ میں پانی بھرتا چلا جاتا ہے تم بھی وہ کھولتا ہوا پانی اسی طرح اپنے پیٹو میں بھروگے۔
هَٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ
📘 آیت 56{ ہٰذَا نُزُلُہُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۔ } ”یہ ہوگی ان کی ابتدائی ضیافت جزا کے دن۔“ یہاں پر ان تینوں گروہوں کا بیان مکمل ہوگیا۔ یاد رہے کہ سورة الرحمن میں جہنم اور جنت کے حوالے سے ان تینوں گروہوں کا تذکرہ سورة کے آخر میں آیا تھا ‘ جبکہ یہاں ان کا ذکر سورت کے آغاز میں آیا ہے۔ یعنی دونوں سورتوں کے مضامین معکوس ترتیب سے بیان ہوئے ہیں۔ اسی عکسی ترتیب کے تحت اب سورت کے دسرے رکوع میں وہ مضمون آ رہا ہے جو سورة الرحمن کے پہلے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ سورة الرحمن کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی خلاقی اور صناعی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنائے ‘ زمین بنائی ‘ زمین میں دریا چلائے ‘ سمندر پھیلائے۔ دریائوں اور سمندروں کی تہوں میں عجیب و غریب قسم کے موتی اور مونگے پیدا کیے اور پہاڑوں جیسے بڑے بڑے جہازوں کا پانی کی سطح پر تیرنا ممکن بنایا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرتوں کے مظاہر ہیں۔ چناچہ اسی انداز سے یہاں اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور صناعی کا ذکر ہونے جا رہا ہے ‘ لیکن پے درپے سوالات کے ساتھ بہت ہی خوبصورت اور موثر انداز میں :
نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ
📘 آیت 57{ نَحْنُ خَلَقْنٰـکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ۔ } ”ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ تو تم لوگ تصدیق کیوں نہیں کرتے ؟“ جب یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر تم لوگوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا کہ وہی اللہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اس میں آخر تعجب اور شک والی کون سی بات ہے ؟
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ
📘 آیت 58{ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ۔ } ”کیا تم نے کبھی غور کیا اس پر جو منی تم ٹپکادیتے ہو ؟“
أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ
📘 آیت 59{ ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٓٗ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ۔ } ”کیا اس کی تخلیق تم کرتے ہو یا ہم تخلیق کرنے والے ہیں ؟“ تم تو پانی کی وہ بوند ٹپکا کر فارغ ہوجاتے ہو۔ اس کے بعد رحم مادر میں ایک حیرت انگیز تخلیقی عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ وہ نطفہ علقہ میں تبدیل ہوتا ہے ‘ علقہ سے مغضہ بنتا ہے۔ پھر ہڈیاں بنتی ہیں ‘ جوڑ بند درست ہوتے ہیں ‘ آنکھوں ‘ کانوں اور دوسرے اعضاء کا نقشہ تیار ہوتا ہے اور یہ سارا عمل تین پردوں { فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰـثٍط } الزمر : 6 کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ کیا اس سارے عمل میں تمہارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ ماں کے پیٹ میں مختلف پیچیدہ تخلیقی مراحل سے گزرتے ہوئے بچے کے کسی عضو کے بنانے میں کیا کوئی تمہارا کردار بھی ہے ؟ یا اس کی تذکیر و تانیث میں تمہارا کچھ اختیار ہے ؟ ظاہر ہے اس پورے تخلیقی عمل میں تمہارا حصہ یا کردار بالکل نہیں ہے ‘ اور تم تسلیم کرتے ہو کہ نہیں ہے ‘ تو پھر اس حقیقت کو قبول کیوں نہیں کرلیتے ہو کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی و منشاء اور صناعی و خلاقی کا مظہر ہے۔ جب ہم ان آیات کی تلاوت کریں تو ہر سوال کے جواب میں عجز و انکساری سے عرض کرنا چاہیے : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! کہ اے میرے پروردگار ! یہ سب تیری کاریگری ‘ تیری صناعی اور تیری خلاقی کا مظہر ہے ‘ اس میں سے ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں۔ تفسیر عثمانی کے مطابق بعض روایات کی بنا پر علماء نے یہ مستحب سمجھا ہے۔
فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا
📘 آیت 6{ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا۔ } ”پس وہ ہوجائیں گے اڑتا ہوا غبار۔“
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
📘 آیت 60 ‘ 61{ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّـبَدِّلَ اَمْثَالَـکُمْ } ”ہم نے تمہارے مابین موت کو ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری مثل بدل کر لائیں“ یہ مقام بھی مشکلات القرآن میں سے ہے۔ بہرحال اس کی ایک توجیہہ جو میری سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ یہاں دو انسانی زندگیوں اور ان کے درمیان طے شدہ موت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ایک دنیا کی زندگی ہے اور دوسری آخرت کی زندگی اور درمیان میں اللہ تعالیٰ نے موت کا پردہ حائل کردیا ہے۔ موت کی اس سرحد کے اس طرف بھی تم ہو اور دوسری طرف بھی تم ہو۔ گویا موت کے وقفے کے بعد زندگی کا تسلسل پھر سے بحال ہوجائے گا۔ بقول شاعر ؎موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر !یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم تو مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اس کی روح کو موت نہیں آتی ‘ روح زندہ رہتی ہے۔ قیامت میں انسان کو جس جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا وہ بعینہٖ اس کا دنیا والا جسم نہیں ہوگا ‘ بلکہ ”اس جیسا“ جسم ہوگا۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی سمجھنے کا ہے کہ انسان کا دنیوی زندگی والا جسم تو اس زندگی میں بھی مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ زندہ جسم کے اربوں خلیے مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں اور ایسے ہی نئے خلیے مسلسل بنتے رہتے ہیں۔ جلد کی جھلی بھی بدلتی رہتی ہے اور ناخن بھی لگاتار گھستے اور نئے بنتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو ذہن میں رکھیں تو یہ حقیقت بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایک انسان کا چند سال پہلے جو جسم تھا آج اس کا جسم وہ نہیں ہے اور جو جسم اس کا آج ہے چند سال بعد بعینہٖ یہ نہیں رہے گا۔ چناچہ جب انسان کا جسم مسلسل تبدیل ہو رہا ہے تو آخرت میں اسے بعینہٖ دنیا والا جسم ملنا ویسے ہی بعید از قیاس ہے۔ اگر وقتی طور پر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان کو آخرت میں دنیا والا جسم ملے گا تو پھر اس سوال کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ وہ اس کا کون سا جسم ہوگا ؟ بیس برس کی عمر والا ؟ چالیس سال کی عمر والا ؟ یا ساٹھ سال کی عمر والا ؟ لہٰذا یہ بات عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ انسان کو دوبارہ دنیا والے جسم کے ساتھ زندہ کیا جائے گا۔ چناچہ آخرت میں انسان کو دنیا کے جسم جیسا جسم دیا جائے گا اور اس کی روح کو اس کے اس جسم سے ملا کر اسے نئی زندگی بخشی جائے گی۔ یہ مضمون قرآن میں تین مقامات بنی اسرائیل : 99 ‘ یٰسٓ: 81 ‘ الدھر : 28 پر آیا ہے۔ بہرحال دوبارہ زندہ ہونے کے بعد انسان کی جان اور روح جب نئے جسم میں منتقل ہوجائے گی تو اس کے شعور اور اس کی یادداشت کا دنیوی تسلسل بعینہٖ بحال کردیا جائے گا۔ دنیا میں وہ کیا تھا ؟ وہاں اس نے کب کیا کیا تھا ؟ زندہ ہوتے ہی اسے سب کچھ یاد آجائے گا۔ کیونکہ دنیوی زندگی کے دوران اس کا جسم تو بدلتا رہا تھا لیکن اس کے شعور ذات کا تسلسل بغیر کسی خلل کے آخر تک برقرار رہا تھا۔ اس لیے وہ سلسلہ موت کے باعث جہاں سے ٹوٹا تھا عین وہیں سے اسے جوڑ دیا جائے گا۔ چناچہ ان آیات کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اے لوگو ! تمہاری دو زندگیوں کے درمیان ہم نے ہی موت کا پردہ حائل کر رکھا ہے ‘ تو کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں کہ تم جیسے وجود دوبارہ پیدا کردیں۔ { وَنُنْشِئَـکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ } ”اور تمہیں ایسی تخلیق میں اٹھائیں جسے تم نہیں جانتے !“ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ تمہیں ہم ایسے عالم میں اٹھا کھڑا کریں گے جس کی کیفیت سے آج تم واقف نہیں ہو یعنی عالم آخرت میں۔
عَلَىٰ أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 آیت 60 ‘ 61{ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّـبَدِّلَ اَمْثَالَـکُمْ } ”ہم نے تمہارے مابین موت کو ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری مثل بدل کر لائیں“ یہ مقام بھی مشکلات القرآن میں سے ہے۔ بہرحال اس کی ایک توجیہہ جو میری سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ یہاں دو انسانی زندگیوں اور ان کے درمیان طے شدہ موت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ایک دنیا کی زندگی ہے اور دوسری آخرت کی زندگی اور درمیان میں اللہ تعالیٰ نے موت کا پردہ حائل کردیا ہے۔ موت کی اس سرحد کے اس طرف بھی تم ہو اور دوسری طرف بھی تم ہو۔ گویا موت کے وقفے کے بعد زندگی کا تسلسل پھر سے بحال ہوجائے گا۔ بقول شاعر ؎موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر !یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم تو مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اس کی روح کو موت نہیں آتی ‘ روح زندہ رہتی ہے۔ قیامت میں انسان کو جس جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا وہ بعینہٖ اس کا دنیا والا جسم نہیں ہوگا ‘ بلکہ ”اس جیسا“ جسم ہوگا۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی سمجھنے کا ہے کہ انسان کا دنیوی زندگی والا جسم تو اس زندگی میں بھی مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ زندہ جسم کے اربوں خلیے مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں اور ایسے ہی نئے خلیے مسلسل بنتے رہتے ہیں۔ جلد کی جھلی بھی بدلتی رہتی ہے اور ناخن بھی لگاتار گھستے اور نئے بنتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو ذہن میں رکھیں تو یہ حقیقت بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایک انسان کا چند سال پہلے جو جسم تھا آج اس کا جسم وہ نہیں ہے اور جو جسم اس کا آج ہے چند سال بعد بعینہٖ یہ نہیں رہے گا۔ چناچہ جب انسان کا جسم مسلسل تبدیل ہو رہا ہے تو آخرت میں اسے بعینہٖ دنیا والا جسم ملنا ویسے ہی بعید از قیاس ہے۔ اگر وقتی طور پر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان کو آخرت میں دنیا والا جسم ملے گا تو پھر اس سوال کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ وہ اس کا کون سا جسم ہوگا ؟ بیس برس کی عمر والا ؟ چالیس سال کی عمر والا ؟ یا ساٹھ سال کی عمر والا ؟ لہٰذا یہ بات عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ انسان کو دوبارہ دنیا والے جسم کے ساتھ زندہ کیا جائے گا۔ چناچہ آخرت میں انسان کو دنیا کے جسم جیسا جسم دیا جائے گا اور اس کی روح کو اس کے اس جسم سے ملا کر اسے نئی زندگی بخشی جائے گی۔ یہ مضمون قرآن میں تین مقامات بنی اسرائیل : 99 ‘ یٰسٓ: 81 ‘ الدھر : 28 پر آیا ہے۔ بہرحال دوبارہ زندہ ہونے کے بعد انسان کی جان اور روح جب نئے جسم میں منتقل ہوجائے گی تو اس کے شعور اور اس کی یادداشت کا دنیوی تسلسل بعینہٖ بحال کردیا جائے گا۔ دنیا میں وہ کیا تھا ؟ وہاں اس نے کب کیا کیا تھا ؟ زندہ ہوتے ہی اسے سب کچھ یاد آجائے گا۔ کیونکہ دنیوی زندگی کے دوران اس کا جسم تو بدلتا رہا تھا لیکن اس کے شعور ذات کا تسلسل بغیر کسی خلل کے آخر تک برقرار رہا تھا۔ اس لیے وہ سلسلہ موت کے باعث جہاں سے ٹوٹا تھا عین وہیں سے اسے جوڑ دیا جائے گا۔ چناچہ ان آیات کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اے لوگو ! تمہاری دو زندگیوں کے درمیان ہم نے ہی موت کا پردہ حائل کر رکھا ہے ‘ تو کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں کہ تم جیسے وجود دوبارہ پیدا کردیں۔ { وَنُنْشِئَـکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ } ”اور تمہیں ایسی تخلیق میں اٹھائیں جسے تم نہیں جانتے !“ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ تمہیں ہم ایسے عالم میں اٹھا کھڑا کریں گے جس کی کیفیت سے آج تم واقف نہیں ہو یعنی عالم آخرت میں۔
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ
📘 آیت 62{ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی } ”اور تم اپنی پہلی زندگی کے بارے میں تو جانتے ہی ہو“ یعنی اپنی دنیوی تخلیق سے متعلق تمام مراحل کے بارے میں تو تم جانتے ہو۔ انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ سورة المومنون کی یہ آیات اس موضوع پر قرآن کے ذروئہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں :{ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ - ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ - ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰــہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ }”ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے خلاصے سے۔ پھر ہم نے اسے بوند کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے اس نطفہ کو علقہ کی شکل دے دی ‘ پھر علقہ کو ہم نے گوشت کا لوتھڑا بنا دیا۔ پھر ہم نے گوشت کے اس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں ‘ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ‘ پھر ہم نے اسے ایک اور ہی تخلیق پر اٹھا دیا۔ پس بڑا با برکت ہے اللہ ‘ تمام تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے و الا۔“تو جب اس حیرت انگیز اور پیچیدہ تخلیقی عمل کے مختلف مراحل تمہارے علم اور مشاہدے میں آ چکے ہیں : { فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَ۔ } ”تو پھر تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ؟“ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ تم اس سے نصیحت اور یاددہانی کیوں اخذ نہیں کرتے ؟۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کے ان مظاہر کا ادراک کرلینے کے بعد بھی تمہیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جس اللہ نے اس عمل سے گزار کر ہمیں ابتدا میں پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی ہمیں پیدا کرسکتا ہے ؟ آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی خلاقی کی چند اور مثالیں بیان کی جا رہی ہیں :
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ
📘 آیت 63{ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ } ”کیا تم نے کبھی غور کیا کہ یہ بیج جو تم بوتے ہو ؟“ تم لوگ تو بیج کو مٹی میں دبا کر آجاتے ہو۔ اس کے بعد تم کیا جانو کہ وہ بیج کس کس مرحلے سے گزرتا ہے ‘ کس طرح اس کی جڑیں نکل کر زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور کس طرح اس کی کو نپلیں زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہیں !
أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ
📘 آیت 64{ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ } ”کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ؟“ یہاں ہماری زبانوں پر بےاختیار یہ الفاظ آجانے چاہئیں : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! کہ نہیں ! اے ہمارے پروردگار ! اسے تو ہی اگاتا ہے ‘ اس میں ہمارا کچھ بھی اختیار نہیں ! علامہ اقبال کی نظم اَلْاَرْضُ لِلّٰہ کے درج ذیل اشعار میں ان ہی آیات کے اسلوب اور مضمون کی جھلک نظر آتی ہے : ؎پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟خاک یہ کس کی ہے ‘ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب ؟موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب ؟دہ خدایا ! یہ زمین تیری نہیں ‘ تیری نہیں !تیرے آباء کی نہیں ‘ تیری نہیں ‘ میری نہیں !یعنی یہ زمین ‘ یہ کائنات ‘ کائنات کا پورا نظام یہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور اسی کی قدرت و مشیت سے اس کائنات کا یہ نظام چل رہا ہے۔
لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ
📘 آیت 65{ لَـوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا } ”اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں“ اگر ہم چاہیں تو کسی آسمانی آفت ‘ طوفان ‘ جھکڑ یا ژالہ باری سے تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری لہلہاتی فصلوں کو برباد کر کے رکھ دیں۔ { فَظَلْتُمْ تَفَکَّہُوْنَ } ”پھر تم بیٹھے رہو باتیں بناتے ہوئے۔“
إِنَّا لَمُغْرَمُونَ
📘 آیت 66{ اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ } ”کہ لو جی ! ہم پر تو بڑا تاوان پڑگیا۔“ کہ ہم نے محنت کی ‘ ہل چلائے ‘ بیج ڈالا ‘ آبیاری کی اور بہت سے دوسرے اخراجات کیے ‘ لیکن ہم پر تو الٹی چٹی ّپڑ گئی۔
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ
📘 آیت 67{ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۔ } ”بلکہ ہم تو بالکل ہی محروم ہو کر رہ گئے۔“ ہمارا تو سب کچھ برباد ہوگیا۔
أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ
📘 آیت 68{ اَفَرَئَ یْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ } ”کبھی تم نے غور کیا کہ وہ پانی جو تم پیتے ہو ؟“
أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ
📘 آیت 69{ ئَ اَنْـتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ } ”کیا بادلوں سے تم نے اسے برسایا ہے یا ہم ہیں برسانے والے ؟“
وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً
📘 آیت 7{ وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۔ } ”اور تم تین گروہوں میں منقسم ہو جائو گے۔“ ان تین گروہوں کا ذکر بالواسطہ طور پر سورة الرحمن میں دو جنتوں کے حوالے سے ہوا ہے۔ یعنی اہل جہنم ‘ نچلے درجے کی جنت کے مستحق اور اونچے درجے کی جنت کے باسی۔
لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ
📘 آیت 70{ لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰـہُ اُجَاجًا } ”اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کردیں“ { فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ } ”تو تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے ؟“
أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ
📘 آیت 71{ اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ } ”کبھی تم نے سوچا کہ وہ آگ جو تم جلاتے ہو ؟“
أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ
📘 آیت 72{ ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ } ”کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے ‘ یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟“ بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! نوٹ کیجیے پے درپے سوالات کا یہ تیکھا اسلوب پورے قرآن میں اور کہیں نہیں ہے۔
نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ
📘 آیت 73{ نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ } ”ہم نے بنا دیا اس کو ایک نشانی یاد دلانے کو اور ایک بہت فائدہ مند چیز صحرا کے مسافروں کے لیے۔“ جیسا کہ سورة یٰسین کی آیت 80 کے ضمن میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ‘ بعض صحرائوں میں ایسے درخت پائے جاتے ہیں جن کی سبز گیلی شاخوں کو آپس میں رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ یہاں پر شَجَرَتَہَآ سے وہ مخصوص درخت بھی مراد ہے اور عام درخت بھی۔ کیونکہ درختوں کی لکڑی آگ جلانے کا ایک بہت بڑاذریعہ ہے۔ اور یہ درخت ظاہر ہے اللہ نے پیدا کیے ہیں اور اسی نے ان میں جلنے کی خصوصیت رکھی ہے۔
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ
📘 آیت 74{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ } ”پس تم تسبیح بیان کرو اپنے ربّ کے نام کی جو بہت عظمت والا ہے۔“ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ! اب اگلی آیات میں قرآن کی عظمت کا بیان ہے۔ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے عظمت قرآن کے حوالے سے سورة الرحمن کے آغاز کی یہ عظیم آیات بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : { اَلرَّحْمٰنُ - عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ - خَلَقَ الْاِنْسَانَ - عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ }۔ قرآن کی عظمت کے اس بیان کے بین السطور میں یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اس عظیم کتاب کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہم ان آیات کے ضمن میں پڑھ آئے ہیں : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو خود قرآن سیکھتے اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔ ان دونوں سورتوں کے مضامین چونکہ عکسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں ‘ اس لیے عظمت قرآن کا وہ مضمون جو سورة الرحمن کے آغاز میں آیا تھا ‘ اس سورت کے آخر میں آ رہا ہے اور سورة الرحمن کی مذکورہ چار آیات کے مقابلے میں یہاں اس موضوع پر آٹھ آیات آئی ہیں۔
۞ فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ
📘 آیت 75{ فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ } ”پس نہیں ! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔“ بعض مفسرین نے مَوٰقِعِ النُّجُوم کی وضاحت شہاب ثاقب کے حوالے سے کی ہے ‘ حالانکہ شہاب ثاقب بالکل مختلف چیز ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اسے شیاطین کو عالم بالا سے مار بھگانے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ موجودہ دور میں سائنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اس آیت کو نسبتاً بہتر طور پر سمجھاجا سکتا ہے ‘ اگرچہ ابھی بھی اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ حلال و حرام ‘ جائز و ناجائز ‘ فرائض اور دین کے عملی پہلو سے متعلق قرآنی احکام کی تفہیم و تعمیل کے حوالے سے ہمیں راہنمائی کے لیے ”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو !“ کے مصداق پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہماری نظری و عملی اطاعت کا کمال یہ ہوگا کہ ہم اپنے اسلاف کا دامن تھامے رکھیں اور صحابہ کرام کے اتباع کو لازم جانیں۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے خود کو محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں پہنچا دیں ‘ بقول اقبال : ؎ بمصطفیٰ ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بائو نہ رسیدی تمام بولہبی است !البتہ دوسری طرف کائنات کی تخلیق ‘ کائنات میں زندگی کی ابتدا ‘ تاریخی حوالہ جات اور سائنس کے مختلف شعبوں سے متعلق قرآنی آیات کی تشریح و تعبیر کے لیے ہمیں ہر دور کے اجتماعی انسانی شعور اور دستیاب حقائق و معلومات کو مدنظر رکھنا چاہیے ‘ پھر جہاں مناسب معلوم ہو ان معلومات سے استفادہ بھی کرنا چاہیے اور جب ممکن نظر آئے تکلف سے اجتناب کرتے ہوئے فطری انداز میں قرآنی الفاظ و معانی کا زمینی حقائق کے ساتھ تطابق ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ ایسی آیات کا جو مفہوم آج سے ہزار سال پہلے سمجھا گیا تھا آج ہم اس مفہوم کو ماننے اور درست جاننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ایسی آیات کا تعلق حکمت سے ہے ‘ کسی حکم سے نہیں ہے۔ چناچہ حکمت اور سائنس کے میدان میں تو نئے نئے افق تلاش کرنے کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے ‘ لیکن احکام اور دین کے عملی پہلو کو سمجھنے ‘ سمجھانے کے لیے ماضی سے تعلق جوڑنے اور حضور ﷺ کے فرمان مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کو مشعل راہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب آیئے آیت زیر مطالعہ کو موجودہ دور کی سائنسی معلومات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ موجودہ دور میں سائنس دانوں نے کائنات کے اندر ایسے بیشمار بڑے بڑے اندھے غاروں کا کھوج لگایا ہے جو اپنے پاس سے گزرنے والی ہرچیز کو نگل جاتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ان ”غاروں“ کو Black Holes کا نام دیا ہے۔ ایسے کسی ایک بلیک ہول کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے ستارے پلک جھپکنے میں غائب ہوجاتے ہیں ‘ بلکہ ایسے کروڑوں ستاروں پر مشتمل کہکشائیں بھی ایسے بلیک ہولز کے اندر گم ہو کر معدوم ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کائنات کے اندر مسلسل نئے نئے ستارے جنم لے رہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں وجود میں آرہی ہیں ‘ جبکہ ساتھ ہی ساتھ بیشمار کہکشائیں اپنے اَن گنت ستاروں کے ساتھ مسلسل بلیک ہولز کی نذر ہو کر معدوم ہو رہی ہیں۔ اگرچہ کائنات کے اسرار و رموز سے متعلق آج بھی انسان کی معلومات بہت محدود ہیں لیکن پھر بھی بلیک ہولز کے متعلق اب تک حاصل ہونے والی یہ معلومات بہت ہوشربا ہیں۔ اب اگر ہم اپنی زمین کی جسامت اور وسعت کا نقشہ ذہن میں رکھیں ‘ پھر اس کے مقابلے میں سورج کی جسامت کا اندازہ کریں ‘ پھر یہ تصور کریں کہ کائنات میں ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے اربوں کھربوں ستارے بھی موجود ہیں اور ان ستاروں کے درمیان اربوں نوری سالوں کے فاصلے ہیں ‘ پھر یہ تصور کریں کہ ایسے اَن گنت ستاروں پر مشتمل ان گنت کہکشائیں ہیں ‘ اور ان کہکشائوں کے درمیانی فاصلے بھی اسی تناسب سے ہیں۔ کہکشائوں اور ستاروں سے متعلق یہ تمام معلومات ذہن میں رکھ کر اگر ہم کائنات کے طول و عرض میں موجود لاتعداد بلیک ہولز کا تصور کریں اور پھر یہ نقشہ ذہن میں لائیں کہ ان میں سے ایک ایک بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ وہ اپنے پاس سے گزرنے والی کسی بڑی سے بڑی کہکشاں کو آنِ واحد میں ایسے نگل جاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور پھر ان بلیک ہولز کا اطلاق مَوٰقِعِ النُّجُوْم پر کریں تو شاید ہمیں کچھ کچھ اندازہ ہوجائے کہ اس آیت میں جس قسم کا ذکر ہوا ہے وہ کتنی بڑی قسم ہے۔
وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ
📘 آیت 76{ وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ} ”اور یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو !“ یعنی ابھی تم مَوٰقِعِ النُّجُوْم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ایک وقت آئے گا جب تمہیں ان کی حقیقت سے متعلق معلومات حاصل ہوجائیں گی ‘ پھر تمہیں احساس ہوگا کہ ہم نے تمہارے سامنے یہ کس قدر عظیم قسم پیش کی ہے۔
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ
📘 آیت 77{ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ } ”یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔“ یہاں پر ہم میں سے ہر شخص کو پوری دیانت داری سے اپنا جائزہ لیناچاہیے کہ اس نے اپنی حد تک قرآن مجید کی کیا قدر کی ہے اور کس حد تک اس کے حقوق پورے کیے ہیں ؟ بہرحال جہاں تک ان حقوق کی ادائیگی کا تعلق ہے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی انسان کو ہزاروں زندگیاں مل جائیں اور وہ انہیں ”قرآن“ کے لیے وقف کر دے ‘ تب بھی قرآن کا حق ادا نہیں ہو سکے گا۔
فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ
📘 آیت 78{ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ } ”ایک چھپی ہوئی کتاب میں۔“ یہ قرآن کریم ایک پوشیدہ کتاب میں محفوظ ہے۔ سورة الزخرف کی آیت 4 میں اس کتابٍ مَّکْنُوْنٍ کو اُمِّ الْـکِتَاب کا نام دیا گیا ہے : { وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔ } ”اور یہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند وبالا ‘ بہت حکمت والی !“ جبکہ سورة البروج میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ - فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ } ”بلکہ یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے۔ لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا۔“
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
📘 آیت 79{ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ } ”اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں۔“ یعنی اسے فرشتے ہی چھو سکتے ہیں جو بالکل پاک مخلوق ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی عظمت کے ضمن میں سورة عبس میں فرمایا گیا ہے : { کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ - فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ - فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ - مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍم - بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ - کِرَامٍم بَرَرَۃٍ۔ } ”ہرگز نہیں ‘ یہ تو ایک نصیحت ہے۔ پس جو کوئی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو باعزت ہیں ‘ بلند مرتبہ ہیں ‘ پاکیزہ ہیں۔ ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو معزز اور نیک ہیں۔“ آیت زیر مطالعہ میں الْمُطَہَّرُوْنَسے مراد فرشتے ہیں اور یَمَسُّہٗ میں ہٗ کی ضمیر کا تعلق ”کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ“ سے ہے۔ مَوٰقِعِ النُّجُوم کی قسم کا مقسم علیہ یہ ہے کہ یہ ایک نہایت باعزت اور برتر کلام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک محفوظ کتاب میں ہے ‘ جس تک اس کے پاک فرشتوں کے سوا کسی کی بھی رسائی نہیں۔ یعنی اس کو صرف ملائکہ مقربین ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں ‘ جنات اور شیاطین وہاں پھٹک بھی نہیں سکتے۔ فقہاء نے اس آیت سے یہ حکم بھی استنباط کیا ہے کہ قرآن مجید کو ناپاکی کی حالت میں چھونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو چھونے اور چھوکر پڑھنے کے لیے وضو ضروری ہے ‘ جبکہ زبانی تلاوت بغیر وضو بھی کی جاسکتی ہے ‘ البتہ جنابت کی حالت میں قرآن مجید کے الفاظ کو زبانی پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قرآن کے اصل لب لباب تک پہنچنے اور اس کی ہدایت سے مستفیض ہونے کے لیے باطنی صفائی ضروری ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے قرآن کے ظاہر اور باطن کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں پڑھتے ہیں : { ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُج } الحدید : 3 ”کہ وہ اول بھی ہے ‘ آخر بھی ہے ‘ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے“۔ اسی طرح قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ قرآن کا ظاہر اس کی عبارت اور اس کے الفاظ ہیں۔ جہاں تک قرآن کے اس ظاہر کا تعلق ہے ہر عربی دان شخص اس کے معانی و مطالب کو سمجھ سکتا ہے اور اس کی صرف و نحو پر بحث کرسکتا ہے۔ اس اعتبار سے کئی ایسے غیر مسلموں کی مثالیں بھی موجود ہیں جنہوں نے عربی میں مہارت حاصل کر کے قرآن کے تراجم کیے اور تفسیریں لکھیں۔ لیکن ایسے لوگ قرآن کے باطن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اقبال نے اسی مفہوم میں ایسی ہی بات بندئہ مومن کے بارے میں کہی ہے :فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے !اقبال نے اس شعر میں بندئہ مومن کے وجود کے مرکز کا ذکر کیا ہے۔ بالکل اسی مفہوم میں قرآن مجید کا بھی ”مرکز“ ہے۔ قرآن کے مرکز سے مراد اس کی روح باطنی ‘ اس کی ہدایت ‘ اس کا اصل علم اور اس کا لب لباب ہے۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ اس حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ قرآن مجید کے مرکز nucleus تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تزکیہ باطنی ضروری ہے۔ اس تزکیہ باطنی کا ذکر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی اس دعا میں بھی ہے : { رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ } البقرۃ : 129 ”پروردگار ! ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول خود انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے۔“ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس دعا میں تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر پہلے کیا اور تزکیہ کو آخر پر رکھا ‘ لیکن جب حضور ﷺ کے حوالے سے ان ہی چار امور کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ترتیب بدل دی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تین مقامات البقرۃ : 151 ‘ آل عمران : 164 ‘ الجمعہ : 2 پر حضور ﷺ کی ان ذمہ داریوں کا ذکر کیا اور تینوں مقامات پر تزکیہ کا ذکرتعلیم کتاب و حکمت سے پہلے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی روح باطنی تک رسائی کا طالب ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل کو تکبر ‘ حسد ‘ حب ِدُنیا سمیت تمام خباثتوں سے پاک کرے ‘ ورنہ قرآن مجید کا نور اس کے باطن میں کبھی سرایت نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کا اصل فہم اس پر کبھی منکشف ہوگا ‘ اگرچہ بظاہر وہ قرآن کا بہت بڑا مفسر ہی کیوں نہ بن جائے۔ تزکیہ باطن کے حوالے سے یہاں سورة یونس کی آیت 57 کا پیغام بھی ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کو انسانی دل کی تمام باطنی امراض کے لیے شفا قرار دیا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ } ”اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں کے اَمراض کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور بہت بڑی رحمت۔“
فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
📘 آیت 8{ فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ۔ } ”تو جو داہنے والے ہوں گے ‘ کیا خوب ہوں گے وہ داہنے والے !“ داہنے والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہناہو گا۔۔۔ یا تم لوگوں کو کیا معلوم کہ وہ داہنے والے لوگ کون ہوں گے ‘ ان کی کیا شان ہوگی اور وہ کس کیفیت میں ہوں گے۔ مَیْمَنَۃ ”یمین“ سے بھی ہوسکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں ‘ اور ”یُمن“ سے بھی ہوسکتا ہے جس کے معنی برکت اور خوش نصیبی کے ہیں۔ اس اعتبار سے اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃ کا ترجمہ مبارک لوگ یا خوش نصیب اور نیک بخت لوگ بھی ہوسکتا ہے۔
تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 آیت 80{ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”اس کا اتارا جانا ہے ربّ العالمین کی جانب سے۔“ اور اس کے بعد اب یہ چبھتا ہوا سوال piercing question پوچھا جا رہا ہے :
أَفَبِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ
📘 آیت 81{ اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ۔ } ”تو کیا تم لوگ اس کتاب کے بارے میں مداہنت کر رہے ہو ؟“ اس آیت کا مفہوم ہمیں تب سمجھ آئے گا جب ہم میں سے ہر ایک خود کو اس کا مخاطب سمجھے کہ یہ آیت براہ راست اس سے پوچھ رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! کیا تم اپنے دنیوی معاملات و مفادات کو اللہ کی اس نعمت کے مقابلے میں ترجیح دے رہے ہو ؟ کیا تم اس عظیم کتاب کو سیکھنے سکھانے اور سمجھنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کر رہے ہو ؟ ذرا سوچوتو ! تم نے کیسے کیسے مشکل علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ ان علوم کو سیکھنے کے لیے تم نے کیسی کیسی محنت کی ہے اور کتنا وقت کھپایا ہے ! اس کے مقابلے میں قرآنی زبان سیکھنے کے لیے تم نے کتنی کوشش کی ہے ؟ تو کیا تم نے اپنی دنیا کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظیم نعمت کو پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے ؟
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ
📘 آیت 82{ وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ۔ } ”اور تم نے اپنا نصیب یہ ٹھہرا لیا ہے کہ تم اس کو جھٹلا رہے ہو !“ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کا جھٹلانا ایک تو زبانی ہے اور دوسرا عملی۔ زبانی اور نظریاتی طور پر تو قرآن مجید کو مشرکین عرب جھٹلاتے تھے یا ہر زمانے کے بہت سے غیر مسلم جھٹلاتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ خود محمد ﷺ کی تصنیف ہے۔ جبکہ عملی طور پر اسے ہم مسلمان جھٹلاتے ہیں۔ ہم نظریاتی طور پر تو اسے اللہ کا کلام مانتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر اس کے احکام ماننے سے کھلم کھلا اعراض کرتے ہیں۔ ہماری اس کیفیت کی مثال اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے : { مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰٹۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا } الجمعۃ : 5 کہ جو لوگ حامل تورات بنائے گئے اور پھر انہوں نے اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا ‘ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہو۔ اگر آپ ایک گدھے پر مکالماتِ افلاطون اور انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی تمام جلدیں لاد دیں تو ان کتابوں کو اٹھا لینے سے وہ ان کا عالم تو نہیں بن جائے گا۔ اس آیت کی روشنی میں یہودیوں کے طرزعمل کا جائزہ لیں تو انہوں نے زبان سے کبھی تورات کی تکذیب نہیں کی ‘ بلکہ وہ ابھی تک اسے اپنے سینوں سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس لیے قرآن مجید نے مذکورہ آیت میں ان کی جس تکذیب کا ذکر کیا ہے وہ عملی تکذیب ہے۔ بالکل اسی طرح ہم بھی آج قرآن مجید کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ‘ لیکن عملی طور پر اس کے احکام کی تعمیل سے روگردانی کرکے مذکورہ بالا مثال کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق تو ہمارے اس طرزعمل سے قرآن مجید پر ہمارے زبانی ایمان کی بھی تکذیب ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِِمَہٗ 1 1 سنن الترمذی ‘ ابواب فضائل القرآن ‘ باب ما جاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن مالہ من الاجر ‘ ح : 2918۔ والمعجم الاوسط للطبرانی : 4/337۔”جس نے قرآن کی حرام کردہ اشیاء کو اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں۔“ قرآن مجید کی اس عملی تکذیب کے علاوہ آج ہم مسلمان اس کی ”تکذیب حالی“ کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ تکذیب حالی یہ ہے کہ کسی شخص کا حال اس حقیقت کی گواہی دے رہا ہو کہ اس کے نزدیک فلاں چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے اپنی تکذیب حالی کو سمجھنے کے لیے آپ اپنے ہاں کے ایک عام ڈاکٹر کی مثال لے لیں۔ اس نے رات دن ایک کر کے پچیس سال کی عمر میں ایم بی بی ایس کیا۔ پھر FRCS کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ امریکہ گیا ‘ وہاں جا کر امتحان دیا۔ وہاں کے بورڈز سے یہ ڈپلومہ ‘ وہ ڈپلومہ…! اس پڑھائی میں اس نے اپنی زندگی کے پینتیس چالیس سال کھپا دیے۔ اس کے بعد وہیں ملازمت اختیار کرلی … یا واپس آکر اپنی ملازمت اور پریکٹس میں کو ہلو کے بیل کی طرح جت گیا۔ مشن کیا ہے ؟ معاش اچھی ہوجائے اور معیارِ زندگی بلند ہوجائے ! یہ مشن تو اس نے حاصل کرلیا ‘ لیکن اپنی زندگی کے ماہ و سال میں سے اس نے قرآن مجید سیکھنے کے لیے کوئی وقت نکالا اور اس کے لیے کوئی محنت کی ؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو اس کا حال گویا چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ اس شخص کی زندگی میں قرآن مجید کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے دل کی گہرائیوں میں قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کے بارے میں یقین نہیں۔ یاد رہے کہ سورة الرحمن کی ابتدائی آیات میں قرآن کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب مثبت انداز میں دلائی گئی تھی ‘ جبکہ یہاں سورة الواقعہ کے اختتام پر اسی ترغیب کے لیے منفی انداز اپنایا گیا ہے۔ یعنی سورة الرحمن کی چار ابتدائی آیات کے بین السطور میں یہ پیغام مضمر تھا کہ اگر رحمن نے اپنا کلام ”قرآن“ تمہارے پاس بھیجا ہے اور تمہیں ”بیان“ کی صلاحیت سے بھی نوازا ہے تو تمہاری اس طلاقت لسانی کا بہترین اور لازمی مصرف یہی ہے کہ تم اس صلاحیت کو قرآن کے لیے وقف کر دو۔ جبکہ یہاں سورة الواقعہ کی ان آیات میں یہ تنبیہہ مضمر ہے کہ جو لوگ قرآن کے حقوق کماحقہ ادا نہیں کرتے آخرت میں انہیں اس کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا اور کوتاہی ثابت ہونے پر ان کی سخت گرفت ہوگی۔
فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ
📘 جیسا کہ قبل ازیں بھی بار بار ذکر ہوا ہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ باہم جوڑا ہیں اور ان کے مضامین بھی باہم مشابہ و مربوط ہیں۔ البتہ زیر مطالعہ آیات کا مضمون صرف اسی سورت میں آیا ہے۔ اس کے مقابل سورة الرحمن میں ایسا کوئی مضمون نہیں ہے۔ گویا یہ مضمون اس سورة کی اضافی شان ہے۔آیت 83{ فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۔ } ”تو کیوں نہیں ‘ جب جان حلق میں آ کر پھنس جاتی ہے۔“
وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ
📘 آیت 84{ وَاَنْتُـمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ۔ } ”اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔“ ان آیات میں ایک انسان کے وقت ِنزع کی کیفیت کا عبرت انگیز نقشہ پیش کر کے دعوت فکر دی گئی ہے کہ ذرا سوچو ! جب تم میں سے کسی کی جان حلق میں پھنسی ہوتی ہے۔ تم اس وقت کا تصور کرو جب تم میں سے کسی کے بیٹے ‘ کسی کے بھائی ‘ کسی کے والد ‘ کسی کی والدہ یا کسی کی بیوی پر نزع کا عالم طاری ہوتا ہے اور وہ بےبسی کی تصویر بنے اپنے اس عزیز کی اس کیفیت کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَٰكِنْ لَا تُبْصِرُونَ
📘 آیت 85{ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”اور ہم تمہارے مقابلے میں اس سے قریب تر ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں پاتے۔“ یہ تو تخصیص کے ساتھ عالم نزع کی کیفیت کا ذکر ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر بندے کے ساتھ ہوتا ہے ‘ جیسا کہ سورة قٓ میں فرمایا گیا ہے : { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم تو انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں۔“
فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ
📘 آیت 86 ‘ 87{ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ رض تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو اگر تم کسی کے اختیار میں نہیں ہو تو اس جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو ؟“ یہاں الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان دونوں آیات کو ملانے سے ایک فقرہ مکمل ہوتا ہے۔ قرآن کے خصوصی اسلوب کی وجہ سے لَوْلَا پہلی آیت کے شروع میں آگیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم دوسری آیت کے ساتھ ملنے سے واضح ہوتا ہے۔ چناچہ مفہوم کی وضاحت کے لیے یوں سمجھیں کہ ان دونوں آیات میں الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : فَاِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ‘ لَوْلَا تَرْجِعُوْنَہَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ؟ کہ تم لوگ آئے دن اپنے عزیز و اقارب کی اموات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو تم سب مل کر بھی اور اپنے تمام وسائل استعمال میں لا کر بھی اس کو بچا نہیں پاتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارے بڑے بڑے صاحب اختیار و اقتدار لوگ بھی بالکل بےبس ہوجاتے ہیں۔ شاہی اطباء اور ماہر ڈاکٹرز کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت ان کی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ تم خود ہی پیدا ہوتے ہو اور خود ہی مرتے ہو اور تمہاری زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر بےبسی کی تصویر بن کر کیوں رہ جاتے ہو ؟ اپنے وسائل کو استعمال میں لا کر انہیں بچا کیوں نہیں لیتے ہو ؟ اس کے بعد اگلی آیات میں ان تین گروہوں کی جزا و سزا کا تذکرہ ہے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوا تھا۔
تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 آیت 86 ‘ 87{ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ رض تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو اگر تم کسی کے اختیار میں نہیں ہو تو اس جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو ؟“ یہاں الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان دونوں آیات کو ملانے سے ایک فقرہ مکمل ہوتا ہے۔ قرآن کے خصوصی اسلوب کی وجہ سے لَوْلَا پہلی آیت کے شروع میں آگیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم دوسری آیت کے ساتھ ملنے سے واضح ہوتا ہے۔ چناچہ مفہوم کی وضاحت کے لیے یوں سمجھیں کہ ان دونوں آیات میں الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : فَاِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ‘ لَوْلَا تَرْجِعُوْنَہَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ؟ کہ تم لوگ آئے دن اپنے عزیز و اقارب کی اموات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو تم سب مل کر بھی اور اپنے تمام وسائل استعمال میں لا کر بھی اس کو بچا نہیں پاتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارے بڑے بڑے صاحب اختیار و اقتدار لوگ بھی بالکل بےبس ہوجاتے ہیں۔ شاہی اطباء اور ماہر ڈاکٹرز کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت ان کی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ تم خود ہی پیدا ہوتے ہو اور خود ہی مرتے ہو اور تمہاری زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر بےبسی کی تصویر بن کر کیوں رہ جاتے ہو ؟ اپنے وسائل کو استعمال میں لا کر انہیں بچا کیوں نہیں لیتے ہو ؟ اس کے بعد اگلی آیات میں ان تین گروہوں کی جزا و سزا کا تذکرہ ہے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوا تھا۔
فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ
📘 آیت 88{ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ } ”پھر اگر وہ مقربین میں سے تھا۔“ یعنی اگر مرنے والا شخصسابقون میں سے تھا۔ اپنی زندگی میں { فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِط } المائدۃ : 48 کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مسابقت کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مثال بنتا رہا تھا :
فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ
📘 آیت 89{ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ لا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۔ } ”تو اس کے لیے راحت اور سرور اور نعمتوں والی جنت ہے۔“
وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ
📘 آیت 9{ وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ۔ } ”اور جو بائیں والے ہوں گے ‘ تو کیا حال ہوگا بائیں والوں کا !“ مَشْئَمَۃ ”شئوم“ سے ہے ‘ جس کے معنی بدنصیبی اور نحوست کے ہیں۔ عربوں کے ہاں جس طرح داہنی جانب خوش قسمتی اور برکت کی علامت سمجھی جاتی تھی اسی طرح بائیں جانب کو منحوس خیال کیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے ان دونوں مادوں میں مستقل طور پر برکت اور نحوست کے معنی بھی شامل ہوگئے ہیں۔ چناچہ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃ کا دوسرا ترجمہ بدقسمت ‘ بدبخت اور برے لوگ بھی کیا گیا ہے۔ اردو لفظ ”شوم“ شومئی قسمت وغیرہ بھی اسی سے مشتق ہے۔ بہرحال دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جو دربارِ الٰہی میں بائیں جانب کھڑے کردیے جائیں گے اور بہت برے انجام سے دوچار ہوں گے۔
وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ
📘 آیت 90{ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ۔ } ”اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے تھا۔“ اگرچہ وہ ”سابقون“ میں سے تو نہیں تھا لیکن نیک تھا اور دین کی خدمت میں حسب ِاستطاعت کوشاں رہتا تھا :
فَسَلَامٌ لَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ
📘 آیت 91{ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ۔ } ”تو سلامتی پہنچے آپ کو اصحاب الیمین کی طرف سے۔“ اے نبی ﷺ ! آپ اطمینان رکھیں کہ آپ کی امت کے اصحاب الیمین بھی عیش میں ہوں گے اور جنت کی ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوچکا ہے۔ 1 1 اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اصحاب یمین کی طرف سے اس کا استقبال کیا جائے گا اور اسے سلام کہا جائے گا۔ جب کہ بعض مفسرین نے اس جملے میں اَنْتَ محذوف مانا ہے۔ یعنی تقدیر عبارت یوں ہے : فسلام لک انت من اصحٰب الیمین کہ تیرے لیے اب سلامتی ہی سلامتی ہے ‘ تو اصحاب یمین میں شامل ہے ! حاشیہ از مرتب
وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ
📘 آیت 92{ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ۔ } ”اور اگر وہ تھا جھٹلانے والوں اور گمراہوں میں سے۔“ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قبل ازیں دوسرے رکوع میں جب اس گروہ کا ذکر ہوا تو وہاں ان لوگوں کو ”اَیُّھَا الضَّآلُّـــوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ“ کہہ کر مخاطب فرمایا گیا تھا ‘ لیکن یہاں پر انہیں ”الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ“ کہا گیا ہے۔ یعنی یہاں پر الفاظ کی ترتیب بدل گئی ہے۔ بظاہر اس کی توجیہہ یہ سمجھ آتی ہے کہ سزا کے حوالے سے ان کے بڑے اور اصل جرم کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ حق کو جھٹلا دینے کے مقابلے میں گمراہی نسبتاً چھوٹا جرم ہے ‘ کیونکہ کسی گمراہ اور بھٹکے ہوئے شخص کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھا دے تو ممکن ہے وہ اسے قبول کرلے۔ لیکن جو حق کو جھٹلا دے اس کا سیدھے راستے پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔
فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ
📘 آیت 93{ فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ۔ } ”تو اس کے لیے مہمانی ہے کھولتے پانی سے۔“
وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ
📘 آیت 94{ وَّتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ۔ } ”اور جہنم میں جلنا۔“ یعنی ان لوگوں کی ابتدائی تواضع تو کھولتے ہوئے پانی سے ہوگی۔ اس کے بعد ان کو جہنم کے اصل عذاب میں جھونک دیا جائے گا۔
إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ
📘 آیت 95{ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ۔ } ”یقینا یہ سب کچھ قطعی حق ہے۔“ بیشک یہ ساری باتیں سچی اور یقینی ہیں۔ یہ سب تفصیلات جو اس سورت میں بیان ہوئی ہیں ان کے بارے میں تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ ہو کر رہنا ہے۔ قیامت کے دن تمام نوع انسانی کو مذکورہ بالا تین گروہوں میں تقسیم کر کے ہر گروہ کے افراد کو ان کے اعمال و اعتقادات کے مطابق بدلہ دیا جانا ہے۔
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ
📘 آیت 96{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ۔ } ”پس آپ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔“ اس کے جواب میں امتثالِ امر کے طور پر کہا جائے گا : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ! یہ آیت اس سورت میں دو مرتبہ آئی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا : اِجْعَلُوْھَا فِیْ رُکُوْعِکُمْ 1 1 سنن ابی داوٗد ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ ‘ ح : 869 و صحیح ابن حبان ‘ ح : 1898۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جب آیت { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی۔ } الاعلیٰ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اِجْعَلُوْھَا فِیْ سُجُُوْدِکُمْ کہ اس کو تم لوگ اپنے سجدوں میں رکھ دو۔کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھ دو۔ چناچہ حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق رکوع کی تسبیح سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اس آیت سے اخذ کی گئی ہے۔